حارث قدیر
امت مسلمہ کے اتحاد اور فتح کی جستجو میں افغانستان سے عرب، ترکی اور یورپ تک کا سفر کرنے والے مسلم علماء اور نوجوان بالشویک انقلاب سے متاثر ہو کر برصغیر کے پہلے مسلم سوشلسٹ بن کر لوٹے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی بنیاد رکھنے سمیت ابتدائی سرگرمیوں میں ان مسلم نوجوانوں کا اہم کردار رہا ہے۔
سنٹرل ایشیا اور انڈونیشیا کے برعکس برصغیر کے پہلے مسلمان سوشلسٹوں کا تعلق دیوبند مکتبہ فکر سے تھا۔ یہ ایسے لوگ سمجھے جاتے تھے جو ہمیشہ اسلام کا ممکنہ خطرات سے دفاع کرنے اور خلافت کے قیام کی جدوجہد میں مصروف رہے۔ یہ برصغیر پر برطانوی قبضے کے خلاف جدوجہد کیلئے بھی خلافت عثمانیہ، افغانستان سمیت دیگر مسلم علاقوں کی جانب سے مدد کے متلاشی بھی رہے۔ سنٹرل ایشیا میں البتہ صوفی نقشبندی سلسلوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان اور انڈونیشیا میں صوفی شیخ سلسلے سے تعلق رکھنے والے مسلمان سوشلزم کیلئے جدوجہد کا زیادہ حصہ بنے۔
ڈاکٹر خضر ہمایوں انصاری نے اپنی تصنیف’Pan-Islam and the Making of the Early Indian Muslim Socialists‘ میں برصغیر میں مسلم سوشلسٹوں کی تشکیل سے متعلق تحقیقی کام شائع کیا ہے۔ انہوں نے برصغیر کے مسلم علماء اور پڑھے لکھے نوجوانوں کی جانب سے برطانیہ کے نوآبادیاتی قبضے کے خلاف جدوجہد، امت کے اتحاداور خلافت عثمانیہ کے دفاع کیلئے کی جانے والی کوششوں کا تفصیل سے احاطہ کیا ہے۔ یہ واضح کرنے کی کوشش بھی کی ہے کہ کس طرح امت کے اتحاد کی یہ خواہشات افغانستان سے ترکی، عرب اور یورپ کے سفر کے دوران ماند پڑتی گئیں اور خلافت کیلئے ہجرت کرنے والوں میں سے کچھ سوشلزم کا پرچم تھامے واپس برصغیرلوٹے۔
وہ لکھتے ہیں کہ انیسویں صدی کے آخر میں ہندوستانی مسلمانوں کو یہ اندازہ ہونا شروع ہو گیا کہ اسلام بطور عالمی طاقت زوال کا شکار ہو رہا ہے۔ انیسویں صدی کے وسط میں مشرق وسطیٰ میں سفراور مقامی چھاپہ خانوں کے قیام کی وجہ سے معلومات تک رسائی ہوئی۔ یہ معلوم ہونا شروع ہوا کہ یورپ تیزی سے اپنی طاقت کو وسعت دے رہا ہے اور مسلمانوں کی طاقت کم ہو رہی ہے۔ 1877-78کی جنگ کے دوران ہندوستانی مسلمانوں نے سلطنت عثمانیہ کے حق میں جلسے اور جلوس منعقد کرنا شروع کئے اور بڑے پیمانے پر چندہ بھی جمع کیا گیا۔ یہی وہ وقت تھا جب ہندوستانی مسلمانوں نے برطانوی حکمرانوں کو اسلام کا سب سے بڑا دشمن سمجھنا شروع کیا۔ تاہم سارے مسلمان برطانوی حکمرانوں کے خلاف نہیں تھے۔ سید احمد خان اور علی گڑھ سکول کے دیگر اراکین نے برطانوی حکومت کی ہر قیمت پر حمایت جاری رکھی۔
تاہم ایک امت کا تصور پہلی عالمی جنگ کے دوران ہندوستان میں پہلی بار بڑے پیمانے پر سامنے آیا جب یورپی طاقتوں نے سلطنت عثمانیہ کے علاقوں کو اپنے قبضے میں لینا شروع کیا، تو برطانیہ کی یورپی طاقتوں کیلئے خاموش حمایت سمیت ہندوستان کے اندر چند ایسے واقعات تھے، جنہوں نے اس تصور کو مزید مہمیز دی۔
بالآخر 1914میں ترکی نے برطانیہ کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ ہندوستانی مسلمان اس معاملے پر بھی تقسیم تھے۔ کچھ برطانیہ کی حمایت میں تھے اور یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ تنازعہ مذہبی نہیں بلکہ سیاسی ہے۔ تاہم بڑی تعداد خلافت کی حمایت کر رہی تھی۔
مسلم اتحاد اور امت کے تصور پر قائم ہندوستانی مسلمانوں میں چار پرتوں کی نمائندگی تھی۔ ایک حصہ وہ تھا جو مغربی تعلیم سے لیس نوجوانوں پر مشتمل تھا، جن میں محمد علی، شوکت علی، مولانا حسرت موہانی اور ظفر علی خان وغیرہ شامل تھے۔دوسرے گروپ کی قیادت ابولکلام آزاد کر رہے تھے، جو جمال الدین افغانی کے ریڈیکل خیالات کے حامی تھے۔تیسرا گروپ علماء دیوبند پر مشتمل تھا۔مولانا محمود الحسن نے برطانیہ کے خلاف ہندوستانی مسلمانوں کی مزاحمت کیلئے حکمت عملی ترتیب دی۔ جمال الدین افغانی کی طرح علماء دیوبند نے بھی ’جہاد‘ کا اصول اپنایا اور یہ قرار دیا کہ برطانوی ہند دارالحرب ہے، اس لئے جہاد ناگزیر اور جائز ہے۔ ان میں سے کچھ علماء نے ہندوستان چھوڑنے اور بیرون ملک سے جہاد منظم کرنے کا فیصلہ کیا۔بیرون ملک سے جہاد منظم کرنے کیلئے جانے والے دیوبندی وہ چوتھا گروپ تھے، جنہوں نے یورپ، مشرق وسطیٰ اور افغانستان سے کام شروع کیا اور مہاجرین کہلائے۔
بیرون ملک سے کام کرنے والوں میں سے ایک گروپ ایسے ہندوستانی مسلمانوں پر بھی مشتمل تھا، جو برطانیہ کی جامعات میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے گیا اور وہاں کے تجربات نے انہیں برطانوی اقتدار کے خلاف مزاحمت پر مجبور کیا۔ ان کے ہمراہ ہر دیال اور کرشنا ورما جیسے انقلابی بھی موجود تھے، جو ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کیلئے انقلابی سوشلزم کی اہمیت کو سمجھتے تھے۔ دوسرا گروپ قسطنطنیہ میں موجود تھا۔ عبدالجبار خیری اور ان کے بھائی عبدالستار خیری نے جرمنی اور ترکی کی حمایت سے ’انڈین مسلم کمیٹی‘ قائم کی اور اخوت کے نام سے انگریزی اور اردو زبان میں اخبار کی اشاعت شروع کی۔ تیسرا گروپ کابل میں موجود تھا، جو لاہور کے مختلف کالجز کے 15طالبعلموں پر مشتمل تھا۔ اس گروپ کے علماء دیوبند کے ساتھ رابطے تھے۔ مولانا عبید اللہ سندھی اور ان کے ساتھی بھی اسی عرصہ میں کابل پہنچے۔ مولانا عبید اللہ سندھی بھی مسلم اتحاد کی بنیاد پر برطانیہ کے خلاف جہاد کے قائل تھے۔ دیوبند کے پرنسپل محمود الحسن نے انہیں تجویز دی کہ اس مقصد کیلئے بیرون ملک سے موثر جدوجہد منظم کی جا سکتی ہے۔ عبید اللہ سندھی نے مہاجر طلبہ کو بھی ترکی میں جہاد کیلئے جانے سے روک کر ہندوستان میں برطانیہ کے خلاف لڑنے پر قائل کر لیا۔
اسی عرصہ میں جرمن اور ترکش گروپ کی طرف سے مولانا برکت اللہ اور مہندرا پرتاپ بھی کابل پہنچے، تاکہ ہندوستان میں برطانیہ کے خلاف جنگ چھیڑنے کیلئے راستے تلاش کئے جا سکیں۔ مولانا برکت اللہ بھی جمال الدین افغانی کے خیالات سے متاثر تھے۔ پہلی عالمی جنگ کے وقت انہوں نے جرمنی میں قائم ہونے والی انڈین نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ جرمنی برطانیہ کو کمزور کرنے کیلئے مولانا برکت اللہ اور ساتھیوں کی مدد کرنے کیلئے تیار تھا۔ تاہم عبید اللہ سندھی اور برکت اللہ کی افغان حکومت سے بات نہ بن سکی۔ افغان حکومت نے انہیں ہندوستان کی طرف جانے کیلئے راستہ فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔ افغان حکمران حبیب اللہ برطانیہ کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات قربان کرنے پر تیار نہ ہوئے، کیونکہ برطانیہ انہیں بھاری مالی امداد فراہم کر چکا تھا اور مزید امداد کا وعدہ بھی کر رکھا تھا۔
مولانا برکت اللہ اور راجہ مہندرا پرتاپ نے متبادل پلان آف ایکشن پر سوچنا شروع کیا۔ انہوں نے ہندوستان کی عبوری حکومت بنانے کا فیصلہ کیا۔1916میں عبوری حکومت قائم کی گئی۔ اس حکومت کے صدر راجہ مہندرا پرتاپ، وزیراعظم مولانا برکت اللہ اور وزیر برائے ہندوستان عبید اللہ سندھی مقرر ہوئے۔ اس حکومت کا مقصد برطانیہ کے خلاف دنیا کی مختلف حکومتوں کے ساتھ اتحاد قائم کرنا اور ان کی مدد سے ہندوستان کی آزادی کیلئے لڑنا تھا۔ اس حکومت نے ہندوستانی فوج میں بغاوت کی اپیل کی، زار روس سے اپیل کی کہ وہ برطانیہ کے ساتھ اتحاد کے خاتمے کا اعلان کریں اور ہندوستان سے برطانیہ اقتدار کے خاتمے کیلئے ان کی مدد کریں۔ ایک ’خدا کی فوج‘ بھی قائم کی گئی، جو جنگی اصولوں پر ایک اسلامی تنظیم تھی۔ اس تنظیم کا مقصد ہندوستان بھر میں جہاد کیلئے ریکروٹمنٹ کرنا اور اسلامی حکمرانوں کے مابین اتحاد قائم کرنے کی کوشش کرنا تھا۔
دریں اثناء مولانا محمود الحسن اور عبید اللہ سندھی نے حجاز کے گورنر غالب پاشا کو قائل کیا کہ وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو اسلام کیلئے جہاد کرنے کیلئے خطوط لکھیں۔ مہاجر طلبہ نے دوست ملکوں میں سفیروں کا کردار ادا کیا اور جگہ جگہ یہ خفیہ پیغامات اور پروپیگنڈہ مواد پہنچایا۔
1916کے وسط میں جب عربوں نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کی، اس وقت مولانا محمود الحسن کو عرب میں گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی ان کا مسلم امہ کے اتحاد کا خواب بھی ٹوٹنا شروع ہو گیا۔ جلد ہی عبید اللہ سندھی کو بھی یہ معلوم ہو گیا کہ مسلم ملکوں کی اپنی مخصوص ضروریات ہیں۔ کابل میں بھی انہیں سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں اس بات کا اندازہ ہوا کہ ہندوستانی اور افغان مسلم تو تھے لیکن ان کی شناخت الگ تھی۔ صرف مسلم اتحاد کی بنیاد پر ان ثقافتی، لسانی اور نفسیاتی تفرقات کو ختم نہیں کیا جا سکتا، جو صدیوں سے ارتقاء پذیر ہوئے ہیں۔ عبوری حکومت کی سرگرمیوں کی وجہ سے بالآخر 1917میں افغان حکومت نے مہاجرین طلبہ کو گرفتار کرنا شروع کر دیا۔
1919میں امان اللہ خان کی حکومت آنے کے بعد عبوری حکومت کو کچھ کامیابیاں ملنا شروع ہوئیں۔ مارچ1919میں امان اللہ نے برطانیہ کے خلاف مدد مانگنے کیلئے برکت اللہ کو ماسکو بھیجا۔ ان کے ہمراہ عبدالرب پشاوری بھی ماسکو گئے۔ وہ ایک برطانوی سفارتکار تھے اور پہلی عالمی جنگ کے وقت بغداد میں اپنی جائے تعیناتی سے نوکری چھوڑ کر ہندوستان کی عبوری حکومت میں شامل ہونے کابل پہنچے تھے۔
انقلاب روس نے ہندوستانی مہاجرین کو ایک نئی امید دلائی۔ ان کا خیال تھا کہ سوویت حکومت ان کی مدد کرے گی۔ سوویت حکومت عالمی استعمار کے خلاف مشرق کی تمام اقوام کے اتحاد کی بات کر رہی تھی۔ پڑوسی مسلم ریاستوں سے دوستانہ تعلقات استوار کئے گئے اورفارس(ایران) کے مقبوضہ علاقے واپس کئے گئے۔ آزادی کیلئے لڑنے والے مسلم افراد کو مدد فراہم کی گئی۔ اس نئی صورتحال میں ہندوستانی مہاجرین تیزی سے بالشویکوں کی طرف مدد کیلئے راغب ہوئے اور کچھ نے نظریاتی طور پرسوشلزم کو بھی اپنا لیا۔
خیری برادران قسطنطنیہ سے سوویت یونین روانہ ہوئے اور 25نومبر1918کو سوویت سنٹرل کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے۔ انہوں نے برطانوی سامراج کے ہندوستان میں مظالم کی تفصیلات بیان کیں اور آزادی کے حصول کیلئے مدد کی اپیل کی۔ سوویت یونین اور امان اللہ خان کے درمیان دوستانہ تعلقات استوار ہوتے ہی کابل میں موجود مہاجرین کو بھی فائدہ ہوا۔ سوویت حکومت افغانستان میں برطانوی اثرورسوخ کو کم کر کے اپنی جنوبی سرحدوں کو مضبوط کرنا چاہتی تھی۔ مئی1919میں امان اللہ خان نے سرحدی اضلاع پر حملہ کر کے برطانیہ کے خلاف جنگ چھیڑ دی، جو 1920کے موسم گرما میں ایک معاہدہ کے بعد اختتام پذیر ہوئی۔ اس ایک سال کے عرصہ میں کابل کے اندر مہاجرین کو نقل و حرکت کی کافی آزادی میسر آئی۔ وہ سوویت یونین سے پیسہ، ہتھیار اور پروپیگنڈہ کی سہولیات حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
دسمبر 1919میں مولانا برکت اللہ دوبارہ کابل آئے اور امان اللہ خان سے مظاہرین اور پروپیگنڈہ کا مواد ہندوستان سمگل کرنے میں معاونت کی درخواست کی۔ تاہم امان اللہ خان نے برطانوی حکومت کے ساتھ جاری مذاکرات کی وجہ سے معاونت پر رضامندی ظاہر نہیں کی۔ اس سب کے باوجود بڑی تعداد میں پروپیگنڈہ لٹریچر ہندوستان پہنچا دیا گیا۔
اسی اثناء میں عبدالرب پشاوری اور ان کے قریبی ساتھیوں نے مولانا برکت اللہ اور عبید اللہ سندھی سے فاصلے قائم کر لئے۔ عبدالرب پشاوری اور ان کے ساتھی ہر حال میں برطانیہ مخالف انقلابی سرگرمیاں جاری رکھنا چاہتے تھے، جبکہ مولانا برکت اللہ اور عبید اللہ سندھی افغان حکام کو ناراض کر کے کوئی سرگرمی نہیں کرنا چاہتے تھے۔
فروری1920میں وہ الگ ہو گئے اور سوشلزم کے حمایتی مہاجرین نے ’انڈین ریوولوشنری ایسوسی ایشن‘ قائم کر دی۔ تاہم افغانستان کے حالات کی سختیوں کو دیکھتے ہوئے انہوں نے جلد ہی تاشقند میں تنظیم تعمیر کرنے کا عمل شروع کر دیا۔ اس عمل میں بالشویکوں نے ان کی بھرپور مدد کی۔ ہندوستان میں رابطے قائم کرنے سمیت بخارا، سمرقند اور باکو میں تنظیمی برانچیں قائم کی۔ ہفت روزہ ’زمیندار‘کی اردو اور فارسی زبان میں اشاعت کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ باکو سے پندرہ روزہ ’آزاد ہندوستان اخبار‘ کا اجراء کیا گیا تاکہ روسی انقلاب اورجلاوطن انقلابیوں کی سرگرمیوں کو ہندوستان میں پھیلایا جا سکے۔
مسلم اتحاد اور امہ کے خواب کو دوسرا دھچکا اس وقت لگا جب اپریل1920میں ہزاروں کی تعداد میں ہندوستانی مسلمانوں نے کابل کی طرف ہجرت شروع کر دی۔ انہوں نے یہ ہجرت ہندوستانی مسلم قائدین کے کہنے پر شروع کی جو برطانیہ پر دباؤ ڈالنا چاہتے تھے اور خلافت کو بچانا چاہتے تھے۔ ابولکلام آزاد نے اس ہجرت سے متعلق فتویٰ جاری کیا تھا کہ جس سرزمین پر اسلامی قوانین کا نفاذ نہ ہو وہاں سے ہجرت کے علاوہ کوئی شرعی متبادل نہیں ہے۔ اس وقت امان اللہ خان بھی برطانیہ کیلئے مسائل پیدا کرنے کیلئے اس ہجرت کو ایک موقع کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ امان اللہ خان نے مہاجرین کو زرخیز زمینیں اور دیگر ضروریات پوری کرنے کا وعدہ بھی کیا۔
تقریباً30ہزار مسلمانوں نے افغانستان ہجرت کی۔ بہتر زندگی کی امید پر انہوں نے اپنی زمینیں اور قیمتی اشیاء فروخت کر کے اس سفر کا انتظام کیا تھا۔ اس کے علاوہ ہندوستان بھر سے مسلمانوں نے چندہ جمع کر کے بھی ان کی مدد کی تھی۔ لمبے سفر کے بعد وہ جب افغانستان پہنچے تو مقامی افغانوں ڈاکوؤں نے ان سے تمام مال متاع لوٹ لیا، کئی کو اغواء کیا، تشدد کا نشانہ بنایا اور خواتین کی عصمت دری کی گئی۔
امان اللہ خان پڑھے لکھے اور خوشحال مہاجرین کی آمد کی توقع کر رہے تھے، جب انہیں پتہ چلا کہ ہندوستانی مسلم معاشرے کے غریب ترین حصے ہجرت کر کے آرہے ہیں تو انہوں نے مزید مہاجرین کے داخلے پر پابندی عائد کر دی۔ جو پہنچ چکے تھے انہیں بھی واپس جانے پر مجبور کیا گیا۔ تین ماہ کے اندر اندر تقریباً سارے مہاجرین افغانستان چھوڑ چکے تھے۔ جو چند سو ہندوستانی مسلمان افغانستان میں رہنے کا انتظام کر پائے وہ پنجاب، سرحد، اترپردیش اور بھوپال کے نسبتاً متوسط گھرانوں سے آئے تھے۔
تاہم 1920کے خزاں تک ان تعلیم یافتہ مہاجرین کا امت مسلمہ کے اتحادکا خواب بھی کمزور ہو چکا تھا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ امان اللہ خان کا ان کی جانب غیر ہمدردانہ رویہ تھا۔برطانوی شرائط کی وجہ سے ان مہاجرین کو کابل اور جبل السراج تک محدود کر دیا گیا۔ 200کے قریب مہاجرین نے جبل السراج سے ترکمان حدود میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے۔ان میں سے زیادہ تر ترکی جانا چاہتے تھے۔ترکمانوں نے اس وقت بالشویک انقلاب کے خلاف بغاوت شروع کر رکھی تھی۔برطانیہ اس بغاوت میں ترکمانوں کو مدد فراہم کر رہا تھا۔ سوویت کنٹرولڈ سرحدی علاقے ترمز سے قرقی جاتے ہوئے ہندوستانی مسلم مہاجرین کو ترکمان ردِ انقلابیوں نے گرفتار کر لیا۔ مہاجرین نے ترکمانوں کو بتایا کہ وہ ہندوستانی مسلمان ہیں اور وہ برطانوی راج کے خلاف لڑنے کیلئے گھروں سے نکلے ہیں۔
مظفر احمد لکھتے ہیں کہ ترکمانوں نے مہاجرین کو کافر قرار دیا اور ان پر الزام عائد کیا کہ وہ نماز بھی غلط پڑھتے ہیں اور قرآن کی تلاوت بھی غلط کرتے ہیں۔ بعد ازاں مہاجرین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیااور جانوروں کی طرح لوہے کی زنجیروں سے باندھ کر گھسیٹا گیا۔
شوکت عثمانی بعد ازاں اپنے تلخ تجربات کو یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’ہمیں غلاموں کی طرح گرفتار کرنے والوں کے گھوڑوں کے ساتھ بھاگنا تھا۔ ہم اتنی تیز بھاگ نہ پاتے تو ہم پر چمڑے کے کوڑے برسائے جاتے۔ ہمارے 4ساتھی بے ہوش ہو ئے لیکن کوئی رحم نہیں کیا گیا۔ ہم پیاسے تھے، لیکن رک کر کسی ندی سے پانی پینے کی اجازت نہیں تھی۔ گھوڑوں کے گوبر میں بھوکے پیاسے کئی روز تک قید رکھا گیا۔‘
مہاجرین کو موت کے منہ سے ریڈ آرمی نے بچایا اور قرقی پہنچایا۔ بعد ازاں جب ترکمانوں نے قرقی پر پر حملے کیا تو کچھ مہاجرین نے رضاکارانہ طور پر ریڈ آرمی کے ساتھ ملکر قصبے کا دفاع کیا۔ کچھ وقت بعد مہاجرین تاشقند پہنچ گئے تھے۔ تاہم مسلمان بھائیوں کی یکجہتی اور نیک نیتی کا خمار اب ان کے ذہنوں سے مکمل طور پر اتر چکا تھا۔ وہ اب ایم این رائے اور عبدالرب پشاوری کے انقلابی خیالات کی جانب راغب ہو چکے تھے۔
ابتدا میں 8ماہ تک تاشقند میں قائم انڈین ملٹری سکول میں تربیت حاصل کی۔ مئی1921میں سکول کی بندش تک 100سے زائد مہاجرین تاشقند میں موجود تھے۔ ان میں سے کچھ ابھی بھی نظریاتی تربیت سے مطمئن نہیں تھے اور مزید تربیت کیلئے ماسکو چلے گئے۔ زیادہ تر نے بنیادی سیاسی تربیت اور انقلاب کے کچھ خیالات سیکھنے کے بعد ہندوستان واپس جانا شروع کر دیا۔ ان مہاجرین کی وجہ سے بڑی تعداد میں ہندوستانی مسلمانوں نے کمیونزم کے نظریات سے وابستگی اختیار کرنا شروع کر دی۔
یہ منصوبہ مکمل طور پر کامیاب نہیں رہا۔ ایک بڑی اکثریت سوویت یونین سے متاثر تو ضرور ہوئی لیکن سوشلسٹ نظریات کو سیکھنے اور سمجھنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ جو مکمل تربیت یافتہ سوشلسٹوں کے طور پر ماسکو سے واپس آئے تو انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ کچھ نے برٹش حکام کو یہ باور کروایا کہ سوشلزم کی طرف انکا جھکاؤ دباؤ کی وجہ سے ہوا تھااور کچھ نے برطانوی حکام سے رہائی پانے کیلئے یہ موقف ایک بہانے کے طور پر استعمال کیا۔
کچھ جو واقعی سوشلزم کے ساتھ مخلص تھے وہ رہائی کے بعد سیاسی کام میں سرگرم ہو گئے۔تاہم ایم این رائے کے سب سے پسندیدہ ساتھی اور تاشقند میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے بانی رکن عبدالقادر خان گرفتاری کے بعد مخبر بن گئے اور اس کے بعد انہوں نے کمیونزم کو ظالمانہ اور اسلام مخالف نظام قراردینے میں اپنا وقت صرف کیا۔
جن لوگوں نے ہندوستان میں اشتراکی نظریات کی بناید رکھی،انہیں البتہٰ آج تک عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔