کولمبو (فاروق سلہریا) ’تمام اشارے سامنے آ چکے ہیں۔ عالمی معاشی بحران شروع ہے۔ اب یہ اپنے عروج کی جانب بڑھے گا‘۔ گذشتہ روز ان خیالات کا اظہار ایرک توساں نے کولمبو میں ہونے والی سی ڈی اے ٹی ایم، جنوبی ایشیا، کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
ایرک توساں عالمی شہرت یافتہ مارکسی معیشت دان ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے وہ یونیورسٹی پروفیسر ہیں۔ ان کی وجہ شہرت عالمی قرضوں کے خلاف ان کی مہم اور تحقیق ہے۔ قرضوں کے موضوع پر وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی کتابیں مثلاً ’یو ر منی اور یور لائف‘ کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا عالمی معیشت سست روی کا شکار ہو گئی ہے۔ ”سری لنکا میں جو ہوا وہ کوئی منفرد بات نہیں۔ لاطینی امریکہ، شمالی امریکہ اور افریقہ کے بعض ملکوں میں بھی معاشی بحران شروع ہے“۔ انہوں نے کہا یہ معاشی بحران سیاسی لحاظ سے اتھاریٹیرین رجحانات، خوراک کا بحران اور ماحولیات کے بحران کو تیز کرے گا۔ ان کے مطابق یوکرین کی جنگ، جس میں ناٹو پراکسی کے طور پر حصہ لے رہا ہے، اس بحران کو تیز کرنے کا موجب بنی ہے۔ ان کا کہنا تھا یہ معاشی بحران ابھی عروج پر نہیں پہنچا مگر اس طرف گامزن ہے۔
بحران کی وجوہات اور ڈالر کی بڑھتی قیمت
ان کا تجزیہ تھا کہ اس بحران کی اصل وجہ شرح منافع میں کمی ہے۔ گو امیر امیر تر ہو رہے ہیں مگر ان کا منافع کم ہو رہا ہے۔ ”نتیجہ اس کا یہ نکلا ہے کہ سرمایہ دار پیدواری کاموں میں سرمایہ کاری کرنے کی بجائے سٹاک میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ “ انہوں نے وضاحت کی کہ اسی عمل سے جڑی یہ بات ہے کہ امریکہ نے ڈالر پر شرح سود بڑھا دی۔ ان کا کہنا تھا کہ سال پہلے فیڈرل ریزرو بینک کوئی سود نہیں لے رہا تھا مگر اب تین فیصد سود مل رہا ہے لہٰذا پہلے سرمایہ سامراجی ممالک سے تیسری دنیا کے سٹاک میں جا رہا تھا مگر اب وہاں سے امریکہ آ رہا ہے جس کی وجہ سے ڈالر اوپر چلا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بحران کی ایک علامت یہ ہے کہ بٹ کوئن کے نام پر جو ’غیر موجود‘ سر مایہ تھا، وہ تین ہفتے پہلے غائب ہو گیا۔ ساتھ ہی ٹیسلا، فیس بک، ایمازون وغیرہ کے سٹاک گر گئے ہیں اور ایمازون اپنے مزدوروں کی چھانٹیاں کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بحران کی زد میں غریب ممالک بری طرح آئیں گے۔ قرضوں کا بوجھ بڑھے گا، ماحولیات کی مزید تباہی ہو گی اور آمرانہ سیاسی رجحان بڑھیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ تیسری دنیا کے ممالک کو اپنے قرضے دینے سے انکار کر نا چاہئے۔ اپنے عوام کی بھلائی پر خرچ کرنا چاہئے اور جو حکومتیں ایسا نہیں کرتیں انہیں عوام اپنی طاقت سے اقتدار سے محروم کر دیں۔