شاعری

المیہ مشرقی پاکستان: شاعر بمقابلہ جرنیل اور سیاستدان

فاروق سلہریا

یہ مضمون گزشتہ سال 17 دسمبر کو شائع کیا گیا تھا۔ بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے 54 سال مکمل ہونے کے موقع پر قارئین کی دلچسپی کےلئے اسے دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔

جس دن مشرقی پاکستان میں خوفناک فوجی آپریشن شروع ہوا، بھٹو اسی روز مغربی پاکستان لوٹ آئے اور کراچی پہنچ کر بیان دیا کہ پاکستان بچ گیا ہے۔

یحییٰ خان کی قیادت میں ملک پر مسلط فوجی ٹولہ خون کی ہولی کھیلنے کے علاوہ زبردست بڑھک بازی میں مصروف تھا۔ عمومی طور پر مغربی پاکستان مشرقی پاکستان سے لاتعلق رہا حالانکہ ان کے نام پر ڈھاکہ میں خون کی ندیاں بہائی جا رہی تھیں۔

طاہرہ مظہر علی کی قیادت میں لاہور کی کچھ خواتین نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ وارث میر جیسے کچھ دانشور بھی اس کے خلاف تھے مگر سب سے توانا آواز شاعروں کی تھی۔

شاعر عوام حبیب جالب نے یحییٰ خان کو تنبیہہ کی:

محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو

پاکستان کی سیاسی تاریخ دیکھیں تو اندازہ ہو گا کہ عام طور پر پاکستان کے ترقی پسند شاعر اور لکھاری سیاستدانوں، جرنیلوں اور نظریہ دانوں سے زیادہ بڑے وژنری ثابت ہوئے۔ جالب نے جو بات مشرقی پاکستان بابت کہی، اب لوگ بلوچستان کے حوالے سے دہرا رہے ہیں۔ تاریخ سے سبق نہ سیکھو تو تاریخ لوٹ کر واپس آتی ہے۔

عبید اللہ علیم نے بھی مشرقی پاکستان میں جاری نسل کشی پر بھرپور احتجاج کیا:

میں یہ کس کے نام لکھوں جو اَلَم گزر رہے ہیں
مرے شہر جل رہے ہیں مرے لوگ مر رہے ہیں

کوئی غْنچہ ہو کہ گْل ہو، کوئی شاخ ہو شجَر ہو
وہ ہَوائے گلستاں ہے کہ سبھی بکھر رہے ہیں

کبھی رَحمتیں تھیں نازِل اِسی خِطّہ زمیں پر
وہی خِطّہ زمیں ہے کہ عذاب اْتر رہے ہیں

وہی طائروں کے جھْرمَٹ جو ہَوا میں جھْولتے تھے
وہ فَضا کو دیکھتے ہیں تو اب آہ بھر رہے ہیں

بڑی آرزو تھی ہم کو نئے خواب دیکھنے کی
سو اب اپنی زندگی میں نئے خواب بھر رہے ہیں

کوئی اور تو نہیں ہے پسِ خنجر آزمائی
ہمِیں قتل ہو رہے ہیں، ہمِیں قتل کر رہے ہیں

یہ غزل نوے کی دہائی میں بہت مقبول ہوئی۔ عام طور پر سمجھا جاتا تھا کہ عبیداللہ علیم نے یہ غزل کراچی کے حالات بارے لکھی ہے۔ تاریخ سے سبق نہ سیکھو تو تاریخ لوٹ کر واپس آتی ہے۔

فیض احمد فیض بھی مشرقی پاکستان میں جاری المناک عمل پر رنجیدہ تھے۔ انہوں نے بھی اپنا طاقتور قلم اٹھایا اور لکھا:

میری آنکھوں میں امنڈ آئی توکچھ چارہ نہ تھا
چارہ گر کی مان لی
اور میں نے گرد آلود آنکھوں کو لہو سے دھو لیا

میں نے گرد آلود آنکھوں کو لہو سے دھو لیا
اور اب ہر شکل و صورت
عالمِ موجود کی ہر ایک شے
میری آنکھوں کے لہو سے اس طرح ہم رنگ ہے

خورشید کا کندن لہو
مہتاب کی چاندی لہو
صبحوں کا ہنسنا بھی لہو
راتوں کا رونا بھی لہو

ہر شجر مینارِ خوں، ہر پھول خونیں دیدہ ہے
ہر نظر اک تارِ خوں، ہر عکس خوں مالیدہ ہے

موجِ خوں جب تک رواں رہتی ہے اس کا سرخ رنگ
جذبہء شوقِ شہادت، درد، غیظ و غم کا رنگ

اور تھم جائے تو کجلا کر
فقط نفرت کا، شب کا، موت کا،
ہر اک رنگ کے ماتم کا رنگ

چارہ گر ایسا نہ ہونے دے
کہیں سے لا کوئی سیلابِ اشک

آبِ وضو
جس میں دْھل جائیں تو شاید دھْل سکے
میری آنکھوں،میری گرد آلود آنکھوں کا لہو…

چارہ گر نے کبی بھی فیض، جالب، دامن، جون ایلیا، منٹو یا عبیداللہ علیم کی باتوں پر توجہ نہیں دی۔ نتیجہ: تاریخ کراچی،بلوچستان، اے پی ایس پشاور، ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘، فرقہ واریت اور اس طرح کی مختلف شکلوں میں باقی ماندہ پاکستان میں دہراتی رہتی ہے۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔