پاکستان

عورت کے مسائل اور ان کا حل

عروبہ ممتاز

تاریخ کے اوراق کو اگر پلٹا جائے تو ہمیں ہر پنے پر عورت کی جدوجہد سنہرے الفاظ میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ آج اکیسویں صدی کا المیہ یہ ہے کہ ایک طرف ترقی یافتہ ممالک نے جہاں عورت کو منڈی کی جنس بنا کر رکھ دیا ہے، وہاں ترقی پذیر ممالک میں عورت کو رسم و رواج، معاشی و ثقافتی جبر اور رجعت کے ذریعے اس کو چادر اور چار دیواری میں قید کر کے رکھ دیا ہے۔ اس میں بالخصوص پاکستان کی خواتین کی حالت زار کا ذکر کیا جائے تو صورت حال انتہائی شرمناک ہے۔

مختلف کالجز، یونیورسٹیوں غرضیکہ زندگی کے ہر شعبہ کے اندر ہونے والے ہراسگی کے واقعات پر نظر دوڑائی جائے تو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اور اس سے پہلے پیش آنے واقعات میں تسلسل دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ اس سماج میں موجود وحشت اور گھٹن کی عکاسی کرتا ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCP) کی 2022ء کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 4 سالوں کے دوران 14000 جنسی تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جبکہ محض 3 فی صد سے بھی کم کو سزا سنائی گئی ہے۔ سینکڑوں ایسے واقعات سماجی، ثقافتی اور سیاسی دباؤ کے باعث منظرِ عام پر نہیں آتے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں 75 سے 80 فی صد خواتین تعلیم کی بنیادی ضرورت سے ہی محروم ہیں۔ تعلیمی اداروں میں طلبہ کو درپیش مسائل کا جائزہ لیں تو تعلیمی ادارے میں داخلے کے حصول سے لے کر ہاسٹل تک مسائل کا ایک سمندر ہے جو انہوں نے پار کرنا ہوتا ہے۔ اس دوران طلبہ کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کے اثرات تمام عمر ان کے ذہنوں پر پیوست ہو جاتے ہیں۔ جو خواب طلبہ اپنے گھروں سے سجا کر نکلتے ہیں حقائق اس کے بالکل متضاد ہوتے ہیں اور بالآخر یہ سہانے خواب ڈراؤنے خواب ثابت ہوتے ہیں۔

ماں کی پہلی درسگاہ کے بعد تعلیمی ادارے دوسری درسگاہ کا درجہ رکھتے ہیں اور ایک استاد کا رُتبہ باپ کے مانند ہوتا ہے، لیکن آج کے تعلیمی اداروں میں بیٹھے اساتذہ سے لے کر گیٹ پر کھڑے چوکیدار کے ہاتھوں طلبہ کی عزت نیلام ہورہی ہے۔ پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں اگر طالبات کے لیے ہاسٹل کے اصول کی بات کی جائے،تو اس کے لیے بھی انہیں سینکڑوں پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں جن میں بھاری فیسوں کی برمار ہوتی ہے۔ تعلیمی اداروں کے اندر ہاسٹلز کی الاٹمنٹ گنی چنی طالبات کو کی جاتی ہے اور جو اکثریت رہ جاتی ہے اس کو مجبورا پرائیویٹ ہاسٹلز کی راہ دیکھنی پڑتی ہے۔ پرائیویٹ ہاسٹلز کا ایک الگ مافیا بیٹھا ہے جو ایک چھوٹے سے ڈربے نما کمروں میں ایک ساتھ چھ لڑکیوں کو رکھ کر انتہائی مہنگی فیس وصول کرتے ہیں۔

یہ سب مشکلات جھیلنے کے باوجود جو طالب علم تعلیم جاری رکھتا ہے، تو اس کا سارا مستقبل ایک استاد کے ماتحت کر دیا جاتا ہے کہ وہ پھر جیسے چاہے اس کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کر سکتا ہے۔ اس ساری خباثت کے خلاف اگر طلبہ آواز اٹھانے کی کوشش کریں، تو فیل کر دینے کے ڈر سے یا سوشل پریشر کی وجہ سے آواز دبا دی جاتی ہے۔

طالبات کی بلیک میلنگ کی اگر بات کی جائے تو تعلیمی اداروں کی انتظامیہ سے لے کر ریاست کے بعد سر شخصیات اس گھنونے جرم میں برابر کے شریک نظر آتے ہیں اور یہیں سے انکی جسم فروشی کا آغاز ہوتا ہے۔ جسم فروشی جہاں دنیا میں ایک بڑا دھندہ ہے، وہاں اُسکی روک تھام کے لیے کوئی اقدامات نظر نہیں آتے ہیں۔ ایک طرف پاکستانی آئین کے سیکشن 371A اور 371B اپنی جگہ موجود ہیں، تو دوسری طرف جسم فروشی کا دھندہ عروج پر ہے۔ تعلیمی اداروں کے اندر طلبہ کی محرومیوں کا فائدہ اٹھا کر ان کو اس آگ میں جھونک دیا جاتا ہے۔ اس وحشت کے خلاف اگر کوئی طالب علم آواز اٹھاتا ہے تو معاملے کی چھان بین کے لیے ایسی کمیٹیاں تشکیل دی جاتی ہیں، جس میں طلبہ کی نمائندگی تو دور کی بات بلکہ ہراساں کرنے والے ہی فیصلہ ساز مقرر کر دیئے جاتے ہیں۔ طلبہ یونین پر پابندی ہی وہ وجہ ہے جس کے باعث تعلیمی اداروں کی انتظامیہ آقا کا روپ اختیار کر چکے ہیں۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور جیسے واقعات اس بات کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں کہ کیسے اصل حقائق کو پسِ پردہ ڈال کر معاملے کو کوئی اور رُخ دے دیا جاتا ہے۔

تعلیمی اداروں سے آگے چل کر کام کی جگہ پر درپیش مسائل کا جائزہ لیا جائے تو کیفیت مزید بدتر دکھائی دیتی ہے۔ پرائیویٹ اداروں کا ماحول ایک طرف تو دوسری طرف ریاست کے ماتحت سرکاری اداروں کا حال پہلے کی زیادہ ہوس اور تعفن سے بھرا معلوم ہوتا ہے۔ سرکاری افسران کی تو کیا ہی بات کی جائے جہاں انصاف فراہم کرنے والے معصوم بچیوں پر گھریلو تشدد کرنے کے باوجود دندناتے پھرتے ہیں۔ کامریڈ لال خان نے بھی اسی تناظر میں کہا تھا کہ”یہاں قانون اندھا نہیں مہنگا ہے اور جج سب کچھ دیکھ سکتا ہے۔ پہنچ کے لیے دولت درکار ہے۔“

پاکستان جیسے پسماندہ معاشرے میں عمومی بیانیہ یہ سننے کو ملتا ہے کہ عورت ”صنفِ نازک“ ہے لیکن انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انقلابات کے دوران خواتین نے ہمیشہ کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اگر اس ملک کی نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے، تو پھر یہ بات یقینی ہے کہ اس سماج کی کوئی بھی بڑی تبدیلی خواتین کی شمولیت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس وحشت اور بربریت کے چنگل سے نکلنے کا واحد راستہ مل کر جدوجہد کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ حالات اب اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ظلم سہنے والا ہر انسان اپنا حق مانگ کر نہیں بلکہ چھین کر لے گا۔ اِس سماج میں بسنے والے محنت کش جب بھی کسی انقلابی بغاوت میں اتریں گے، عورت اس میں ہر اؤل ہو گی۔

دشت خونین میں اب اتر جائیے
اب جو ٹھانی ہے جاں سے گزر جائیے
تہمتیں جو بھی تھوپی گئیں آپ پر
بس ببانک دہل اب مکر جائیے

Roznama Jeddojehad
+ posts