تاریخ

بیادِ کامریڈ لطیف آفریدی: مارکسسٹ منارہ نور

محمد تقی

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

سال تھا 1987ء۔ بہار کا موسم تھا۔ میں بلور ہاوس پشاور کے ڈرائنگ روم میں جام ساقی سے باتیں کر رہا تھا۔ کمیونسٹ پارٹی پاکستان کے جنرل سیکرٹری پروفیسر جمال نقوی بھی پاس ہی کھڑے تھے۔ جام ساقی کمیونسٹ پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کے رکن تھے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انہیں ضمیر کا قیدی قرار دیا ہوا تھا۔ وہ چند روز پہلے، سات سال تک ضیا آمریت کی جیل کاٹ کر رہا ہوئے تھے۔

جام ساقی اپنی ٹوٹی پھوٹی پشتو میں مجھ سے بات کر رہے تھے۔ انہوں نے پشتو جیل میں رہ کر سیکھی تھی۔ مجھ سے پوچھنے لگے کہ کرنا کیا چاہتے ہو۔ میں نے انہیں بتایا کہ ابھی ابھی ایف ایس سی کا امتحان دیا ہے، جوں ہی یونیورسٹی میں داخلہ ہو گا، ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن (ڈی ایس ایف) اور اس کے بعد کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہو جاؤں گا۔

میں نے ابھی یہ جملہ ختم بھی نہیں کیا تھا کہ میرے کندھے کو ایک مظبوط ہاتھ نے دبایا، ایک جانی پہچانی آواز سنائی دی: ”ارے اس سب کے لئے اتنی جلدی“۔ یہ آواز تھی کامریڈ عبدالطیف آفریدی کی جو کہنہ مشق مارکس وادی پشتون رہنما تھے اور ہر کوئی انہیں لالا کہہ کر پکارتا تھا۔ میرا ان سے سال بھر پہلے اپنے ماموں کے ذریعے تعارف ہوا تھا جو ان کے چیمبر میں جونیئر وکیل تھے۔ ان کے چیمبر کے باہر ایک پوسٹر نمایاں طور پر آویزاں تھا جس پر جام ساقی کی رہائی کا مطالبہ درج تھا۔

یہ دفتر گویا مارکس وادیوں، بالخصوص پشتون مارکسسٹوں، کی زیارت گاہ تھا اور لطیف لالا ان سب کے مرشد خاص۔

لطیف لالا 14 نومبر 1943ء کو سابق فاٹا کی خیبر ایجنسی کے علاقے تیراہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد حکمت آفریدی، آفریدی قبیلے کی قنبر خیل شاخ کے معززین میں شمار ہوتے تھے۔ لطیف لالا کی زیادہ تر زندگی البتہ پشاور میں گزری۔ گورنمنٹ ہائی سکول نمبر ون سے تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا۔ وہ سکول میں ان اساتذہ سے متاثر ہوئے جوسرحدی گاندھی خان عبدلغفار خان کی تعلیمات سے متاثر تھے۔ ان کے اساتذہ اور ہم جماعت بتایا کرتے تھے کہ سکول میں اسمبلی سے پہلے، روزانہ یہ منظر دیکھا جا سکتا تھا کہ پتلے دبلے مگر دراز قد لطیف آفریدی کے گرد کچھ طالب علم جمع ہیں اور وہ ہاتھ ہلا ہلا کر گفتگو میں مشغول ہیں۔

لطیف لالا نے خیبر لا کالج سے قانون میں گریجویشن کی، پھر پشاور یونیورسٹی سے اکنامکس میں ایم اے کیا۔ یہ ملک میں پہلے مارشل لا کا دور تھا۔ دور طالب علمی میں ہی سیاست میں قدم رکھا۔ نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن اور ڈی ایس ایف ملک کے دیگر حصوں اور کراچی میں تو متحرک تھیں لیکن ابھی پشاور یونیورسٹی میں ان کا وجود نہیں تھا۔ گل بہادر، قاضی انور، قیصر خان اور اقبال تاجک ایسے دیگر ترقی پسند طالب علم ساتھیوں کے ہمراہ لطیف لالا نے پاکستان سٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی۔

لطیف لالا پشتون ماؤسٹ رہنما اور وکیل افضل بنگش سے متاثر تھے۔ افضل بنگش بائیں بازو کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے صوبائی جنرل سیکرٹری تھے۔ 1965ء کے صدارتی انتخابات میں نیپ کے اکثریتی دھڑے نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ ایوب خان کے مقابلے پر فاطمہ جناح کی حمایت کریں گے۔ افضل بنگش صوبے میں فاطمہ جناح کی انتخابی مہم کے کمپین منیجر تھے۔ جب انتخابات میں دھاندلی کے خلاف احتجاج ہوا تو لطیف لالا کو احتجاجی جلسے جلوسوں کی وجہ سے گرفتار کر لیا گیا اور یونیورسٹی سے بھی نکال دیا گیا۔ بعد ازاں یونیورسٹی نے ان کا داخلہ بحال کر دیا اور انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کی۔

افضل بنگش کے ساتھ لطیف لالا کا تعلق سیاسی بھی تھا اور پیشہ وارانہ بھی۔ جب عالمی لیفٹ ماسکو نواز اور بیجنگ نواز دھڑوں میں بٹ گیا تو دنیا بھر کی کمیونسٹ اور سوشلسٹ پارٹیاں بھی یا اِس دھڑے کے ساتھ مل گئیں یا اُس دھڑے کے ساتھ۔ نیپ ایک ایسا رنگ برنگا اتحاد تھا جس میں مولانا بھاشانی (جنہیں سرخ مولانا بھی کہا جاتا تھا) جیسے ماؤ نواز بھی شامل تھے، غوث بخش بزنجو جیسے مارکسٹ لیننسٹ بھی اور ولی خان یا ان کے والد خان غفار خان (جو نیپ مغربی پاکستان کے صدر تھے) جیسے قوم پر ست بھی۔ یہ پارٹی کمیونسٹ پارٹی کے کارکنوں اور قیادت کے لئے ایک بھی فرنٹ تھی۔ کمیونسٹ پارٹی پر تو سن 1954ء میں ہی پابندی لگا دی گئی تھی کہ جب پاکستان نے سرد جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔

سوویت چین تنازعے کے بعد کمیونسٹ پارٹی میں ماو نواز دھڑے نے میجر محمد اسحٰق، پروفیسر ایرک سپرئین اور افضل بنگش کی قیادت میں نیپ سے علیحدگی اختیار کر لی اور مزدور کسان پارٹی کی بنیاد رکھی۔ یہ غالباً پاکستانی تاریخ کی واحد بڑی لیفٹ جماعت تھی جو ببانگ دہل انتخابی سیاست کی قائل نہ تھی۔ اپنے مربی افضل بنگش کی طرح، لطیف لالا بھی مزدور کسان پارٹی میں شامل ہو گئے اور سالہا سال اس جماعت کے رکن رہے۔

بعد ازاں وہ ماسکو نواز کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہو گئے۔ معروف پشتون مارکس وادی افراسیاب خٹک، مختار باچہ، سرفراز محمود یا بلوچ رہنما غوث بخش بزنجو پہلے ہی کمیونسٹ پارٹی میں موجود تھے۔ 1975ء میں جب بھٹو نے فوج کے ساتھ ساز باز کر کے نیپ کی قیادت کو جیل میں ڈالا تو ساتھ نیپ کے ہزاروں کارکن بھی پابند سلاسل کر دئیے گئے۔ لطیف لالا نے اس دوران نیپ کے بے شمار کارکنوں کے مقدمے لڑے اور انہیں رہائی دلائی۔

ابھی نیپ کی قیادت بھٹو کے چلائے ہوئے حیدرآباد سازش کیس کے دوران میں قید میں ہی تھی کہ ولی خان کی اہلیہ نسیم ولی خان اور بلوچ رہنما سردار شیر باز مزاری نے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (این ڈی پی) کی بنیاد رکھی۔ رہائی کے بعد سابق نیپ کی ساری قیادت این ڈی پی میں شامل ہو گئی سوائے نواب خیر بخش مری کے۔ کچھ عرصے بعد ولی خان سے اختلافات پیدا ہوگئے تو غوث بخش بزنجو اور عطا اللہ مینگل اس پارٹی سے علیحدہ ہو گئے۔

لطیف لالا اور دیگر پشتون مارکس وادیوں نے غوث بخش بزنجو کا ساتھ دیا اور انہوں نے مل کر پاکستان نیشنل پارٹی (پی این پی) کی از سر نو بنیاد رکھی۔ یاد رہے پی این پی ان جماعتوں میں شامل تھی جن کے ادغام سے پچاس کی دہائی میں نیپ قائم ہوئی تھی۔

بعد ازاں، جب ضیا آمریت عروج پر تھی، لطیف لالا پی این پی کے صوبائی صدر مقرر ہوئے۔ ضیا آمریت میں انہیں پہلی بات 1979ء میں گرفتار کیا گیا۔ ضیا دور میں پھر کئی بار جیل گئے۔ پی پی پی، این ڈی پی، پی این پی اور بعض دوسری جماعتوں نے مل کر ایم آر ڈی کی بنیاد رکھی تا کہ ضیا آمریت کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی جا سکے۔

جب ایم آر ڈی کی قیادت پی این پی کے پاس آئی تو لطیف لالا ایم آر ڈی کے صوبائی کنوینر بن گئے۔ اس حیثیت میں انہوں نے صوبے بھر میں بھر پور احتجاج منظم کئے۔ انہوں نے سیاسی کارکنوں، ٹریڈ یونین کارکنوں، کسانوں، طلبہ، ڈاکٹرز اور سب سے اہم یہ کہ وکلا کو ضیا آمریت کے خلاف متحرک کیا۔ انہوں نے بے شمار ایسے سیاسی کارکنوں کی،بالخصوص پی پی پی کے کارکنوں کی جو آمریت کا خاص نشانہ تھے، بطور وکیل پیروی کی۔

جب نام نہاد مالاکنڈ سازش کیس میں افراسیاب خٹک، سرفراز محمود، رحمت شاہ سائل جیسے لگ بھگ پندرہ کمیونسٹ رہنماؤں اور کارکنوں کو ملوث کیا گیا تو لطیف لالا نے کامیابی سے ان کا دفاع کیا۔ اس مقدمے میں ان کے ہمراہ افضل بنگش نے بھی ان کامریڈوں کی پیروی کی۔ اس کیس کی کاروائی کے دوران ایک پولیس والے نے گواہی دی کہ ملزمان کے قبضے سے کتابیں برآمد ہوئیں ہیں جن پر روس کے بادشاہ کی تصویر ہے۔ لطیف لالا نے مسکراتے ہوئے سنایا کہ پولیس والا بیچارہ ولادیمیر لینن کو زارِ روس سمجھتا رہا۔

ایم آر ڈی کے دوسرے مرحلے میں لطیف لالا نے ترقی پسند قوم پرستوں اور بائیں بازو کو متحد کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ آخر کار، مزدور کسان پارٹی، پی این پی کا ایک دھڑا جس کی قیادت لالا کر رہے تھے، رسول بخش پلیجو کی عوامی تحریک اور این ڈی پی کے ادغام سے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) وجود میں آئی۔ ولی خان اس کے صدر جب کہ مزدور کسان پارٹی کے سردار شوکت علی اس کے جنرل سیکرٹری مقرر ہوئے۔ لطیف لالا پارٹی کے صوبائی صدر مقرر ہوئے۔ جب طیارے کے حادثے کے نتیجے میں ضیا آمریت کا خاتمہ ہوا اور ایک سوکھی سہمی جمہوریت بحال ہوئی تو یہ لطیف لالا ہی تھے جن کی کوششوں سے اے این پی اور پیپلز پارٹی کا صوبائی اور قومی سطح پر اتحاد ممکن ہو سکا اور ان دو جماعتوں کی مرکز اور سرحد (خیبر پختونخوا) میں مخلوط حکومت بن سکی۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے اس اتحاد کو ممکن بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ بعد ازاں، جب اے این پی نے بے نظیربھٹو کے خلاف دائیں بازو کی جماعتوں سے اتحاد کر لیا تو لطیف لالا نے اے این پی کی قیادت سے برسر عام اختلاف کیا اور راستے جدا کر لئے۔

1989ء میں افراسیاب خٹک کابل سے خود ساختہ جلا وطنی کے بعد واپس آ چکے تھے۔ لطیف لالا اور افراسیاب خٹک نے مل کر مارکسسٹ لیننسٹ جماعت قومی انقلابی پارٹی کی بنیاد رکھی یہ نہ صرف اعلانیہ مارکس وادی پارٹی تھی بلکہ وہ واحد سیاسی جماعت تھی جس کے دستور میں قوموں کے حق خود ارادی اور حق علیحدگی کی کھل کر بات کی گئی تھی۔ 1991ء میں سوویت روس کی تحلیل سے بائیں بازو کی سیاست کو زبردست دھچکا لگا اور ترقی پسند حلقوں میں معمولی باتوں پر چپقلش اور بڑھ گئی۔ قومی انقلابی پارٹی میں کئی دھڑے بن گئے اور پارٹی بکھر گئی۔ پھر یہ دھڑے متحد ہوئے اور محمد افضل خان مرحوم کے ساتھ مل کر پختونخوا قومی پارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔

بعد ازاں، لطیف لالا نے معروف شاعر اجمل خٹک کے ساتھ مل کر نیشنل عوامی پارٹی پاکستان تشکیل دی۔ اس کے بعد، افراسیاب خٹک، اجمل خٹک، افضل خان اور لطیف لالا اے این پی میں واپس آ گئے۔ اس پلیٹ فارم سے انہوں نے طالبان کی بھرپور مخالفت کی اور فوج کی طرف سے جہادیوں کی سرپرستی کے خلاف مسلسل آواز اٹھائی۔ اے این پی کی قیادت پر فوجی اسٹیبلشمنٹ کا شدید دباؤ تھا کہ ان کو خاموش کرایا جائے۔ جب ایسا نہ کیا جا سکا تو افراسیاب خٹک اور لطیف لالا کو اے این پی سے نکال دیا گیا۔

2021ء میں ان دو بزرگ رہنماؤں نے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما اور نوجوان رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کے ساتھ مل کر نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کی بنیاد رکھی۔

لطیف لالا نے انسانی حقوق کے لئے عملی جدوجہد کی۔ جب اَسی کی دہائی میں جسٹس دراب پٹیل مرحوم، عاصمہ جہانگیر اور آئی اے رحمن نے انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) کی بنیاد رکھنے کا فیصلہ کیا تو لطیف لالا نے ان کی بھر پور حمایت کی۔ پاک بھارت عوامی رابطوں میں بھی متحرک رہے۔ 1998ء میں جب پاکستان انڈیا پیپلز فورم فار پیس اینڈ ڈیماکریسی کے 300 مندوب (جن میں آدھے بھارت سے تھے) پشاور اور خیبر ایجنسی آئے تو لطیف لالا نے ان کی میزبانی کی۔ کابل کے افغان قوم پرستوں اور مارکس وادیوں سے بھی ان کا مسلسل رابطہ رہتا۔

لطیف لالا کی 60 سالہ جدوجہد ایک طرح سے پاکستان میں بائیں بازو اور قوم پرست سیاست کا کٹھن سفر ہے۔ وہ جن ٹوٹتی بنتی اور پھر سے جنم لینے والی جماعتوں کے رکن رہے، کمیونسٹ پارٹی پر پابندی کے بعد سے یہ عمل پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست و نظریات کا المیہ بھی بیان کرتا ہے۔ سیاسی جماعت چاہے کوئی بھی تھی، ایک بات بہرحال لطیف لالا کی سیاست میں مستقل عنصر کی حامل تھی: وہ ہمیشہ مارکسزم اور ترقی پسند نظریات کے داعی رہے۔ ان کا خیال تھا کہ پاکستان جیسی کثیر القومی ریاست میں قومی سوال اور طبقاتی سوال ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

لطیف لالا کی قیادت میں پشتون مارکس وادیوں نے اے این پی کا دستور لکھنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ جب سن 1986ء میں اے این پی کی بنیاد رکھی گئی تو پارٹی پروگرام میں مخصوص لیننسٹ اصطلاحات بھی استعمال کی گئیں۔ مثلاً قومی جمہوری انقلاب کو پارٹی کی حتمی منزل قرار دیا گیا جو خالصتاً لیننی نظریہ تھا۔ گو ولی خان ایسے قوم پرست رہنما پاکستان کے اندر رہتے ہوئے زیادہ سے زیادہ صوبائی خود مختاری کی بات کر رہے تھے، یہ لطیف لالا جیسے مارکسی نظریہ دان تھے جو یہ تو نہیں کہہ رہے تھے کہ افغانستان کے ساتھ انضمام کر لیا جائے لیکن وہ افغانستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات کی بات کھل کر کر رہے تھے۔ اے این پی کا سب سے مقبول نعرہ خپلہ خاورہ، خپل اختیار (ہماری زمین،ہمارا اختیار) لطیف لالا اور سرفراز محمود نے ہی دیا تھا۔

2010ء میں 18 ویں ترمیم کی شکل میں آئین پاکستان کے اندر صوبائی خود مختاری کو تسلیم کر لیا گیا۔ لطیف لالا سابق فاٹا کے پشتون قبائل کے حقوق کے لئے بھی جدوجہد کرتے رہے جنہیں برطانوی دور سے لاگو کالے قوانین کا سامنا تھا۔ کئی دہائیوں تک وہ ان قبائل کے لئے آواز اٹھاتے رہے۔ جب فاٹا میں لوگوں کو ووٹ کا حق دیا گیا تو وہ اپنی آبائی خیبر ایجنسی سے رکن قومی اسمبلی بھی منتخب ہوئے۔ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کا مطالبہ کرنے والے سیاسی رہنماؤں میں وہ سرفہرست تھے۔ انہوں نے فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر 1901ء) کے خاتمے کے لئے انتھک جدوجہد کی۔ 2018ء میں آئین کے اندر 25 ویں ترمیم کی شکل میں ان قوانین کا بھی خاتمہ ہوا۔

بطور وکیل وہ سول، فوجداری اور آئینی امور کے ماہر تھے۔ وہ کم از کم چھ بار پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوئے۔ 2021ء میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوئے۔ لطیف لالا صرف زبانی کلامی محروم طبقات کی بات نہیں کرتے تھے۔ اپنے طویل کیرئیر کے دوران بے شمار سیاسی کارکنوں، ٹریڈ یونینسٹوں، کسانوں، طلبہ اور غریب سائلوں کے مقدمات بالکل مفت لڑے۔ اگر کوئی سائل عدالت کی فیس ادا کرنے سے قاصر ہوتا تو یہ فیس بھی وہ خود ادا کر دیتے۔ پشاور کے خیبر بازار میں ان کا چیمبر ہر شام ان لوگوں سے بھرا ہوتا تھا جو ان سے مدد مانگنے آتے۔ اور اکثر کی مدد ہوتی بھی تھی۔ اگر کسی کو انکار کرتے بھی تو صرف اس وقت کہ جب انہیں لگتا کہ کوئی مقدمہ ان کے نظریات یا قانون کے خلاف ہے۔

لطیف لالا میں یہ صلاحیت تھی کہ ان سے ملنے کے بعد ہر صغیر و کبیر خود کو خاص انسان محسوس کرنے لگتا۔ وہ جتنے دبنگ وکیل اور شعلہ بیاں مقرر تھے اتنے ہی بذلہ سنج اور شگفتہ مزاج دوست تھے۔ احباب کو دیکھ کر کھِل اٹھتے اور انفرادی توجہ دیتے تھے۔ مجھ سمیت، انہوں نے ہزاروں سیاسی کارکنوں کی تربیت کی اور ان کی زندگیاں بدل کر رکھ دیں۔ اپنے شاگردوں کی ذاتی زندگی، ان کی فلاح و بہبود، کیرئیر، خاندان، ان سب باتوں کا خیال رکھتے۔ وہ صحیح معنوں میں ایک ایسے استاد تھے جنہوں نے اپنے شاگردوں کو نظریات، سیاست اور زندگی کے بارے میں عملی سبق دیا۔

انہوں نے جو کہا وہ کیا اور ہمیشہ صف اول میں رہ کر کام کیا۔ مجھے یاد ہے، جنوری 1988ء میں جب خان عبدالغفار خان کا جنازہ ڈیورنڈ لائن کی جانب بڑھ رہا تھا تا کہ افغانستان میں ان کی تدفین ہو سکے تو طورخم پر ٹریفک جام ہو گیا۔ چشم ِزدن میں لطیف لالا اپنی گاڑی سے نکلے اور ٹریفک کنٹرول کرنے لگے۔ چھ فٹ دو انچ والے طویل القامت لطیف لالا نے ہاتھوں کے اشارے سے منٹوں میں ٹریفک دوبارہ بحال کر دیا۔ انہوں نے تین فوجی آمریتوں کے خلاف جدوجہد کی اور بے شمار جلوسوں کی قیادت کی۔ جنرل مشرف کے خلاف جب وکلا کی تحریک چلی تو ایک مظاہرے کے دوران ان پر بکتربند گاڑی چڑھا دی گئی جس کے نتیجے میں ایک ٹانگ شدید فریکچر ہوئی، مگر پھر لاٹھی کے سہارے چلنے لگے۔ وہ فقط بلند قامت نہیں، بلند حوصلہ انسان تھے۔ میں خود ان کی اعصاب کی مضبوطی اور قوت ارادی کا گواہ ہوں۔

میں ہر شام اندر شہر پشاور میں واقع اپنے گھر سے پیدل، لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے راستے، لطیف لالا کے دفتر جایا کرتا تھا۔ ان کا دفتر ہسپتال کی دوسری طرف خیبر بازار میں تھا۔ غالباً 1991ء کی بات ہے جب ایک شام میں نے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ایمرجنسی روم، کے باہر جھمگھٹا دیکھا۔ ایک پک اپ بھی دکھائی دی جس پر گولیوں کے بے شمار نشان تھے۔ لگتا تھا جیسے یہ پک اپ میدان جنگ سے آئی ہے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ کسی آفریدی پر حملہ ہوا ہے۔ میرا دل ڈوب گیا، مگر میں بھاگتا ہوا ایمرجنسی وارڈ کے اندر پہنچا۔ وہاں لطیف آفریدی دکھائی دئے۔ ان کی پیشانی میں شیشے کی کرچیاں دھنسیں ہوئی تھیں۔ کنپٹی پر سے خون بہہ رہا تھا۔ مجھے دیکھا تو مسکرائے اور بولے میں ٹھیک ہوں، خطرے کی کوئی بات نہیں۔ پھر مجھے کہا کہ ان کے بھانجے کا پتہ کروں جو سخت زخمی ہوا تھا۔ لطیف لالا پشاور کی عیدگاہ کے قریب ایک کامریڈ کے گھر سے واپس آ رہے تھے کہ ان کی گاڑی پر حملہ ہو گیا۔ پشاور کی ٹریفک بھری سڑکوں پر دو اڑھائی میل تک زخمی حالت میں گاڑی چلا کر ہسپتال پہنچے،پھر بھی چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ یہ جی داری لطیف لالا کا ہی خاصہ تھی۔

وہ حملہ ایک قبائلی جھگڑے کا نتیجہ تھا۔ سال بھر پہلے، لطیف لالا کے والد اور بھائی مغل آفریدی اسی جھگڑے کی نذر ہو گئے تھے۔ قبائلی دشمنی پشتون زندگی کا ایک افسوسناک پہلو ہے۔ لطیف لالا پر جو حملہ ہوا البتہ اس کے پیچھے ان کے سیاسی مخا لفین کا بھی ہاتھ تھا جنہوں نے حملہ آوروں کو اکسایا تھا۔ لطیف لالا خاندانی دشمنیوں اور نہ ختم ہونے والے قبائلی جھگڑوں کے سخت خلاف تھے کہ ان مسائل نے پشتونوں کو بے حد نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے اپنے دشمنوں سے صلح کی اور صلح بھی ایسی کہ جس کے بعد ان کے وہی جانی دشمن ان سے صلاح و مشورہ لیتے تھے۔ 2015ء میں جب لطیف لالا کی قبائلی شاخ پر ایک وکیل کے قتل کا الزام لگا تو انہوں نے مقتول کے خاندان کی ڈھارس بندھائی اور اس معاملے سے اپنی برات کا اظہار کیا۔ مقتول وکیل اور لطیف لالا درحقیقت مل کر ڈاکٹر شکیل آفریدی کا مقدمہ لڑ رہے تھے۔ شکیل آفریدی اس الزام میں جیل میں ہیں کہ انہوں نے اسامہ بن لادن کی نشاندہی کرنے میں سی آئی اے کی مدد کی تھی۔

مگر اس دشمنی نے کئی مزید جانیں لے لیں۔ لطیف لالا کو عدالت نے باعزت بری بھی کر دیا اور لطیف لالا نے ہم جیسے دوستوں کو بھی نجی طور پر کئی مرتبہ بتایا کہ ان کا اس قتل کے معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔ پچھلے حملے کی طرح یہ جان لیوا حملہ کرنے والے کے پیچھے بھی کچھ طاقتور لوگ ہیں۔ دوست اور کامریڈز لطیف لالا کو احتیاط کا مشورہ دے رہے تھے۔ 16 جنوری کو، انہوں نے طالبان اور ان کے ریاستی سرپرستوں کے خلاف ایک زوردار تقریر کی۔ اس تقریر کے کچھ دیر بعد انہیں پشاور ہائی کورٹ کے بار روم میں ہلاک کر دیا گیا۔ قاتل عدنان آفریدی کو گرفتار کر لیا گیا۔ قاتل کی انسٹا گرام تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ فوج کے سپانسر کئے ہوئے گروہوں کا حصہ ہیں۔ جنرل آصف غفور کے ساتھ بھی قاتل کی تصاویر موجود ہیں۔ ایسے شواہد نے کئی شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ قتل کے محرکات جو بھی تھے، ساٹھ سال پر محیط ایک عظیم الشان سیاسی جدوجہد کا خاتمہ محض چھ گولیوں سے کر دیا گیا:

وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی
اسی پہ ضرب پڑی جو شجر پرانا تھا

لطیف لالا ڈیورنڈ لائن کی دونوں جانب مارکس وادیوں کے لئے منارہ نور تھے۔ انہوں نے سیاسی کارکنوں اور انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں کی ایک نہیں کئی کھیپیں تیار کیں۔ وہ آخری دم تک ترقی پسند نظریات پر قائم رہے۔ انہوں نے مارکسی فلسفے کو عملی سیاسی جدوجہد سے جوڑا۔ جس میدان میں ہمارے روایتی مارکسی اکابرین ناکام رہے، وہاں لطیف لالا نے بے مثال کامیابی حاصل کی۔ وہ سیاست کا پرچار بھی کرتے اور عملی سیاسی سرگرمی میں ڈٹ کر حصہ بھی لیتے۔ ان کی سیاست کا محور عام لوگ تھے، ذلتوں کے مارے لوگ۔ وہ محض نظریات کے اونچے تخت پر بیٹھے مگر عوام سے کٹے مارکس وادیوں کے بھی خلاف تھے اور قوم پرستوں کی تنگ نظری کے بھی۔ محروم اور پسے ہوئے طبقات کے لئے ان کی جدوجہد مسلسل جاری رہی۔ ان کی زندگی کا ہر دن ان لوگوں کے لئے وقف تھا۔ وہ ان کی خبر گیری و دستگیری کرتے تھے جن کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔

غزالاں تم تو واقف ہو، کہو مجنوں کے مرنے کی
دوانہ مر گیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری

Roznama Jeddojehad
+ posts