لاہور (جدوجہد رپورٹ) فلسطینی نکبہ (تباہی) کے واقعات سے متاثرہ فلم نیٹ فلکس پرریلیز کر دی گئی ہے، جس کے بعد اسرائیلی اہلکاروں نے اس فلم پر شدید رد عمل ظاہر کیا ہے۔
’مڈل ایسٹ آئی‘ کے مطابق اسرائیلیوں کا کہنا ہے کہ اردن کے فلمساز دارین سلام کی فلم ’فرح‘ نکبہ کے بارے میں ایک غلط بیانیہ پیش کر رہی ہے۔ نکبہ میں 7 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو موجودہ اسرائیل سے نکال دیا گیا تھا۔
فلم میں ایک نو عمر لڑکی 1948ء میں اس کے گاؤں پر صیہونی افواج کی آمد کے وقت ایک بچے سمیت اپنے پورے خاندان کے قتل کی گواہ ہے۔
اس فلم کو حقیقی واقعات سے متاثر قرار دیا جا رہا ہے، یہ دنیا بھر کے متعدد فلمی میلوں میں دکھائی گئی اور یکم دسمبر کو نیٹ فلکس پر ریلیز کی گئی ہے۔
اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے سبکدوش ہونے والے وزیر خزانہ اویگڈور لائبرمین نے اس فلم کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ پاگل پن ہے کہ نیٹ فلکس نے ایک ایسی فلم کو اسٹریم کرنے کا فیصلہ کیا، جس کا پورا مقصد جھوٹا ڈرامہ بنانا اور اسرائیلی فوجیوں کے خلاف لوگوں کو اکسانا ہے۔‘
اسی طرح کے جذبات کا اظہار اسرائیل کے وزیر ثقافت نے بھی کیا اور انکا کہنا تھا کہ اسرائیلی تھیٹروں میں فلم دکھانا بے عزتی ہو گا، انہوں نے مزید کہا کہ فلم میں جھوٹ اور بدتمیزی دکھائی گئی ہے۔
لائبرمین نے یہ بھی کہا کہ وہ جافا کے عرب عبرانی تھیڑ سے ریاستی فنڈنگ واپس لینے پر غور کرینگے، جس نے فلم کی نمائش کی تھی۔
تاہم فلسطینیوں اور ان کے حامیوں نے فلم کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلم میں ایسا کچھ نہیں ہے، جو حقیقت میں نہ ہوا ہو۔
فلسطینی نسل سے تعلق رکھنے والی دارین سلام نے یہ اپنی پہلی فلم اپنے والد کی طرف سے چھوٹی عمر میں سنائی گئی کہانی سے متاثر ہو کر بنائی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ حقیقی واقعات پر مبنی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ایک چھوٹی سی جگہ میں پھنسے ہوئے مظالم کی گواہی دینے والی لڑکی کے بیانات ان کے ذہن میں گونج اٹھے اور انہوں نے اپنی فلم میں اس طرح کی عکاسی شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔
ایک انٹرویو میں انکا کہنا تھا کہ ’میں سچ بتانے سے نہیں ڈرتی۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے یہ فلم بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس لئے نہیں کہ میں سیاسی ہوں، بلکہ اس لئے کہ میں اس کہانی کے ساتھ وفادار ہوں، جو میں نے سنی ہے۔‘
انکا کہنا تھا کہ ’میں چاہتی ہوں کہ سامعین اس نوجوان لڑکی کے سفر کو زندہ رکھیں۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ دیکھیں کہ یہ لوگوں پر مشتمل ایک سرزمین ہے اور وہ اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں، اچھے اور برے لمحات کا سامنا کر رہے ہیں، جب تک کہ یہ سب کچھ ختم نہ ہو جائے۔‘
دارین کو درجنوں حامیوں کی حمایت حاصل ہے، جنہوں نے 1948ء کے واقعات کے دوران فلسطینی تجربے کی تصویر کشی کیلئے فلم کی تعریف کی۔
الجزیرہ کے سابق صحافی احمد الدین نے بھی فلم کی حمایت میں آواز اٹھائی۔ انکا کہنا تھا کہ ’اسرائیلی حکومت ’فرح‘ پر مکمل گھبراہٹ کے موڈ میں ہے، دارین کی ایک طاقتور اور دل کھولنے والی فلم جو نکبہ (7 لاکھ فلسطینیوں کی نسلی صفائی) کے بارے میں نوجوان لڑکیوں کے نقطہ نظر کی کہانی سنانے کی جرات کرتی ہے۔‘
واضح رہے کہ متعدد اسرائیلی مورخین نے بھی ریاست کے قیام تک اسرائیلی مظالم کے بارے میں بڑے پیمانے پر لکھا ہے۔