عدنان فاروق
تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے جتنی بدنامی محسن داوڑ اور علی وزیر کی آواز دبانے پر تین سال میں کمائی، پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے موجودہ سپیکر راجہ پرویز اشرف نے اتنی بدنامی تین دن میں کما لی ہے۔
اسد قیصر نے اگر محسن داوڑ کے دورانِ تقریر مائک بند کرائے تو اب راجہ پرویز اشرف نے بھی یہ عمل سر انجام دیا۔ اسد قیصر نے پابندِ سلاسل علی وزیر کو پارلیمنٹ میں لانے کے لئے پروڈکشن آرڈر کرنے میں حیلوں بہانوں سے کام لیا تو یہی شرمناک ہیرا پھیری موجودہ سپیکر راجہ پرویز اشرف نے بھی جاری رکھی ہوئی ہے۔
تین دن قبل علی وزیر نے جب جناح ہسپتال میں بھوک ہڑتال کر دی تو زمین پر براجمان علی وزیر کی تصویر وائرل ہو گئی۔ یہ ممکن نہیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف تک یہ تصویر نہ پہنچی ہو۔ وہ بہادر ٹرک ڈرائیور کی وائرل ویڈیو کا نوٹس لے سکتے ہیں تو جناح ہسپتال میں ہونے والی بھوک ہڑتال سے غفلت ممکن نہیں۔ اس کے باوجود کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ اتنا سا وعدہ بھی نہیں کیا گیا جتنا بلوچوں سے کیا گیا تھا: ”لا پتہ افراد بارے متعلقہ محکمے سے بات کروں گا“۔
گویا علی وزیر اور محسن داوڑ کے سوال پر تینوں بڑی سیاسی جماعتیں سب سے بڑی سیاسی جماعت کے پرچم تلے ایک ہیں۔ ہائبرڈ رجیم ختم نہیں ہوا، نئے روپ میں جاری ہے۔