عدنان فاروق
عمران ریاض کی گرفتاری پر شور مچایا جا رہا ہے۔ ایک طرف تو پاکستان تحریک انصاف اس گرفتاری کے خلاف شور مچا رہی ہے۔ یہ شور منافقت کے سوا کچھ نہیں۔ دوسری طرف بعض لوگ آزادی صحافت کے نام پر شور مچا رہے ہیں۔ اس دوسرے کیمپ سے صرف اتنا پوچھنا تھا کہ کیا عمران ریاض صحافت کر رہا تھا؟ اگر آپ نے عمران ریاض کو عروج کے دنوں میں شٹ اپ کال نہیں دی تھی، تو اب آپ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس کے آزادی اظہار کی بات کریں کیونکہ عمران ریاض کا صحافت سے ویسا ہی تعلق ہے جیسا فوج کا سیاست کے ساتھ۔ یہ شخص صحافی نہیں، آئی ایس پی آر کی ایکسٹینشن تھا۔
آزادی صحافت کے نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو عمران ریاض کی گرفتاری ہونی چاہئے تھی مگر…
فوجی بنیادوں پر نہیں، جمہوری اور اخلاقی و انسانی بنیادوں پر۔ عمران ریاض نے آمرانہ قوتوں کے ساتھ مل کر جمہوریت کے خلاف جو مہم چلائی اس کی بنیاد پر اس کی گرفتاری ہونی چاہئے تھی۔ اس نے جس طرح نور مقدم کیس میں جھوٹ بولے، انسانیت کی تذلیل کی، اس عورت دشمن مجرمانہ کردار ادا کرنے پر گرفتاری بنتی ہے۔ عمران ریاض نے پشتون تحفظ موومنٹ کو ’ملک دشمن‘ ثابت کرنے کے لئے جو مہم چلائی، اس کی بنیاد پر گرفتاری بنتی ہے کیونکہ اس مہم نے پی ٹی ایم کی قیادت اور کارکنوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالیں۔ عمران ریاض نے جس طرح بائیں بازو کے خلاف جھوٹ بولا، ان پر غداری کے الزام لگائے، اس کی بنیاد پر گرفتاری ہونی چاہئے۔ عورت مارچ، خواتین کارکنوں اور این جی اوز بارے جس طرح متشدد رویوں اور جھوٹ کو فروغ دیا، اس کی بنیاد پر گرفتاری ہونی چاہئے۔ عمران ریاض نے اپنے ہم رکابوں کے ساتھ مل کر جس طرح مطیع اللہ جان کی تضحیک اور ریپ جوکس کئے، اس پر گرفتاری بلکہ چند سال کی قید ہونی چاہئے۔ جس طرح سے عمران ریاض نے پبلک سفیئر میں بد تہذیبی کو فروغ دیا اس کی بنیاد پر گرفتاری نہیں تو پابندی ضرور ہونی چاہئے۔ عمران ریاض پر نہیں، پوری ففتھ جنریشن پر۔
گرفتاری کے علاوہ عمران ریاض کے خلاف کچھ تحقیقات بھی ہونی چاہئیں۔ عمران ریاض کی جائیداد بارے ضرور پوچھ گچھ ہونی چاہئے۔ یہ تحقیق بھی ہونی چاہئے کہ پاکستان کی جمہوری و سیاسی قوتوں کے خلاف منظم جھوٹ اور گمراہی پھیلانے کے عوض عمران ریاض نے کیا مراعات حاصل کیں؟
عمران ریاض پر یا کسی بھی صحافتی و سیاسی یا غیر صحافتی و غیر سیاسی شہری پر بھی ریاستی تشدد غلط ہے۔ ٹارچر غلط ہے۔ عمران ریاض پاکستانی معاشرے کا ایک بد ترین کردار ہے۔ ایسے بد ترین اور مکروہ کردار کے خلاف بھی تشدد غلط ہے۔ عمران ریاض جن غلط قوانین کا کل تحفظ کر رہا تھا، ان غلط قوانین کے تحت بھی اس کے خلاف انتقامی کاروائی غلط ہے۔ عمران ریاض کے خلاف انتقامی نہیں، قانونی کاروائی ہونی چاہئے۔ اگر کوئی ایسا قانو ن موجود نہیں جس کے تحت عمران ریاض کے مندرجہ بالا جرائم پر مقدمہ نہیں بنتا تو ایسا قانون بنایا جائے۔
یہ قانونی کاروائی نہ صرف عمران ریاض کے خلاف ہونی چاہئے بلکہ ہر اس شخض کے خلاف ہونی چاہئے جو عمران ریاض والا کردار ادا کر رہا ہے یا عمران ریاض جیسے کرداروں کو معاشرے پر مسلط کرتا ہے۔