نقطہ نظر

ڈائریکٹر ایچ ای سی صاحبہ: پابندی لگانی ہے تو یونیورسٹی فیسوں پر لگاؤ

فارو ق سلہریا

ڈاکٹر شائستہ سہیل صاحبہ!

خوشی کی بات ہے کہ ہولی پر پابندی کا فیصلہ واپس لے لیا گیا۔ امید ہے آئندہ اس قسم کی پابندیوں سے پرہیز کیا جائے گا۔ آپ چونکہ ایک اکیڈیمک ادارے کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں لہذا اکیڈیمک روایات کے مطابق ضروری ہے کہ ہم اس مسئلے پر بحث جاری رکھیں۔

سب سے پہلے تو ہولی پر پابندی ہٹانے والے نوٹس کی بات کر لیتے ہیں۔ نوٹس میں کہا گیا ہے کہ لوگوں کو پابندی والا نوٹس ٹھیک سے سمجھ نہیں آیا۔ برائے مہربانی ایک عدد مزید نوٹس جاری کیجئے جس میں یہ وضاحت کر دی جائے کہ لوگوں کو کونسی بات ٹھیک سے سمجھ نہیں آئی؟

ایک بات جو پابندی والے نوٹس میں بالکل واضح ہے وہ ہے: ہولی کا ’ہماری روایات‘ کے خلاف ہونا۔

بات روایات سے ہی شروع کر لیتے ہیں۔ اگر روایات اس قدر اہم ہیں تو پھر ہمارے ہاں یونیورسٹی یا کالج ہونے ہی نہیں چاہئیں۔ ہمارے ہاں تو مدرسے کی روایات تھیں۔ یہ بات کچھ عجیب سی معلوم ہوتی ہے کہ گوروں کا بنایا ہوا یونیورسٹی نظام تو روایات کے لئے خطرہ نہیں، ہولی سے لیکن ہماری روایات کا جنازہ نکل گیا ہے۔

ویسے مولوی حضرات کے مطابق’ہماری روایت‘ تو یہ بھی ہے کہ خواتین کو گھر سے نہیں نکلنا چاہئے۔ معلوم نہیں جب طالبان نے افغانستان پر دوبارہ قبضہ کیا تو آپ خوش ہوئی تھیں یا نہیں۔ بہرحال ’ہماری روایات‘کے نام پر طالبان نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگا دی ہے۔ میں نے لنکڈ اِن پر آپ کا سی وِی(CV) دیکھا۔ سی وِی پر بات کرنے سے پہلے آپ کی توجہ آپ کے لنکڈ اِن والے سی وی پر مبذول کراتا چلوں: جہاں آپ نے اپنے کیتھڈرل سکول کا ذکر کیا ہے، وہاں لاہور کے سپیلنگ غلط ہیں۔

جی تو میں بات کر رہا تھا سی وِی کی۔ آپ کے سی وِی سے پتہ چلا کہ آپ نے سوئٹزرلینڈ سے پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ معلوم نہیں،پی ایچ ڈی کرنے آپ روزانہ کسی محرم کے ساتھ یونیورسٹی جاتی تھیں، یا بغیر محرم کے۔۔۔ایک بات طے ہے کہ ’ہماری روایات‘ کے مطابق عورت کا کام گھر گرہستی ہے نہ کہ سوئٹزرلینڈ سے پی ایچ ڈی کر کے،ایچ ای سی میں نوکری کرنا۔ بقول سہیل وڑائچ: کیا یہ کھلا تضاد نہیں کہ ’ہماری روایات‘ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی خواتین کی نوکری اور پی ایچ ڈی کے راستے میں تو رکاوٹ نہیں بنتیں۔۔۔مگر جبر کا شکار لوگوں پر مزید جبر کرنے کے لئے ’ہماری روایات‘ ارزاں نرخوں پر دستیاب رہتی ہیں۔

معاف کیجئے گا! بات روایات کی نہیں، طبقات اور نظریات کی ہے۔ ہولی کا یہ شاندار تہوار اگر بیکن ہاوس، لمز یا حبیب یونیورسٹی میں منایا جاتا تو ایچ ایس سی کے کان پر جوں تک نہیں رینگنی تھی۔ مشال خان کے خون کے ساتھ ہولی کھیلی گئی۔ آئے روز اسلامی جمعیت طلبہ سے تعلق رکھنے والے جتھے ترقی پسند طلبہ پر خونی حملے کرتے ہیں۔ ایچ ای سی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ آئے روز جنسی ہراسگی کے ہولناک واقعات (بعض اوقات طالبات کی ویڈیوز) منظر عام پر آتے ہیں۔ ’ہماری روایات‘ کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔آخر کیوں؟

اب ذرا پابندیوں کی بات کر لیتے ہیں۔

میں ذاتی طور پر پابندیوں کے خلاف ہوں۔ہاں البتہٰ ہائر ایجوکیشن کے حوالے سے میں اس حق میں ہوں کہ ایچ ای سی یونیورسٹی فیس پر پابندی لگائے۔ نجی یونیورسٹیوں کے قیام پر پابندی لگائی جائے۔ تعلیم کو کاروبار، بازار میں بکنے والی جنس بنانے پر پابندی لگائیں۔ ہے ہمت’ہماری روایات‘ میں کہ سرمائے کی طاقت کے سامنے کھڑی ہوں؟

ضمناََ ایک آدھ پابندی اور بھی لگا دیں۔مثال کے طور پر مولانا طارق جمیل،اوریا مقبول جان اور سائنس دشمن نظریات پھیلانے والے ایسے دیگرافراد کی کیمپس آمد پر پابندی لگائیں۔ قاسم شاہ جیسے موٹیویشنل سپیکرز کی کیمپس آمد پر پابندی لگائیں۔

ڈاکٹر صاحبہ! برا مت منائے گا،کیونکہ بات ذرا ذاتی سی ہو جائے گی لیکن پابندیوں کی بات چل رہی ہے تو ایک عدد پابندی بیوروکریٹس کی ایکسٹنشن پر بھی لگنی چاہئے۔ سنا ہے آپ تین چار سال پہلے ریٹائر ہو گئی تھیں۔ معلوم نہیں کیسے مگر آپ کئی بار ایکسٹنشن لے چکی ہیں۔ اتنی بار ایکسٹنشن تو ہمارے ہاں کوئی جنرل بھی نہیں لے سکا۔ معلوم نہیں ایکسٹنشن لینا ’ہماری روایات‘ سے میل کھاتا ہے یا نہیں، مگر اس طرح نام نہاد میرٹ اور انسٹیٹوشنلائزیشن کا نقصان ہوتا ہے۔

ایک اور پابندی بھی لگنی چاہئے۔ ایچ ای سی میں آپ جیسے کیرئیر بیوروکریٹس کی بجائے ایسے اکیڈیمکس کو تعینات ہونا چاہئے جنہیں یہ تو پتہ ہو کہ ہولی دیوالی یا عید کرسمس بنانے سے ’ہماری روایات‘ کو کوئی نقصان نہیں ہوتا۔

ہمارے ہاں ایچ ای سی میں اگر بیوروکریٹس کی بجائے روشن فکر اکیڈیمکس تعینات ہوتے تو کم از کم ملک سے کسی ایک ایسے اکیڈیمک جرنل کی اشاعت تو ہو رہی ہوتی جس کا عالمی سطح پر کوئی مقام ہوتا۔ جہاں تک مجھے معلوم ے، کم از کم سوشل سائنسز کے شعبے میں، پاکستان کا ایک بھی ایسا جنرل (معاف کیجئے گا)جرنل نہیں جس کا کوئی امپیکٹ فیکٹر ہو۔

آپ نے اتنی دفعہ ایکسٹنشن لی،کبھی اس بارے سوچا؟

پرویز ہودبھائی، عیسیٰ داود پوتا اور بعض دیگر اکیڈیمکس لکھ لکھ کر تھک چکے کہ ہمارے ہاں اکیڈیمک پبلی کیشن کے نام پر سراسر دھوکا ہو رہا ہے۔ عجیب مذاق ہے کہ ایچ ای سی رُولز کے مطابق، آکسبرج یا آئیوی لیگ کے پریس سے شائع ہونے والے بک چیپٹر(book chapter) کو اکیڈیمک پبلی کیشن نہیں مانا جاتا مگر ٹیکسلا کے نامعلوم پریس سے شائع ہونے جریدے کو ساٹھ ہزار ’فیس‘ دے کر لیکچرر سے اسسٹنٹ پروفیسر بن سکتے ہیں۔

آپ نے اتنی دفعہ ایکسٹنشن لی،کبھی اس بارے سوچا؟

سوچا تو عمل کیوں نہیں کیا گیا؟ نہیں سوچا تو اب سوچئے گا۔ ایک اور درخواست: اب مزید ایکسٹنشن مت لیجئے گا۔ مانا کہ ایکسٹنشن لینا ’ہماری روایات‘ کے مطابق غازیوں والا مستحسن عمل ہے لیکن ۹ مئی کے بعد شائد اسے اب پہلے جیسی پزیرائی نہ ملے۔

فقط۔

فاروق سلہریا

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔