فاروق سلہریا
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ بلاول بھٹو عمران خان کو طالبان خان کا طعنہ دیا کرتے تھے۔
پھر ادارے کا ہاں وزیر خارجہ کی نوکری مل گئی۔ اب وہ خود طالبان زرداری بھٹو بن چکے ہیں۔
نوکری ملتے ہی طالبان کے دفاع میں بلاول بھٹو نے وہ دلائل بھی دئیے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے۔ کچھ دن پہلے دنیا کو بتا رہے تھے کہ طالبان ایک حقیقت ہیں،انہیں تسلیم کر لیا جائے۔
موصوف سے کسی نے نہیں پوچھا کہ بھائی اسلام آباد نے ابھی تک یہ حقیقت تسلیم کیوں نہیں کی؟ اور اگر طورخم کے اس پار طالبان حقیقیت ہیں تو اس پار کیا وہ کوئی فسانہ ہیں؟ ٹی ٹی پی بھی تو ایک حقیقت ہے۔ ایک خوفناک حقیقت جسے ریاست نے محبت اور ناز و نعم سے پالا ہے۔
طالبان بھٹو زرداری چند روز پہلے، میونخ میں ہونے والی ایک نام نہاد سکیورٹی کانفرنس میں اہل مغرب کو بتا رہے تھے کہ افغانستان میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ ناٹو اور امریکہ وہاں سے نکل آئے ہیں۔
معلوم نہیں کسی نے انہیں یاد دلایا یا نہیں کہ جب ناٹو اور امریکہ افغانستان میں موجود تھے تو طالبان اسلام آباد میں ریاست کے شاہی مہمان بن کر رہ رہے تھے۔ جب امریکہ رخصت ہوا تو فتح کے شادیانے بجائے گئے۔ ملک کے وزیر اعظم نے کہا کہ غلامی کی زنجیریں ٹوٹ گئی ہیں تو اپوزیشن رہنما خوجہ آصف کو لگا کہ طاقت امریکہ کے پاس ہے مگر اللہ طالبان کے ساتھ ہے۔ جنرل فیض حمید چائے پینے سرینا ہوٹل کابل پہنچے ہوئے تھے۔ تب تو بلاول بھٹو نے امریکہ سے گلا نہیں کیا کہ بھائی کیوں جا رہے ہو؟ (واضح رہے، اس دلیل کا مطلب افغانستان پر امریکی قبضے کی حمایت نہیں، مقصد صرف بلاول بھٹو کے تضادات کو اجاگر کر نا ہے)۔
منافقت کی انتہا یہ ہے کہ طورخم بارڈر بند ہے۔ افغان شہری تو کجا، افغانستان نژاد ایسے شہری جو یورپ امریکہ میں رہتے ہیں، ان کو بھی ویزے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ سند ھ پولیس کی جیل میں افغان بچوں کی افسوسناک تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہیں…اور موصوف دنیا بھر کے سامنے افغانستان کے ہمدرد بنے ہوئے ہیں۔
بلاول نے طالبان کی وکالت میں جتنے بیان دئیے ہیں، ایک دن…اور وہ جلد آنے والا ہے…ان بیانات سے یوٹرن لیں گے۔
افغان سیاسی کارکن اور عام شہریوں کی اکثریت بار بار یہ کہتی آ رہی ہے کہ پاکستان اگر افغانستان سے ہمدردی رکھتا ہے تو سچی ہمدردی کا تقاضیا ہے کہ افغانستان سے دور رہے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔