خبریں/تبصرے

فراموش سیلاب متاثرین کی بحالی کا وعدہ پورا کیا جائے: پاکستان کسان رابطہ کمیٹی

لاہور(جدوجہد رپورٹ) پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری فاروق طارق نے صائمہ ضیاء، حسنین جمیل آفریدی اور قمر عباس کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ میں گزشتہ سال شدید بارشوں اورتباہ کن سیلاب نے جو تباہی پھیلائی تھی،اس سے 21لاکھ افراد متاثر ہوئے۔ گھر تباہ ہوگئے، فصلیں اجڑ گئیں اور کئی ماہ تک پانی گلیوں بازاروں اور کھیتوں میں کھڑا رہا۔ ایک سال گزرنے کے باوجود 21لاکھ میں سے صرف پانچ فیصد کو تھوڑی بہت سرکاری امداد ملی۔ ایک کمرے کا گھر بنانے کے لیے 3لاکھ کا وعدہ تھا،لیکن 21لاکھ میں سے صرف 1لاکھ کو 75ہزار کی پہلی قسط ملی۔ صرف ضلع شکار پور کی مثال لے لیں، جہاں 90ہزار بے گھر افراد میں سے صرف 5ہزار کو گھروں کی تعمیر کے لیے 75 ہزار روپے ملے۔ وہ بھی تقریباً ایک سال کے وقفے کے بعد۔ برسات سے تباہ ہونے والے ہسپتالوں، پلوں، سکولوں اورسڑکوں کی مرمت نہیں کرائی گئی ہے۔ متاثرین بھوک اور افلاس کی زندگی گذارنے پرمجبور ہیں۔

انکا کہنا تھا کہ لاڑکانہ،جو بلاول بھٹو کا اپنا ضلع ہے، وہاں 80ہزار خاندان بے گھر ہوئے تھے۔ ان میں سے صرف 6ہزار کو گھروں کی تعمیر کے لیے پہلی قسط ملی ہے۔ورلڈ بینک نے 20دسمبر2022ء کو سندھ صوبہ کے لیے 1.69 ارب ڈالر کی امداد منظور کی تھی۔ یہ امداد گھروں کی تعمیر اور فصلوں کے نقصانات پورا کرنے کے لیے دی گئی،جبکہ سندھ فلڈایمرجنسی ری ہیبلیٹیشن پراجیکٹ نے بھی 500ملین ڈالر کی امداد منظور کی۔

اس کے علاوہ ہماری کوششوں سے کوپ 27 مصر میں Loss and damageکا معاہدہ منظور ہوا،جس کے بعد جنیوا میں ہونے والے اجلاس میں امیر ممالک نے 10ارب ڈالر کی امدا د کا وعدہ کیا۔ 9جنوری 2023ء کے اس اجلاس میں پاکستان نے 8ارب ڈالر کی اپیل کی تھی مگر وعدے 10ارب ڈالر کے ہوئے۔ یہ رقم دینے کاطریقہ کار آج تک طے نہیں ہوا ہے۔ ہم آج یہ مطالبہ کرنے آئے ہیں کہ امیر ممالک پاکستان کو فوری طورپر دس ارب ڈالر دینے کا وعدہ پورا کریں اور پاکستانی حکومت کو کہتے ہیں کہ وہ اس رقم کو قرضوں کی ادائیگی کرنے کی بجائے سندھ اور بلوچستان کے بے گھر افراد کی فوری مدد کے لیے استعمال کرے یہ امداد 5لاکھ فی گھر سے بڑھا کر 20لاکھ روپے فی گھر کی جائے۔

صورتحال یہ ہے کہ سندھ کے متاثرہ اضلاع میں ہسپتالوں اورصحت کی سہولیات کی عدم موجودگی اور لوگوں کے سڑکوں پر ٹینٹ لگا کر رہنے کی وجہ سے صحت کی صورتحال بہت خراب ہوچکی ہے۔ ملیریا اورجلد کی بیماریوں نے وبائی صورتحال اختیار کرلی ہے۔ زمین کے نیچے پانی خراب ہونے سے گردوں کی بیماریاں عام ہوگئی ہیں۔ گڑھی یاسین کونسل ضلع شکارپور کے ایک گاؤں میں 6لوگ گردوں کی بیماری سے فوت ہوگئے ہیں اور اکثر افراد ڈائلسز پر چل رہے ہیں۔

حکومت کا بنیادی فرض ہے کہ سیلاب متاثرین کی فوری امداد کر ے مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ لگتا ہے سیلاب متاثرین فراموش کردیئے گئے ہیں لیکن ہم ایسا ہونے نہیں دیں گے۔ ستمبر میں ہزاروں ہاریوں نے پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے پلیٹ فارم سے شکار پور میں کلائمیٹ جسٹس مارچ میں حصہ لیا تھا اور ہاریوں کو سیلاب متاثرین کی لسٹ میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ سندھ اور بلوچستان کے تمام متاثرہ کسانوں کو ان کی فصلوں کے نقصانات فوری پورے کئے جائیں۔

پاکستان کی حکومت اورامیر ممالک دونوں سیلاب متاثرین کی بحالی کو فراموش کرچکے ہیں۔ دبئی میں اس ماہ کے آخر میں جو کوپ28 منعقد ہو رہا ہے۔ اس میں ہم کھل کر امیرممالک کے اجلاسوں کا گھیراؤ کریں گے اور مطالبہ کریں گے کہ وعدے پورا کرو۔ پاکستان کا نقصان پورا کرو۔

Roznama Jeddojehad
+ posts