محمد اکبر نوتیزئی
انگریزی سے ترجمہ: قیصر عباس
کوئٹہ کراچی شاہراہ پر سبز رنگ کا ایک مڑا تڑا سا ئن ضلع لسبیلہ کے قصبے بیلہ کے ایک گاؤں گنگا گوٹھ پپرانی کی جانب اشارہ کر رہا ہے۔ یہ گاؤں حالیہ بارشوں اور سیلاب کی زد میں آ کر تباہ ہو چکا ہے۔
لسبیلہ اس سیلاب میں بلوچستان کے سب سے زیادہ تباہ ہونے والے ضلعوں میں سے ایک ہے۔ صوبے میں تباہ کاریوں سے نبٹنے والے ادارے ’Provincial Disaster Management Authority (PDMA)‘ کے مطابق یہاں اب تک 27 اموات ہو چکی ہیں۔ ڈپٹی کمشنر کے دفتر کی اطلاع ہے کہ یہا ں چھ افراد زخمی ہوئے، 5 ہزار سے 8 ہزار گھروں کو نقصان پہنچاہے، 87 ہزار سے زیادہ مویشی لاپتہ ہیں اور 57 ہزار سے زیادہ ایکڑ پر پھیلی فصلیں تباہ ہو گئی ہیں۔ حب، بیلہ، اوتھل اور دریجی کے قصبے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
سانپ کی طرح بل کھاتی ایک کچی سڑک شاہراہ سے نکل کر سرسبز کھیتیوں سے گزرتی ہے جہاں کہیں کہیں درخت اور جھاڑیاں سراٹھا تے نظر آتے ہیں۔ گنگاگوٹھ پپرانی علاقے کے دوسرے گاؤں کی طرح مکمل طور پر سیلاب کی نذ رہو چکا ہے، بچی کھچی جھونپڑیاں اور کچے مکانات بتاتے ہیں کہ یہاں کچھ لوگ رہا کرتے تھے۔
پندرہ منٹ کی ڈرائیو کے بعد ہمیں مٹی کا ایک گھر دکھائی دیا۔ یہ اس بدنصیب خاندان کا گھر ہے جس کے چار افراد سیلاب میں بہہ گئے تھے۔ ان میں چالیس سالہ یار محمد، اس کی تیس سالہ بیوی ناز جان، دوسالہ بیٹی زینب اور سات سالہ بیٹا یوسف شامل تھے۔
اس غم زدہ خاندان کے لئے یہ کوئی نیاحادثہ نہیں۔ تقریبا ًپندرہ سال پہلے بھی یار محمد کی ماں اور بہن کراچی کی لیاری ندی میں ڈوب گئی تھیں۔ مگر یہ سیلاب اردگرد کی آبادیوں کے لئے زخموں کا نیا تحفہ ہیں جس نے علاقے کومکمل تباہی کے کنارے پہنچا دیا ہے۔
کراچی کے قریب لسبیلہ چھوٹے پیمانے پر بلوچستان کی تصویرپیش کرتاہے جہاں ساحل سمندر، پہاڑیاں، میدان اور دریا ایک دوسرے سے ہم آغوش نظرآتے ہیں۔ بیش قیمت معدنی ذخائر کی اس سرزمین پر زراعت لوگوں کی روز مرہ زندگی کا بنیادی سہارا ہے۔
کوئٹہ سے تقریبا دس گھنٹے کی ڈرائیو پر لسبیلہ سابق وزیر اعلیٰ جام کمال کا آبائی علاقہ ہے جن کے خانوادے نے بلوچستان کو کئی وزرائے اعلیٰ بھی دئے۔ لیکن اتنے بااثر خاندان کے ہوتے ہوئے بھی یہ ضلع بد انتظامی کا نادر نمونہ ہے۔ پپرانی کے کچھ مقامی لوگوں نے ہمیں بتایاکہ علاقہ ابھی تک بجلی کی سہولت سے محروم ہے اور اس سیلاب نے اسے ایک اجڑے ہوئے صحرا میں تبدیل کر دیاہے۔
یار محمدکے لئے فاتحہ پڑھنے کے بعد ہم اس کے والد کے گھر گئے۔ عطامحمدنے نم ناک آنکھوں کے ساتھ اس حادثے کی روداد سنائی جب سیلاب کا ریلااس کے بھائی کاپوراخاندان بہاکر لے گیا تھا: ”25 جولائی کی اس بھیانک رات ہم سب جاگتے رہے، صبح چار بجے کے قریب پورا علاقہ پانی میں ڈوب چکا تھا۔ ہمیں ڈر تھا کہ شدید بارش سے ہمارے گھر نہ ڈھہ جائیں یا ان کی چھتیں ہم پر نہ گر پڑیں۔“
عطا محمد نے بتا یاکہ ”صبح سویرے سیلاب کا زور کم ہو ا تو دوسرے لوگوں کی طرح ہم بھی کھڑے پانیوں میں اپنے پیاروں کو ڈھونڈھنے نکلے۔“ اپنے بھائی کے گھر لے جاکر اس نے ہمیں بتا یا کہ جب وہ یہاں پہنچے تو پورے خاندان کا نام و نشان تک باقی نہیں تھا۔
گھرکے اطراف اجڑے ہوئے کھیتوں میں اپنے پیاروں کو تلاش کرتے ہوئے عطامحمد کے دل کی دھڑکن تیز ہوتی جارہی تھی اور بالآخروہ آثار بھی ظاہر ہو گئے جس سے ان کے تمام خدشات صحیح ثابت ہوئے ”پانی کے قریب ہی قدموں کے کچھ نشانات تھے جو ظاہر کر رہے تھے کہ سب اہل خانہ سیلاب کی نذر ہوچکے ہیں مگر پھر بھی امید کہ ہلکی سی کرن باقی تھی کہ شاید وہ یہیں کہیں زندہ مل جائیں۔“
عطا محمد نے قدموں کے نشانات سے اندازہ لگایا کہ یار محمد کی بیوی ناز جان اور بیٹا یوسف پہلے سیلاب میں بہہ گئے پھرباپ اور بیٹی بھی انہیں بچانے کی تگ و دو میں دوڑے مگرکوئی بھی نہ بچ سکا۔
امڈتا ہوا سیلاب کپاس کی فصلیں بھی اپنے ساتھ بہا لے گیاتھا اوردورافق کی لکیر کے ساتھ کچھ درخت کھڑے نظرآرہے تھے۔ ان ہی درختوں میں پھنسی لاشیں ان بدقسمت لوگوں کی دلدوز کہانی سنا رہی تھیں۔ ”بلوچ روایت کے مطابق لوگ جمع ہوکرمرنے واروں کا پرسہ دیتے ہیں“ عطا محمد کہہ رہا تھا۔ ”یار محمد کی گمشدگی کی خبر سن کر آس پاس کے گاؤں والے انہیں ڈھونڈھنے نکلے۔ عطا نے درختوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ”ہمارے پیاروں کے جسم بھی ان ہی درختوں کے پاس پڑے تھے۔“
ادھر گیسٹ ہاؤس میں عطا محمد کے ستر سالہ بوڑھے والداحمد کا کہنا تھا کہ اپنے آبائی گاؤں میں انہوں نے ایسا ہیبت ناک سیلاب پہلے کبھی نہیں دیکھا ”ایسالگتا تھا کہ بیلہ کو چاروں طرف سے سمند ر نے گھیر لیاہو۔“
احمد نے بتایا کہ ”ہم سب کھیتوں میں مزدور ی کرکے پانچ سو روپے روزانہ کماتے تھے۔ “ ہمارے پوچھنے پر کہ اب کھیتیاں اجڑ چکی ہیں، ان کا گزاراہ کیسے ہوگا اس کا کہنا تھا ”ہم غریب لوگ تھے، اب بھی غریب ہیں، غریب ہی رہیں گے مگر کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے۔“
یہاں کے ایک اور ستر سالہ باسی غلام فرید کی قسمت اچھی تھی۔ اس نے بارشوں سے پہلے اپنے اہل خانہ کو ایک رشتہ دارکے گھر منتقل کردیاتھا۔ اس کے مکان کو خاصا نقصان پہنچا لیکن خاندان محفوظ رہا۔ پینتیس سال ایک کمپنی میں کام کرنے کے بعد اس نے کچھ دن پہلے ہی پورالی ندی کے کنارے ایک پکا مکان بنوایا تھا۔ ہم بزنجو پاڑہ میں اس کے مخدوش مکان کے سامنے کھڑے تھے اور وہ کہہ رہا تھااسے خوشی اس بات کی ہے کہ اس کے خاندان کی جان بچ گئی لیکن ”اس مکان کو دوبارہ بنوانے میں مجھے آئندہ پینتیس سا ل اور کام کرنے پڑے گا مگر میں شاید اس وقت تک زندہ نہ رہوں؟“
ان دردناک مصائب کے باوجود سیلاب سے زندہ بچ نکلنے والوں کے حوصلے بلند ہیں۔ یار محمد کے بوڑھے باپ کا عزم اس عمر میں بھی جوان ہے، وہ کہہ رہا تھا ”ہم سخت محنت کریں گے اور ازسر نو اپنی زندگی کا آغاز کریں گے۔“
بشکریہ: ڈان