لاہور (جدوجہد رپورٹ) بھارت کو افغانستان کیلئے امداد روانہ کرنے کیلئے پاکستان نے اپنی سر زمین استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ منگل کے روز بھارت کی جانب سے افغانستان کیلئے بھیجے گئے امدادی ٹرک واہگہ بارڈر کے ذریعے پاکستا ن میں داخل ہوئے۔
’الجزیرہ‘ کے مطابق یہ دونوں ممالک کے درمیان ایک غیر معمولی اقدام ہے، 3 سال قبل بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث دونوں ممالک نے آپسی تجارت معطل کر دی تھی۔
بھارت سے 50 ہزار میٹرک ٹن گندم کی کھیپ کے پہلے 50 ٹرک منگل کے روز واہگہ بارڈر سے پاکستان میں داخل ہوئے۔
بھارتی سیکرٹری خارجہ ہرش شرنگلا اور بھارت میں افغانستان کے سفیر فرید ماموندزے بھی اس موقع پر سرحد پرموجود تھے۔
فرید ماموندزے کا اس موقع پر کہنا تھا کہ’’افغانستان کیلئے بھارت کی گندم کی امدادی کھیپ کی پرچم کشائی کی تقریب کا مشاہدہ کرنا واقعی اعزاز کی بات ہے۔“
حکام کے مطابق بھارتی امدادی ٹرک پاکستان کی واہگہ سرحدی چوکی سے گزرتے ہوئے پاکستان کے شمال مغربی سرحدی علاقے طورخم سے افغانستان میں داخل ہونگے۔
پاکستانی وزارت تجارت کے ایک اہلکار نے منگل کو ورلڈ فوڈ پروگرا م کے نمائندے کے ساتھ اس پیشرفت کی تصدیق کی اور کہا کہ خوراک کی امداد اقوام متحدہ کی ایجنسی کے ذریعے سے تقسیم کی جائیگی۔
یاد رہے کہ افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد معیشت مکمل طور پر تباہی کا شکار ہے۔ طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد بہت سے ممالک نے افغان حکومت کو دی جانیوالی غیر ملکی امداد کو روک دیا تھا۔
رواں ماہ 11 فروری کو امریکی صدر جو بائیڈن نے افغان مرکزی بینک کے منجمد اثاثوں میں سے ساڑھے 3 ارب ڈالر ضبط کر کے انہیں مسلح گروپوں کے حملوں کا شکار ہونے والے امریکی متاثرین کی طرف سے جاری قانونی چارہ جوئی کیلئے مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق بقیہ ساڑھے 3 ارب ڈالر افغانستان میں انسانی بحران سے نمٹنے کیلئے تیسرے فریق کے اعتماد کے ذریعے استعمال کئے جائیں گے۔
رواں سال جنوری میں اقوام متحدہ نے افغانستان میں فوری خوراک، صحت اور دیگر ضروریات کو پورا کرنے کیلئے 4.4 ارب ڈالر کی اپیل کی تھی۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق 8.7 ملین افغانوں کو ہنگامی سطح پر غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے اور آدھے سے زیادہ ملک کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
واضح رہے کہ بھارت نے جنوری میں انسانی امداد کے طور پر 50 ہزار میٹرک ٹن گندم فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا، جسے پاکستان کے راستے افغانستان بھیجا جانا تھا۔ تاہم دونوں ملکوں کے مابین 2019ء سے ٹرانزٹ ٹریڈ کی معطل کے باعث اس وعدے پر فوری طو رپر عملدرآمد نہیں ہو سکا تھا۔
’اے پی‘ کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان کسٹم ڈیوٹی یا دیگر فیس ادا کئے بغیر موجودہ ترسیل کے پاکستان سے گزرنے کے طریقہ کار کو فروری کے اوائل میں حتمی شکل دی گئی تھی۔