ایرک تو ساں
(ایرک توساں عالمی شہرت یافتہ مارکسی معیشت دان ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے وہ یونیورسٹی پروفیسر ہیں۔ ان کی وجہ شہرت عالمی قرضوں کے خلاف ان کی مہم اور تحقیق ہے۔ قرضوں کے موضوع پر وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی کتابیں مثلاً ’یو ر منی اور یور لائف‘ کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔ ان کا شمار فورتھ انٹرنیشنل کے اہم رہنماوں میں بھی ہوتا ہے۔ فورتھ انٹرنیشنل کے اہم رہنما، عالمی شہرت یافتہ معیشیت دان اور ٹراٹسکی اسٹ تحریک کے ایک اہم نظریہ دان ارنسٹ مینڈل کے سو سالہ یوم پیدائش کے سلسلے میں ایرک توساں نے مندرجہ ذیل مضمون تحریر کیا ہے جسے سلسلہ وار پیش کیا جا رہا ہے)
ارنسٹ مینڈل ایک بین الاقوامیت پسند اور انقلابی کارکن تھے، جنہوں نے زندگی بھر سوچ اور عمل کو یکجا کیا۔ فکری لحاظ سے ان کے وسیع نظریاتی کام، معاشی اور سیاسی صورت حال پر ان کے بہت سے تجزیوں اور بے شمار مضامین نے کارکنوں، طلبہ، محققین، ٹریڈ یونین رہنماؤں اور سماجی و سیاسی تنظیموں کے رہنماؤں کی ایک بڑی نسل کو متاثر کیا۔ انہوں نے فورتھ انٹرنیشنل کی قیادت میں اہم کردار ادا کیا، وہ تنظیمیں تعمیر کرنے میں ماہر تھے۔ انہوں نے فورتھ انٹرنیشنل اور مختلف ملکوں میں اس کے سیکشنزکی تعمیر کے لیے اتنی ہی توانائی صرف کی جتنی نظریاتی اور سیاسی کام کی تیاری کے لیے کی۔ مینڈل 20 ویں صدی کے دوسرے نصف کے بین الاقوامی قد کے تقریباً 20 مارکسی دانشوروں میں سے ایک ہیں۔ ان کا شمار ان چند افراد میں ہوتا ہے جو تخلیقی اور اختراعی فکری تصریح کے ساتھ عمل کو یکجا کرنے میں کامیاب رہے۔
1971میں،جب مجھے فورتھ انٹرنیشنل کے بلجیم سیکشن کی قیادت کیلئے منتخب کیا گیا، تب سے لیکر 1995میں ان کی موت کے وقت تک میرا ارنسٹ مینڈل سے رابطہ رہا۔ ہمارے درمیان1980سے رابطے اس وقت تیز ہو گئے، جب مجھے فورتھ انٹرنیشنل کی قیادت کا حصہ بننے کیلئے مدعو کیا گیا۔ اس قیادت کا مطلب ہے یونائیٹڈ سیکرٹریٹ، جس کی سال میں کئی مرتبہ 3سے4روز کی میٹنگ ہوتی، اورانٹرنیشنل ایگزیکٹو کمیٹی(آئی ای سی)،جسکی سالانہ 5سے6روز کی میٹنگ ہوتی ہے۔
تعلق اور تعاون کا یہ سلسلہ1988میں اس وقت مزید تیز ہو گیا، جب میں بیوروکا رکن بنا، جو یونائیٹڈ سیکرٹریٹ کے اجلاسوں کی تیاریاں کرتا تھا اور پیرس میں ہر مہینے دو اجلاس کم از کم ہوتے تھے۔ میں نے وسطی امریکہ میں خاص طور پر نکارا گوا اور ایل سلوا ڈور سمیت زیادہ وسیع پیمانے پر میکسیکو سے کولمبیا تک پھیلے ہوئے خطے میں سماجی تحریکوں اور انقلابیوں کے ساتھ رابطوں کا ذمہ دار تھا۔
ارنسٹ مینڈل کی زندگی کے آخری سالوں میں ہماری ملاقاتیں زیادہ ہوتی گئیں اور ہم زیادہ قریب ہوتے گئے۔ 1989میں دیوار ِبرلن گرنے وقت، 1991میں سوویت یونین کے خاتمے کے وقت، 1991کے اوائل میں فورتھ انٹرنیشنل کی 13ویں عالمی کانگریس اور1995میں 14ویں عالمی کانگریس کی تیاری کے دوران ہم بہت قریب رہے اورملاقاتوں کا یہ سلسلہ ان کی موت سے ایک ماہ قبل ہوئی آخری ملاقات تک جاری رہا۔ اس دوران ہم نے 1992میں مل کر نکارا گوا کا ایک دورہ بھی کیا۔
ارنسٹ مینڈل سے میری پہلی ملاقات1970میں ہوئی تھی،جب میں 16سال کا تھا۔ اس سے کچھ عرصہ قبل ہی میں نے اس وقت فورتھ انٹرنیشنل(ایف آئی) میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا، جب میں نے بلجیم کے ٹراٹسکی اسٹ گروپ ’ینگ سوشلسٹ گارڈ‘اور’دی والون ورکرز پارٹی‘(The Walloon Workers Party) کی جانب سے بلجیم کی کوئلے کی کانوں میں ہڑتال کروانے میں کردار کا مشاہدہ کیا۔ یہ ہڑتالیں پہلے ملک کے فلیمش بولنے والے حصہ صوبہ لمبرگ(Limburg) اور پھر فرانسیسی بولنے والے حصے لیژ(Liege) کے علاقے میں ہوئی تھیں۔ ایف آئی میں شامل ہونے سے قبل میں ہائی سکول کی جدوجہدوں، مزدوروں کی ہڑتالوں کے ساتھ یکجہتی کی تحریکوں، ویتنام جنگ کے خلاف احتجاج، امریکہ میں شہری حقوق کیلئے افریقی نسلوں کی جدوجہد کے ساتھ یکجہتی اور کیوبا کے انقلاب کی حمایت میں سرگرم تھا۔
ارنسٹ مینڈل فورتھ انٹرنیشنل کے بلجیم سیکشن اور عالمی سطح پر ایف آئی کے رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ تاہم جب میں نے شمولیت کا فیصلہ کیا تو مجھے یہ معلوم نہیں تھا۔ 1968ء کی تحریک میں ایف آئی کے کارکنوں کی شمولیت کو دیکھتے ہوئے لیڈنگ باڈی کا اجلاس پیرس میں منعقد کرنا پڑا۔ میں نے ایف آئی سے ملنے کیلئے جون 1970میں اپنے ہم عمر ایک دوست کے ہمراہ پیرس جانے کا فیصلہ کیا۔ہم نے پہلی رات پو نف(Pont Neuf) کے نیچے گزاری۔ پھر ہم نے کمیونسٹ لیگ سے ملنے کی کوشش کی۔
ہم نے 95 rue Faubourg Saint Martin کے پتے پرپہنچ کر دروازے پر لگی گھنٹی بجائی۔ دروازہ کھولنے کیلئے آنے والا شخص پیئر فرانک (Pierre Frank) تھا، جو ٹراٹسکی کا اس وقت سیکرٹری رہ چکا تھا، جب وہ 1929میں ترکی کے جزیرے پرنکیپو پر جلاوطنی کاٹ رہاتھا۔ اُس نے بڑے پرجوش انداز میں ہمارا استقبال کیا اور اس کیساتھ کافی دلچسپ گفتگو ہوئی۔ دو نوجوانوں کی ایف آئی میں شمولیت کیلئے آمد سے اسے کافی مسرت ہوئی۔ ہم دونوں نوجوان یہ نہیں جانتے تھے کہ ارنسٹ مینڈل ایف آئی کے اہم رہنماؤں میں سے ایک ہیں اور اگر ہم ایف آئی میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو ہم برسلز جا کر ان سے مل سکتے ہیں۔
اس کے بعد مجھے پہلے بار یہ سمجھ آئی کہ ایف آئی کی قیادت اجتماعی تھی۔ ارنسٹ مینڈل نے دوسری تنظیموں کے برعکس کبھی بھی خود کسی قسم کا لیڈر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ میں نے انہیں کبھی کسی قسم کی ذاتی قیادت پر زور دیتے ہوئے نہیں دیکھا۔ انہوں نے کبھی بھی کسی ترجیح یا مراعات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔ انکا اثر و رسوخ ان کے اعمال،تجزیے اور اپنے عملی کردار کی وجہ سے تھا۔ 1970سے1995کے درمیان 100سے زائد اجلاسوں میں ان کے ساتھ موجود رہنے کے بعد میں یہ بات بغیر کسی شک و شبہ کے کہہ سکتا ہوں۔
میں نے نومبر 1970 میں پہلی بار ارنسٹ مینڈل کو دیکھا۔ وہ ’ریڈ یورپ‘ کی ایک بڑی کانفرنس کے مقررین میں شامل تھے، جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ ایف آئی کے یونائیٹڈ سیکرٹریٹ سے منسلک ہیں۔
یہ کانفرنس ایف آئی کی تنظیموں کی طرف سے بلائی گئی تھی، کیونکہ ایف آئی کی کئی شاخیں ہیں یا کئی بین الاقوامی تنظیمیں 1938ء میں لیون ٹراٹسکی کی موجودگی میں قائم ہونے والی فورتھ انٹرنیشنل کے تسلسل کا دعویٰ کرتی ہیں۔ جس فورتھ انٹرنیشنل میں میں نے شمولیت اختیار کی اور ارنسٹ مینڈل اس کی قیادت میں تھے، اسے فورتھ انٹرنیشنل کا یونائیٹڈ سیکرٹریٹ سمجھا جاتا تھا۔ یعنی ایف آئی کے دو بڑے حصوں کا از سرنو اتحاد، جو یورپ میں ایف آئی کے ارکان کی اکثریت(ارنسٹ مینڈل، پیئر فرینک اور لیویو میتان کی قیادت میں)پر مبنی تھا۔ اس میں امریکہ میں سیکشن، سوشلسٹ ورکرز پارٹی(ایس ڈبلیو پی) بھی شامل تھا۔ ایف آئی کا یہ اتحاد 1963میں ان یورپی و امریکی ساشلسٹ ورکرز پارٹی کے انضمام کے بعد وجود میں آیا تھا۔ 1970ء میں یونائیٹڈ سیکرٹریٹ کے زیر اہتمام ’ریڈ یورپ‘ کیلئے برسلز میں دو روزہ کانفرنس منعقد کی گئی تھی۔ اس کانفرنس میں فرانس سمیت یورپ بھر سے 3000سے زائد نوجوانوں نے شرکت کی۔ ارنسٹ مینڈل نے دیگر مقررین ایلین کریوین(Alain Krivine)، برطانیہ میں مقیم پاکستانی سیاسی کارکن طارق علی اور اٹلی سے تعلق رکھنے والی لیوِیومیتان(Livio Maitan) کے ہمراہ پرجوش تقاریر کیں۔ ان تقاریر سے میرے جیسے 16سال کے لوگوں کو یقین، حوصلہ اور بہت کچھ حاصل ہوا۔
میں نے ارنسٹ مینڈل کو ان کی تحریروں کے ذریعے بھی جانا۔ جیسے ہی میں نے 1970کے موسم گرما میں ایف آئی میں شمولیت اختیار کی، میں نے مینڈل کا کتابیں پڑھنا شروع کر دیا تھا۔ میں نے اس سے پہلے بائیں بازو کے ہفت روزہ La Gauche (دی لیفٹ)میں بھی ان کے متعدد مضامین پڑھے تھے۔ لے گوش (دی لیفٹ)ارنسٹ مینڈل کی مدد سے 1956میں شروع ہوا تھا۔ جس چیز نے مجھے ایف آئی میں شامل ہونے پر آمادہ کیا، وہ تجزیہ کے ساتھ ساتھ پریکٹس کی اعلیٰ سطح تھی۔
مثال کے طور پر بلجیم کے ٹراٹسکی اسٹوں کی کان کنوں کی ہڑتال میں شمولیت اور ویتنام میں امریکی مداخلت کے خلاف جدوجہد سے میں بہت متاثر ہوا۔ مجھے ارنسٹ مینڈل کے ایک مضمون نے بہت متاثر کیا، جس کا عنوان ’عالمی انقلاب کا نیا عروج‘ تھا۔ اپریل1969میں اٹلی میں منعقد ہونے والی فورتھ انٹرنیشنل کی 9ویں عالمی کانفرنس نے اس دستاویز کو بطور پروگرام منظور کیا۔ اس متن میں عالمی انقلاب کے تین اجزء کی جدلیات پر زور دیا گیا تھا۔ اس میں 1968ء میں جو کچھ ہوا، خاص طور پر فرانس میں کیا ہوا، جس کے پورے یورپ میں اثرات مرتب ہوئے۔۔۔کا جائزہ لیا گیا۔اس کے علاوہ چیکو سلواکیہ میں بھی 1968کی پراگ سپرنگ کا ذکر تھا۔ 30اور31جنوری1968کی رات کے حملے میں جب ویتنامی انقلابی کامیاب ہوئے اور عارضی طور پر جنوب کے دارالحکومت سائیگون پر قبضہ کر لیا، اس بابت تجزیہ کیا گیا(1975میں امریکہ کی مکمل شکست کی پیشین گوئی بھی کی)۔
مینڈل کی تحریر نے عالمی انقلاب کے تین شعبوں (صنعتی سرمایہ دارانہ ملکوں، مشرقی بلاک کے ملکوں اور تیسری دنیا کے ملکوں) میں جدوجہد کی سطح اور طاقت کے توازن کا تجزیہ کیا اور یہ ظاہر کیا کہ یہ تینوں شعبے آپس میں کیسے جڑے ہوئے ہیں۔ مئی 1968، 1969اور 1970کے واقعات اس بات کا واضح اظہار کر رہے تھے کہ ایف آئی کی اس بنیادی تحریر میں کیا تھا اور ایف آئی نے کس قسم کی مداخلت کی خواہش کی تھی۔
میرے لئے اگلا اہم مرحلہ ارنسٹ مینڈل کی کتاب ’مارکسسٹ اکنامک تھیوری‘پڑھنا تھا۔ میں نے پیپر بیک ایڈیشن کو 1970کے آخر میں کرسمس کے سلسلے میں ہونے والی سکول کی چھٹیوں کے دوران از بر کر لیا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد میں نے ارنسٹ مینڈل کی ایک اور کتاب ’کارل مارکس کی معاشی سوچ کی تشکیل‘ شوق سے پڑھی، جو1971میں منتھلی ریویو پریس نے شائع کی تھی۔
آپ کو شائد لگے کہ میں نے بہت جلدی کی لیکن میں نے مارکس اور اینگلز کا ’کمیونسٹ مینی فیسٹو‘اس وقت پڑھا تھا، جب میں 13سال تھا۔ یہ 1967کا سال تھا اور اسی سال سے میں نے دنیا بھر کے انقلابات پر مختلف کتابیں پڑھنا شروع کی تھیں۔ خاص طور پر چینی انقلاب سے متعلق ’ریڈ سٹار اوور چائنہ‘کے مطالعہ سے آغاز کیا۔ یہ کتاب1937میں ’لیفٹ بک کلب‘ نے شائع کی اور 1967کے عرصہ میں گاؤں کی لائبریری سے یہ کتاب میں نے حاصل کی تھی۔ اس کے ساتھ ہی ایڈگار سنو کی کتاب ’ریڈ چائنا ٹوڈے: دی آدر سائیڈ آف دی ریور‘ اور کے ایس کیرول کی کتاب ’چائنا: دی آدر کمیونزم‘بھی پڑھنا شروع کی۔ جون، جولائی1971میں فورتھ انٹرنیشنل میں شمولیت کے بعد میں نے لیون ٹراٹسکی کی ’انقلاب روس کی تاریخ‘ کا مطالعہ کیا۔ اس کتاب نے مجھ پر ان مٹ نقوش چھوڑے اور مجھے ٹراٹسکی کی انقلابی عمل کا تجزیہ کرنے کی غیر معمولی صلاحیت نے بہت زیادہ متاثر کیا۔
1971میں، میں فورتھ انٹرنیشنل کے نئے بلجیم سیکشن میں بہت زیادہ سرگرم ہو گیا۔ جون1970میں، میں نے جے جی ایس(ینگ سوشلسٹ گارڈ) میں شمولیت اختیار کرلی تھی، جو کہ ایف آئی ممبران کے ذریعے چلائی جانے والی نوجوانوں کی تنظیم ہے۔ یہ 1964کے اواخر یا 1965کے اوائل میں اس وقت بلجیم سوشلسٹ پارٹی سے الگ ہو گئی تھی، جب پارٹی قیادت نے بلجیم کی ریاست کے جابرانہ اقدامات کی حمایت کی تھی۔ جے جی ایس نے 1968سے1969تک اپنے آپ کو ایک انقلابی نوجوانوں کی تنظیم سمجھا۔ اسے فوتھ انٹرنیشنل کے ہمدرد گروپ کی حیثیت حاصل تھی۔ 1968میں شروع ہونے والی نوجوانوں کی بغاوتوں کے دوران تنظیم نے نمایاں طو ر پر ترقی کی اور بلجیم کے کئی شہروں میں 150سے200تک نوجوانوں کو بھرتی کیا۔ یہ وہ کارکن تھے جو عام طور پر کالج، ہائی سکول اور محنت کشوں کے محلوں میں سرگرم تھے۔ یہ تحریک 1970میں سوشلسٹ کنفیڈریشن آف ورکز کے تحت منظم ہونے والی گذشتہ نسل کے ساتھ جڑت قائم کر رہی تھی۔ ارنسٹ مینڈل بلاشبہ 47سال کی عمر کے ساتھ بڑوں کی نسل سے تعلق رکھتے تھے، وہ1923میں پیدا ہوئے تھے۔ مینڈل بوڑھے نہیں تھے، لیکن مجھ جیسے 17سالہ نوجوان اور بزرگوں کیلئے وہ پرانی نسل کے نمائندے بن جاتے تھے۔
یہ وہ نسل تھی، جس نے 1940سے1945تک بلجیم پر نازیوں کے قبضے کے دوران سخت جدوجہد کی اور بالآخر بلجیم کی سوشلسٹ پارٹی اور اس کی نوجوانوں کی تنظیم کے اندر بائیں بازو کی تحریک میں شامل ہو گئی۔ نتیجے کے طور پر جے جی ایس نے پرانے اراکین کی تنظیم کے ساتھ انضمام کا عمل شروع کیا، جس میں کام کی جگہوں پر، خاص طور پر میرے شہر لیژمیں سٹیل کی صنعت میں کام کرنے والوں کی شمولیت تھی۔
1970کے آخر میں، میں نے گینٹ میں آخری جے جی ایس کانفرنس میں شرکت کی، جس نے انضمام کی منظوری دی۔ انضمام کیلئے کانگریس مئی1971میں لیژمیں منعقد ہوئی، جو ایف آئی کا نیا بلجیم سیکشن بننے کیلئے ایک اہم بنیاد تھی۔ جے جی ایس اور سوشلسٹ کنفیڈریشن آف ورکرز کے انضمام سے ایل آر ٹی(انقلابی ورکرز لیگ)کا قیام عمل میں لایا گیا، جس نے تین تنظیموں کو اکٹھا کیا:والونیا میں والون ورکرز پارٹی، برسلز میں یونین آف دی لے گوش سوشلسٹ لیفٹ اور فلینڈرز میں انقلابی سوشلسٹس(اپنے اخبار ڈی سوشلسٹس اسٹیم سمیت)۔
انضمام کی یہ کانگریس مئی1971میں منعقد ہوئی تھی۔ ارنسٹ مینڈل اس کانگریس میں نمایاں طور پرسرگرم تھے۔ بین الاقوامی مندوبین میں فورتھ انٹرنیشنل کی فرانسیسی شاخ ’کمیونسٹ لیگ‘ کے ایلین کریوین اور فورتھ انٹرنیشنل کے یونائیٹڈ سیکرٹریٹ اور اس کے اطالوی حصے ’انقلابی گروپس‘ کے رکن لیوِیو میتان شامل تھے۔
ہم تقریباً350رکنی تنظیم تھے، جس کی صنعتی کارکنوں، فلیمش، برسلز اور فرانسیسی بولنے والی یونیورسٹیوں کے علاوہ سیکنڈری سکولوں میں مضبوط موجودگی تھی۔ مجھے مرکزی کمیٹی کیلئے منتخب کیا گیا، مرکزی کمیٹی میں سب سے کم عمر ممبر تھا۔ میں اس وقت 17سال کا بھی نہیں تھا۔ میرے خیال میں اس کمیٹی میں تقریباً30ممبران تھے۔ وہاں صنعتی کارکن تھے، جو پہلی بار1960-61کی سرمائی ہڑتال کے بعد شامل ہوئے تھے۔ ایسے کامریڈ بھی تھے، جنہوں نے دوسری جنگ عظیم سے پہلے ارنسٹ مینڈل کی طرح ایف آئی میں شمولیت اختیار کی تھی اور جنہوں نے مزاحمت میں حصہ لیا تھا۔
ان میں ایک ایمائل وان سیولن(Emile Van Ceulen) تھے (پیدائش 1916 میں ہوئی اور 1987 میں وفات پائی)۔وہ چمڑے کی صنعت میں کام کرنے والے مزدور تھے، جو 1933میں ٹراٹسکی اسٹ تنظیم میں شامل ہوئے(وہ 1951میں فورتھ انٹرنیشنل کی تیسری عالمی کانگریس میں مندوب تھے، 1954کی کانگریس میں جے جی ایس کے نیشنل وائس پریذیڈنٹ بنے اور چینی کمیونسٹ پارٹی کی دعوت پر چین میں سرکاری مہمان بھی بنے)۔
رینے گروسلمبرٹ(Rene Groslambert)بھی تھے۔ رینے جو پال ہنری سپاک کے ہمراہ 1935میں سوشلسٹ ایکشن کے شریک بانی تھے(اس کے علاوہ 1936میں والٹر ڈاؤج اور لیون لیسوئل کے ساتھ انقلابی سوشلسٹ ایکشن کے شریک بانی تھے، انہیں 1940میں گرفتار کر کے ورنیٹ کیمپ فرانس میں جلاوطن کیا گیا تھا۔ وہ فورتھ انٹرنیشنل کی دوسری عالمی کانگرنس منعقدہ1948میں بطور مندوب شریک ہوئے تھے)۔
ایک اور رکن پیئر لیگریو]Pierre Legreve[(1916-2004)تھے، جو 1933سے ٹراٹسکی اسٹ تنظیم کے رکن تھے (وہ ایک استاد تھے جو 1965سے1968تک یونین آف سوشلسٹ لیفٹ کے نائب منتخب ہوئے۔ الجزائر کے انقلاب کی حمایت اور مراکش میں سیاسی قیدیوں کے ساتھ یکجہتی کیلئے بہت سرگرم رہے)۔
ایسے صنعتی کارکن بھی تھے، جنہوں نے لیژمیں سٹیل کی صنعت جبکہ شارلوا (Charleroi)اور مونس (Mons)میں شیشے کی صنعت میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ارنسٹ مینڈل کے ساتھ معروف دانشور بھی تھے، مثال کے طور پر وکیل ناتھن وائن اسٹاک(Nathan Weinstock) جنہوں نے 1969میں ’Zionism: False Messiah‘کے عنوان سے ایک قابل ذکر اور دلیرانہ کتاب شائع کی۔
مرکزی کمیٹی نے مجھے پولیٹیکل بیورو کیلئے منتخب کیا، اس کمیٹی کا کانگریس سے دو یا تین ہفتے بعد اجلاس ہواتھا۔میں اس کا تذکرہ اس لئے کر رہا ہوں کہ پولیٹیکل بیورو میں میرا پہلا رابطہ ارنسٹ مینڈل اور ان کی ساتھی گیزیلا شولز]Gisela Scholz[(1935-1982) سے ہوا، جو ایک جرمن کامریڈ تھیں اور انہوں نے فورتھ انٹرنیشنل میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ مینڈل کی عمر 1971میں 48سال تھی۔ ان کی ساتھی ان سے 12ال چھوٹی اور جرمن ریوولوشنری لیفٹ کی رکن تھیں، وہ رُڈی ڈوٹیشک(1940-1979) کی دوست تھیں، جنہیں ’ریڈ رُڈی‘ (Red Rudi)کے نام سے جانا جاتا تھا۔
اس پولیٹیکل بیورو میں مینڈل کی نسل کے ہمراہ کئی نوجوان کارکن تھے۔ اس نوجوان نسل کی سرکردہ شخصیات میں فرانسوا ورکمین (Francois Vercammen)، ڈینس ہومین (Denis Horman)اور جان وینکرہوون(Jan)Vankerkhovenشامل تھے۔
40کی دہائی کی کئی خواتین تھیں، جن میں لیژسے تعلق رکھنے والی وکیل ماتھے لامبرٹ(Mathe Lambert)، برسلز سے صحافی دُودو نیینس (Doudou Neyens)اور دیگر شامل تھیں۔ یورالوجسٹ یاک لیمانش(Jacques Leemans)بھی موجود تھے۔
فرانسوا ورکمین (1914-2015) اور ایرک کورژن]Eric Corijn[(1947-) مجھے سے تقریباً 10سال بڑے تھے۔جب آپ 17سال کے ہوں اور 27سال کے کسی انسان کے مقابل ہوں تو وہ آپ کو بوڑھے لگتے ہیں۔ 36سالہ گیزیلابھی میرے لئے بوڑھی عورت تھیں۔ اس طرح بلجئین سیکشن میں ہمارے پاس ایک پولیٹیکل بیورو اور ایک مرکزی کمیٹی تھی،جس میں تین یا چار الگ الگ سیاسی نسلیں تھیں، اور یہیں ارنسٹ مینڈل سے میری ملاقات ہوئی۔
ہر ہفتے پولیٹیکل بیورو کا اجلاس برسلز میں ہوتا تھا۔ میں نے نہ صرف ان کے تاریخی اور سیاسی علم اور کتاب ’مارکسسٹ اکنامک تھیوری‘ میں ان کی تھیوریٹکل کنٹری بیوشن کا تو معترف تھا ہی، میرے لئے یہ بھی اہم تھا کہ وہ کسی طرح تیزی سے ترقی کرتی ہوئی ایک تنظیم کے سرکردہ رکن کے طور پر دوسروں سے پیش آتے۔ تنظیم کو ایسے لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرنا تھا جو صنعتی محنت کش، پبلک سیکٹر اور نوجوا ن تھے اور ترقی پسند خیالات اپنا رہے تھے۔ ان کو ساتھ ملانے کے لئے ترقی پسند طریقہ کار والے اقدامات درکار تھے۔
مئی68کے بعد فورتھ انٹرنیشنل کی تنظیمیں جانتی تھیں کہ پولیس کے جبر کے خلاف کس طرح اپنا دفاع کرنا ہے اور وہ اس کیلئے تیاری کر سکتی تھیں۔ ہم نے اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مزید مضبوط کیا۔ ہم وقتاً فوقتاً سامراج کی نمایاں علامتوں کے خلاف سرگرمیوں میں حصہ لینے کیلئے بھی تیار تھے، مثال کے طور پر امریکہ کے ویتنام میں کردار کے خلاف سرگرمیوں کا انعقاد کرتے تھے۔1970میں ویتنام امریکی بموں کی زد میں تھا، نیپام بم کا بڑے پیمانے پر استعمال ہوا۔ ہم نے فرانکو کی آمریت، یونان میں فوجی آمریت کے خلاف بھی مظاہرے کئے۔
یہ 1970اور1971کی بات ہے، جب فرانکو کا سپین پوری آب و تاب سے موجود تھا اور بلجئیم میں ایک ہسپانوی کمیونٹی بھی موجود تھی، جن میں ریپبلکنز (سپین کو جمہوریہ بنانے کے حامی) یا ریپبلکنز کی اولادیں بڑی تعداد میں موجود تھیں، جنہوں نے 1936سے1939کے دوران فرانکو رجیم کے متاثرین کے طور پر سپین چھوڑ ا تھا۔ بلجئیم میں ایک یونانی برادری بھی تھی،یہ خاص طور پر کوئلے کی کانوں میں کنکن کے طور پر کام کرتے تھے۔یہ یونان میں فوجی آمریت کے مخالف تھے۔
1960کی دہائی کے آخر میں ارجنٹائن کی ایک بڑی گوریلا تنظیم رویولوشنری ورکرز پارٹی -پیپلز ریولوشنری آرمی (PRT-ERP) نے فورتھ انٹرنیشنل میں شمولیت اختیار کی، جسے ابتدائی طور پر ’فائٹنگ پی آر ٹی‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہ ایک بہت مضبوط تنظیم تھی، جس نے فورتھ انٹرنیشنل کا رکن ہونے اور چی گویرا اور فیدل کاسترو، ویتنامی انقلابیوں اور چینی انقلاب کی حمایت کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ PRT-ERPکے مرکزی رہنما ماریو رابرتو سانتوچو ] Mario Roberto Santucho[ (1936-1976) تھے۔ وہ مئی1968میں پیرس میں موجود تھے، جہاں وہ ریوولوشنری کمیونسٹ یوتھ(جے سی آر) سے منسلک ہو گئے، جو بعد میں کمیونسٹ لیگ بن گئی تھی۔ 1972کی آخری سہ ماہی میں ماریونے ارنسٹ مینڈل، دانیال بن سعید اور ہر برٹ کریوین کے ساتھ برسلز میں مینڈل کے گھر ایک طویل ملاقات کی۔ ماریوچار ماہ قبل پاتا گونیاکی راسن جیل سے فرار ہو گیا تھا اور مسلح جدوجہد کی کمان دوبارہ سنبھالنے کیلئے ارجنٹینا واپس جانے والا تھا۔ اس اجلاس کے دوران شرکاء نے نوٹ کیا کہ مسلح جدوجہد کے طریقہ کار پر بڑے اختلافات تھے اور اکتوبر1973میں PRT-ERPنے فورتھ انٹرنیشنل سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔
اپریل1970میں برسلز میں ویتنام کی جنگ، نیٹو اور ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ ہوا۔ مجھے یقین ہے کہ اس میں 6سے 7ہزار کے درمیان مظاہرین تھے اور ٹراٹسکی اسٹ یوتھ آرگنائزیشن جے جی ایس نے کچھ مظاہرین کو سرکاری راستے سے آگے بڑھ کر برسلز کے نارتھ ریلوے اسٹیشن پہنچنے اور نیٹو کی عمارت کے قر یب پہنچنے کیلئے قائل کرنے کا فیصلہ کیا۔ ریلوے اسٹیشن سے نیٹو کی عمارت تک پٹریوں سے گزر کر پہنچنا آسان تھا۔اس وقت میں ابھی 16سال کا بھی نہیں تھا، لیکن میں پہلے سے ہی جے جی ایس کی سرگرمیوں میں شامل تھا، خاص طور پر کان کنوں کی ہڑتال میں تنظیم کی شمولیت کے بعد میں سرگرمیوں میں شامل رہتا تھا۔ میں لیژکے علاقے میں کوئلے کی کان کنی کرنے والی کمیونٹی میں رہتا تھا۔ اس گروپ میں کئی سو لوگ شامل تھے، ممکنہ طو رپر 1000بھی ہو سکتے ہیں۔ ہم نیٹو کی عمارت تک نہیں پہنچے لیکن ہم قریب پہنچ گئے۔ جیسے ہی ہم ریل کی پٹریوں سے باہر نکلے تو ہم پر سیکیورٹی فورس نے سخت حملہ کیا۔ میں ایک زخمی نوجوان کی مدد کر رہا تھا، اس دوران مظاہرین کے ساتھ نبٹنے والی ملٹری فورس نے مجھے گھیرے میں لے لیا، مجھے حراست میں لے کر پولیس اسٹیشن لے جایا گیا۔
آخر کار ایک غیرقانونی مظاہرے میں حصہ لینے کیلئے گرفتار کئے جانے اور گھنٹوں پوچھ گچھ کے بعد مجھ پر کوئی الزام نہیں لگایا گیا، کیونکہ اس وقت میری عمر16سال سے کم تھی۔ اس وقت اس قسم کے جرم کیلئے16سال سے کم عمر کے نوجوان پر مقدمہ چلانا ممکن نہیں تھا۔ میں اس حقیقت کے باوجود سزا سے بچ گیا کہ فورسز نے مجھ پر اپنے ایک ساتھی کو مارنے اور زخمی کرنے کا جھوٹا الزام بھی لگایا تھا۔ اس عمل نے مجھے سکھایا کہ جب پوچھ گچھ کی جائے تو پولیس سے کیسے نمٹا جانا چاہیے، یہ بھی سیکھنے کو ملا کہ سیدھا سادا طریقہ اختیار کرنا چاہیے، صرف ایک بیان پر دستخط کریں، جس سے یہ ظاہر ہو کہ میرے پاس بتانے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے۔ مقدمے سے بچنے کی کوشش کرتے وقت یہ اہم ہے۔ میں نے اس تجربہ کا تذکرہ اس لئے کیا کیونکہ ارنسٹ مینڈل کی سوانح عمری پڑھتے ہوئے مجھے پتہ چلا کہ ان کی اہلیہ گزیلا اس احتجاج کے منتظمین میں سے ایک تھیں۔ وہ اتنی مشکل کارروائی کو منظم کرنے کی ہماری صلاحیت سے بہت خوش تھیں، حالانکہ ہم اس مظاہرے کو نیٹو کے دفتر تک نہیں پہنچا سکے تھے۔
برسلز میں ایک سال پہلے ایسی ہی ایک کاروائی ہوئی تھی جس کے بارے میں گزیلا،جن کی عمر اس وقت 35 سال تھی، اپنے ایک ساتھی کو لکھا:
”گھوڑے، ٹینک وغیرہ سب کچھ اس وقت حرکت میں آگیا۔ ہم جتنی سختی سے لڑ سکتے تھے، ہم نے مقابلہ کیا اور ہمیں فخر ہے کہ ہم میں سے صرف چند ہی لوگ زخمی ہوئے۔ زیادہ سے زیادہ 40لوگوں کو معمولی زخم آئے۔صرف ایک بری طرح سے زخمی ہوا۔ دو اہلکاران نے مجھے ایک کار پر اوندھے منہ دھکیل دیا لیکن میں منہ کے بل نہیں گری اور خود کو سنبھال لیا۔“
یہ ارنسٹ مینڈل کے ساتھ میری دوستی اور جبر و سکیورٹی کے مسائل سے متعلق ایک اہم داستان ہے۔ ستمبر یا اکتوبر1973میں بلجیم کے سیکشن کی سکیورٹی کے بارے میں خدشات دور کرنے کیلئے مجھے برسلز میں ایک پرانے فورتھ انٹرنیشنل کے کارکن کے گھر بلایا گیا۔ اجلاس میں ارنسٹ مینڈل اور ہوبرٹ کریوین نے شرکت کی۔ مینڈل اور کریوائن نے استفسار کیا کہ کیا میں منشیات کے استعمال اور فروخت سے تنظیم کو خطرے میں ڈال رہا ہوں۔ جب میں نے انہیں بتایا کہ میں منشیات فروشی میں ملوث نہیں تو معاملہ بغیر کسی جھنجھلاہٹ یا تناؤ کے ختم ہو گیا۔
اس ملاقات کے لئے مینڈل اور کریوین نے مجھے ایک خفیہ مقام پر ملاقات کیلئے بلایااس وقت وہ ارجنٹینا میں PRT-ERPکی قیادت سے بات چیت کر رہے تھے۔ ادہر،جون1973میں فرانس میں کمیونسٹ لیگ پر پابندی لگ گئی تھی۔اس کے علاوہ وہ فورتھ انٹرنیشنل کی بڑھوتری اور دیگر اہم مسائل میں الجھے ہوئے تھے۔ ایسے میں وہ وقت نکال کر مجھ سے پوچھ گچھ کے لئے کیسے پہنچے؟
میں اس کی وضاحت یوں کروں گا کہ میں 1972سے بلجیم حکام کے ریڈار پر تھا۔ اس کا براہ راست تعلق ’ایل آر ٹی‘کی قیادت میں میرے کردارسے تھا۔فروری1972میں یونیورسٹی آف لیژکے اکیڈمک ہال میں منعقدہ ایک ایل آر ٹی کانفرنس کی میں نے صدارت کی، جس میں ہم نے آئرش ریپبلکن آرمی(آئی آر اے) کے نمائندے کو بھی بولنے کا موقع دیا، حالانکہ سوشلسٹ وزیر انصاف اور الفافونس فرانک نے ہمیں ایسا کرنے سے منع کیا تھا۔ ایل آر ٹی نے پانچ بڑے یونیورسٹی ٹاونز میں پا نچ اجلاس منعقد کئے اور ہر بار پولیس آئرش کامریڈ کو پکڑنے میں ناکام رہی، وہ اگلے دن دوسرے قصبے میں چلا جاتا۔ لیژمیں 500سے زیادہ افراد جلسے میں شامل تھے۔ پولیس نوجوانوں کے ہمارے گروپ سے خاص طور پر ناراض تھی، پولیس کی زبردست کوشش کے باوجود ہم نے آئرش کامریڈ کو گرفتار ہونے سے بچا لیا۔
مجھے ستمبر1972میں لیژمیں جوڈیشل پولیس میں طلب کیا گیا،اس وقت چند ہفتے قبل ہی میں 18سال کا ہوا تھا۔ مجھ سے ملاقات کرنے والے پراسیکیوٹر نے مجھے ایک نابالغ کے ساتھ زیادتی کا الزام لگانے کی دھمکی دی۔ یہ ایک آسان دعویٰ تھاکیونکہ میں اپنی عمر سے چند ماہ چھوٹی لڑکی سے ڈیٹنگ کر رہا تھا اور ہمارے جنسی تعلقات بھی تھے۔ جیسے ہی میں 18سال کا ہوا تھا۔ اٹھارہ سال کا ہوتے ہی مجھے ’آٹو میٹک انداز میں‘ ایک نابالغ کے ساتھ زیادتی کا مجرم سمجھا جا سکتا تھا، کیونکہ ایک نابالغ رضامندی نہیں دے سکتا۔
جب میں نے استفسار کیا تو افسر نے مجھے بتایا کہ پبلک پراسیکیوٹر کے دفتر نے مجھے طلب کرنے اور میرے خلاف عصمت دری کا مقدمہ قائم کرنے کو کہا تھا، کیونکہ میں ایل آر ٹی کے پولیٹیکل بیورو اور بلجیم میں ’انٹرنیشنل ریڈ ایڈ‘ مینجمنٹ کا ممبر تھا،یہ دونوں تنظیمیں ریاست کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے والی تنظیمیں قرار دی جا رہی تھی۔ افسر نے کہا کہ اگر میں ان دونوں تنظیموں کے بارے میں خفیہ معلومات فراہم کرنے میں تعاون کرتا ہوں تو ریپ الزام واپس لے لیا جائے گا۔ جب میں نے مخبر بننے سے انکار کیا تو وہ مشتعل ہو گیا، اس نے مجھے دھمکیاں دیں اور اگلے دن پولیس ہمارے بھائی کے گھر، پھر والدین کے گھر اور آخر میں ایک صحافی دوست کے گھر ہمیں ڈرانے کیلئے آئی۔ میں نے اس بارے میں 22ستمبر 1972کو اخبار ’لے گوش‘میں لکھا۔ میرا مضمون صفحہ تین پرشائع ہوا۔ میں نے اپنی پرائیویسی کی خلاف ورزی کی شکایت درج کروائی اور جوڈیشل پولیس نے دوبارہ کبھی طلب نہیں کیا۔ میرے وکلاء نے غلطی کی کہ مالی ہرجانے کا دعویٰ نہیں کیا۔ اس طرح سرکاری وکیل کے دفتر کو میری شکایت کو نظر انداز کرنے کی گنجائش مل گئی۔ میں 1972کے آخر سے1973کے آغاز میں، ایک بہت ہی طاقتور،ہائی سکول کے طلبہ کی، تحریک کا رہنما اور نمائندہ بن گیا تھا۔ پولیس کے مطابق1لاکھ60ہزار سیکنڈری سکول کے طلبہ نے ہڑتال کی اور ملک بھر میں مظاہرے کئے۔ یہ مظاہرے حکومت کی جانب سے 18سال کی عمر سے لازمی فوجی بھرتی کے خلاف تھے۔ بلجیم کے مظاہروں کے چند ماہ بعد اسی قسم کی کارروائی نے فرانس میں بھی ایک زبردست احتجاجی تحریک کو جنم دیا(جسے Anti-Debre Lawکی تحریک کہا جاتا ہے)۔
حکومت اور اس کے قومی دفاع کے وزیرنے ایل آر ٹی پر ہائی سکول کے طلبہ کو خراب کرنے کا الزام لگایا۔ ایل آر ٹی کے دیگر اراکین کے ساتھ تحریک میں میری شمولیت کے پیش نظر پولیس کی جانب سے مجھے تنگ کرنے کا سلسلہ مزید بڑھ گیا۔ 1973کے موسم بہار میں مجھے ایک دوست نے اطلاع دی کہ حکام مجھے منشیات فروخت کرنے پر گرفتار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس دوست نے مجھے بتایا کہ وہ پولیس کے مخبر کے طور پر کام کرتا ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ پولیس اسے میرے خلاف گواہی دینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس نے مزید کہا کہ گرفتاریوں کے دوران پولیس نے منشیات کا استعمال کرتے ہوئے پکڑے گئے نوجوانوں کو میری تصویر پیش کی اور انہیں عارضی طور پر حراست میں لیا تاکہ وہ مجھ پر منشیات فروش ہونے کا الزام لگا سکیں۔ ایل آر ٹی کا ایک رکن ایک سماجی کارکن بھی تھا، جس نے جیل میں پوچھ گچھ کے عمل میں حصہ لیا۔ جب اس نے منشیات فروشوں کے درمیان میری تصویر دیکھی تو اسے یقین ہو گیا کہ میں تنظیم کو نقصان پہنچا رہا ہوں اور ممکنہ طور پر میں خود ایک ڈیلر ہوں۔ اس نے مجھے بتائے بغیر تنظیم کو معلومات بھیج دیں۔
یہی وجہ تھی کہ مجھے ارنسٹ مینڈل اور ہیوبرٹ کریوین کو رپورٹ کرنا پڑی۔ یہ اہم ہے کہ ارنسٹ اور ہیوبرٹ نے مجھ پر لگائے گئے بے بنیاد الزامات کو دیکھتے ہوئے میرے ساتھ بہت ہی مہذب سلوک کیا۔ بعد میں، پولیس، خاص طور پر سیکیورٹی اینڈ ریسرچ بریگیڈ نے مجھے ایک مخبر بنانے کی ایک اور کوشش کی، جس میں مجھے ایل آر ٹی اور فورتھ انٹرنیشنل کی معلومات کے بدلے میں اپنے علاقے میں نیو نازی گروپوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کی آفر کی گئی۔آخرکار انہوں نے ہار مان لی، لیکن میں ان کی نظروں میں رہا۔ اس کے بعد کے واقعات کا خلاصہ کرنے میں کافی وقت لگے گا۔
یاد رہے کہ سوشلسٹ وزیر انصاف الفانس کو ان ٹراٹسکیوں سے نفرت تھی، جنہیں 1965میں بلجیم کی سوشلسٹ پارٹی سے نکال دیا گیا تھا۔ وہ سکیورٹی تعاون کو مضبوط بنانے کیلئے امریکہ کے دورے پر گئے تو نکسن انتظامیہ نے انہیں قائل کیا کہ فار لیفٹ کی تنظیمیں منشیات کی سمگلنگ میں ملوث ہیں۔
(جاری ہے)