عدنان فاروق
چین کے وہیگر مسلمانوں اور ترکی کے جبر کے شکار کردوں کی طرح پاکستان کا حکمران طبقہ اور پاکستانی میڈیا یمن پر بھی اپنی منافقت کو چھپانے کے لئے اس حکمت ِعملی پر گامزن ہے کہ اس ملک کا نام ہی نہ لیا جائے۔
26 مارچ 2015ء کو سعودی عرب نے اپنے خلیجی اتحادی متحدہ عرب امارات کے ساتھ مل کر یمن پر چڑھائی کر دی تھی۔ یمن اس خطے کا غریب ترین ملک ہے۔ اس خوفناک جنگ‘جس میں اسکولوں اور ہسپتالوں کو بھی نشانہ بنایا گیا، اب تک دس ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
یمن کے لوگوں اور ملکی معیشت کے لئے سعودی عرب میں مزدوری کرنا بہت اہم تھا۔ اس جنگ کی وجہ سے یمن کے محنت کشوں کو سعودی عرب سے نکال دیا گیا ہے۔ ادہر خوفناک فضائی بمباری کی وجہ سے ملک کا برا بھلا انفرا سٹرکچر تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔
یونیسف کے مطابق دو کروڑ سے زائد (24 ملین) افرادکو قحط کا سامنا ہے۔
جنگ شروع ہونے کے بعد، پانچ لاکھ بچے اسکول چھوڑ چکے ہیں۔ 3.7 ملین (تقریباًپونے چار کروڑ) مزید بچوں کا تعلیمی مستقبل خطرے سے دو چار ہے کیونکہ اساتذہ کو تنخواہیں تک ادا کرنے کے پیسے موجود نہیں ہیں۔
کشمیر پر امت اور اسلامی دنیا کو طعنے دینے والی اشرافیہ اور میڈیا کا یمن بارے کیا خیال ہے؟