فاروق سلہریا
کرناٹک کی عدالت نے تعلیمی اداروں میں حجاب پر وقتی پابندی لگا دی ہے۔ اس ضمن میں تفصیلی فیصلہ آنے تک یہ پابندی برقرا رہے گی۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو میں کرناٹک سے تعلق رکھنے والے ایک مسلمان والد کو یہ کہتا ہوا سنا جا سکتا ہے کہ وہ بیٹی کو گھر بٹھا لے گا لیکن بغیر پردے کے تعلیم کے لئے نہیں بھیجے گا۔
ایسا پہلی بار نہیں ہو گا۔ ریاست کی جانب سے حجاب پر پابندی کے تجربے مسلم دنیا خود بھی کر چکی ہے۔ اَسی کی دہائی میں ترکی اور 1930ء کی دہائی میں ایران اس ضمن میں اہم ترین مثالیں ہیں۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
ایران میں جب یہ پابندی لگائی گئی تو پبلک لائف میں عورتوں کی موجودگی کم ہو گئی۔ ترکی میں حجاب کا سوال وہاں بنیاد پرست اور مذہبی جماعتوں کو مقبول بنانے میں ایک اہم نقطہ ثابت ہوا۔ آج ترکی کی خاتون اؤل فخریہ حجاب لیتی ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی طرف سے حجاب پر پابندی کا ہرگز مقصد مسلمان خواتین کی ترقی نہیں۔ ہندتوا تو ہے ہی عورت دشمن۔ اسے عورت، بالخصوص مسلمان عورت، کی فکر کب سے ستانے لگی؟ جواب سب کو معلوم ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ حجاب پر پابندی لگا کر حکمران بی جے پی مسلمان عورت کو مزید پس ماندگی کی جانب دھکیلنا چاہتی ہے۔ بی جے پی کو معلوم ہے کہ بہت سے رجعت پسند مسلمان خاندان اپنی بیٹیوں کو بغیر برقعے کے گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ یوں سٹرکچرل انداز میں مسلمان اقلیت کو مزید پس ماندہ بنانے کی ایک کوشش کی گئی ہے۔
ہمارے بعض لبرل دوست کہیں گے کہ کیا مسلمانوں کو بھی اب اکیسویں صدی میں قدم نہیں رکھ دینا چاہئے اور حجاب یا برقعے جیسے لباس کے خلاف موقف لینے کی ضرورت نہیں ہے جو عورت کو ایک جنس بنا کر رکھ دیتا ہے؟
یہ لبرل موقف سطحی حد تک ہی درست ہے۔ اس موضوع پرسیاق و سباق کے بغیر بحث ممکن نہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بندوق کی نوک پر جدت مسلط نہیں کی جا سکتی۔ اوپر ہم نے ایران اور ترکی کی مثال دی۔ وہی کچھ اب بھارت میں ہونے جا رہا ہے۔
مزید یہ کہ اگر آپ روشن فکر ہیں تو بنیادی انسانی حقوق کے عالمگیر موقف سے روگردانی نہیں کی جا سکتی۔ اگر ایک بالغ عورت برقعہ یا حجاب لینا چاہتی ہے تو یہ اسی طرح ہے جس طرح کوئی مدرسے کا طالب علم جمعیت علمائے اسلام کو ووٹ دینا چاہتا ہے۔
آپ مدرسے کے طالب علم سے جدت کے نام پر ووٹ کا حق نہیں چھین سکتے۔ آپ کو حق ہے کہ مدرسے کے نظام، اس میں سکھائی گئی رجعت پسندی اور انسان دشمنی یا جمعیت علمائے اسلام کی مخالفت کریں۔ مدرسے کے اس پورے نظام کو نظریاتی و سیاسی شکست دیں لیکن اگر ملک میں جمہوریت ہے تو مدرسے کے طالب علم کو حق حاصل ہے کہ وہ جسے چاہے ووٹ دے۔ یہی معاملہ لباس کا ہے۔
سوشلسٹ تحریک کا موقف بالکل واضح ہے:
۱۔ ریاست کو یہ حق نہیں کہ وہ ڈریس کوڈ مسلط کرے۔ ریاست ایران، سعودی عرب اور ترکی کی ہو یا فرانس یا بھارت کی۔
۲۔ ہم حجاب یا برقعے کے قائل نہیں لیکن ہم اس حق کا دفاع کرتے ہیں کہ یہ فیصلہ خواتین خود کریں کہ انہیں کیا پہننا ہے۔ جس طرح عورت کو برقعہ پہننے کا حق ہے اسی طرح اسے جینز یا سکرٹ پہننے یا سر پر دوپٹہ نہ لینے کا حق بھی حاصل ہے۔ بعض لبرل حضرات جو برقعے پر پابندی کے حامی ہیں وہ ان مولویوں سے ہرگز مختلف نہیں جو مسکان خان کے حق لباس پر تو جہاد کرتے نظر آتے ہیں مگر سر ینگر کی عروسہ پرویز کو سر پر دوپٹہ نہ لینے کی وجہ سے سر قلم کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
۳۔ ہم بطور سوشلسٹ ایک ایسے سازگار ماحول کاقیام چاہتے ہیں جہاں عورت ہر طرح کے لباس میں محفوظ اور محترم محسوس کرے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔