لاہور (جدوجہد رپورٹ) ایرانی مزاحمتی تحریک کے سرخیل 23 سالہ محسن شیکاری نے پھانسی سے قبل اونچی آواز میں ’جانم فدائے ایران‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے اپنی قربانی ایران کے نام کی۔
’اے بی سی نیوز‘ کے مطابق محسن کو 8 دسمبر کو تہران کے قریب کاراج کی ایک جیل میں انتہائی غیر منصفانہ اور جعلی مقدمہ قائم کر کے میں پھانسی دی گئی۔ان پر 25 ستمبر کو احتجاج کے ابتدائی مرحلے کے دوران ایک سڑک بلاک کرنے اور حکومت نواز ملیشیا بسیج کے ایک رکن کو زخمی کرنے کا الزام تھا۔
واقعہ کے ہفتوں بعد ایران کی ایک عدالت نے ’محاربہ‘ یعنی خدا کے خلاف دشمنی یا خدا کے خلاف جنگ کے قانون کے تحت مجرم قرار دیا۔ یہ قانون 1979ء میں موجودہ ملا اشرافیہ کے اقتدار میں آنے کے بعد متعارف کروایا گیا تھا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کم از کم 20 دیگر ایسے افراد کی نشاندہی کی ہے، جنہیں مظاہروں کے سلسلے میں اسی طرح کے الزامات کا سامنا ہے اور انہیں پھانسی کا خطرہ ہے۔ ان افراد میں سے کچھ نوعمر لڑکے بھی شامل ہیں۔
گزشتہ جمعرات کو ایرانی فٹ بال کھلاڑی میر نصرازدانی پر بھی ’خدا کے خلاف دشمنی‘ اور دیگر جرائم کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے خلاف ایران کا پھانسی کی سزاؤں کے ذریعے سے احتجاج یا مزاحمت کو کچلنے کا پرانا طریقہ اب الٹا اثر کر سکتا ہے، یہ اقدام اب ایران کی نوجوان آبادی کو مزید مشتعل کر سکتا ہے اور بغاوت کو ہوا دے سکتا ہے۔
محسن شیکار ی کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ انہیں حکومت نے دھمکی دی ہے کہ وہ میڈیا سے بات نہ کریں۔ حکومت کی طرف سے ان پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔
اہل خانہ کے مطابق محسن شیکاری فیشن بوتیک، ریستوران اور کیفے میں کام کرتے تھے، سماجی طور پر بھی بہت متحرک تھے۔
خاندان کے ایک رکن نے دعویٰ کیا کہ جیل میں محسن کو کہا گیا کہ اگر وہ اعتراف جرم نہیں کرتا تو اس کی بہن سمیت تمام خاندان کے افراد کو قید کر دینگے۔ جب پھانسی سے پہلے ان کی ماں جیل میں ان سے ملنے گئیں تو ان کا جسم زخموں سے چور تھا۔
ان کے دوستوں کا کہنا ہے کہ محسن شیکاری کو اپنی مرضی کے وکیل کی اجازت بھی نہیں دی گئی اور انہیں دھوکہ دہی اور جبری اعتراف جرم کروا کر سزا دی گئی۔