تاریخ

برکت اللہ: لینن سے متاثر مولانا جو عمر بھر انگریز سامراج سے لڑتے رہے

حارث قدیر

برصغیر پر برطانوی راج کے خلاف آزادی کی جدوجہد میں برسرپیکار انقلابیوں میں ترقی پسندمسلم علماء کا اہم کردار رہا ہے۔ انہی کرداروں میں سے ایک مولانا برکت اللہ بھی تھے۔ بھوپال میں 1858یا59میں پیدا ہونے والے مولانا برکت اللہ نے ابتدائی تعلیم گھرمیں ہی حاصل کی اور پھر مدرسہ سلیمانیہ سے عربی، فارسی اور دیگر مذہبی علوم کی تعلیم حاصل کی۔

ابتدا میں،مسلم امہ کے اتحاد کے داعی سید جلال الدین افغانی سے متاثر ہوئے۔بعد ازاں بالشویک انقلاب سے متاثر ہوئے۔ساری زندگی سامراجی نظام کے خلاف جدوجہد کرتے رہے۔ 19ویں صدی کے اواخر میں ہندوستان بھرمیں برطانیہ سے آزادی کیلئے آوازیں اٹھ رہی تھیں۔ مسلم علماء بھی مسلم امہ کے اتحاد اور ہندوستانی قوم پرستی میں بٹے ہوئے تھے۔

برکت اللہ نے جبل پور کرسچن مشنری سکول سے ہائی سکول سرٹیفکیٹ حاصل کیا اور بمبئی میں انگریزی زبان کومزیدبہتر کرنے کے بعد وہ برطانیہ چلے گئے۔

اس وقت لندن ہندوستانی قوم پرستوں اور ترقی پسندوں کا مرکز تھا۔ انقلابی رہنما شیام کرشن ورما، گوپال کرشنا گوکھلے اور دیگر لوگوں کے ساتھ ملاقاتوں کے علاوہ ہندوستانی انقلابیوں کے اجلاسوں میں برکت اللہ کی شرکت معمول بن چکی تھی۔

وہ 8سال تک لندن میں ہی رہے اور جلد ہی وہ ایک سکالر اور سیاسی کارکن کے طورپر مشہور ہو گئے۔ انہیں یہ شہرت زیادہ تر برطانیہ کی ترکی کے حوالے سے پالیسیوں پر تنقید کی وجہ سے حاصل ہوئی تھی۔ وہ اورئینٹل یونیورسٹی آف لیورپول میں عربی کے پروفیسر کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے۔ اس کے بعد امریکہ منتقل ہو گئے اور 6سال تک بطور استاد وہاں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ امریکہ میں بھی انہوں نے ہندوستانی کمیونٹیزاور امریکی عوام سے رابطے جاری رکھے اور برطانوی پالیسیوں کے حوالے سے اپنا موقف دیتے رہے۔

’پروسیڈنگز آف انڈین ہسٹری کانگریس‘ میں شامل ایک تحقیقی مضمون ’برکت اللہ: اے ہاف فارگاٹن ریولوشنری‘میں اقبال حسین نے مولانا برکت اللہ کی جدوجہد پر روشنی ڈالی ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ہندوستان کے مسلم دانشوروں بالخصوص علماء میں برطانیہ کے خلاف ایک رد عمل موجود تھا۔ اس کی ایک بڑی وجہ عرب قوم پرستوں اورمسلم امہ کے اتحاد کیلئے کام کرنے والوں کے پروپیگنڈہ کا اثر تھا۔ اس مہم کی قیادت حسن عبدالرفیق کر رہے تھے اور بعد ازاں جمال الدین افغانی اور محمد عبدوہ نے اس کی ترویج کی۔ مسلم علماء کی بڑی تعداد اور علی گڑھ کالج کے طلبہ مسلم امہ کے اتحاد کے قائل تھے۔ دوسری طرف مولانا حسرت موہانی، محمد علی، شوکت علی، ظفر علی خان، طفیل احمد اور دیگر قوم پرستانہ خیالات کے حامی تھے۔ مولانا حسرت موہانی کے ہی ایک مضمون، جس میں نیشنل ازم اور سیکولرازم کی وکالت کی گئی تھی، نے مولانا برکت اللہ کو بھی متاثر کیا۔

مولانا برکت اللہ بھی ایک طرف خلافت کے قیام اور مسلم امہ کے اتحاد کے داعی تھے۔ تاہم دوسری طرف انہوں نے خلافت عثمانیہ کے اندر بھوک و افلاس کا شکار ترکوں کی محرومیوں کو سامنے لاتے ہوئے خلافت کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔

انہوں نے حسرت موہانی کو بھی ایک تفصیلی خط لکھ کر برطانیہ کے ہندوستان پر قبضے کے نتائج کو واضح کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے لکھا کہ ”قحط اور بھوک کی وجہ سے تقریباً20ملین افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ یہ غربت سے متاثر ہونے والے افراد ہندواور مسلم دونوں تھے۔ اس المیہ کا سب سے خوفناک پہلویہ ہے کہ اگر ان اعداد و شمار کا ایران کی آبادی سے موازنا کیا جائے، جو محض15ملین ہے۔ یوں ایک پورا ملک بھوک کی وجہ سے ہلاک ہو چکا ہے۔“

انہوں نے اسی خط میں مزید لکھا کہ ”ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کی دو ذمہ داریاں ہیں۔ پہلی ذمہ داری ملک کیلئے اور دوسری مذہب کیلئے ہے۔ ملک کیلئے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ملک کیلئے جان اور مال کی پرواہ کئے بغیر قربانی دی جائے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ جس نے ملک کے ساتھ پیار نہیں کیاوہ انسانیت سے خالی ہے۔۔۔ مذہبی ذمہ داری تقاضا کرتی ہے کہ ہندوستانی مسلمان اسلامی بھائی چارے کی بنیاد پر دنیا بھر کے مسلمانوں کے دوست ہیں۔ اور جب بھی کوئی مشکل درپیش آئی تو ہر ممکن مدد کریں گے۔ ان مذہبی اور ملکی ذمہ داریوں پر پورا اترنے کا انحصار صرف ایک عمل پر ہے اور وہ عمل ہندوستان کے ہندوؤں اور مسلمانوں کا مکمل اتحاد ہے۔“

برکت اللہ کا خیال تھا کہ ہندوؤں اورمسلمانوں کا اتحاد برطانیہ کو ہندوستان کی انتظامیہ ذمہ داریاں چھوڑنے پر مجبور کر سکتا ہے، جیسے آسٹریلیا اور کینیڈا میں ہو چکا تھا۔ انہو ں نے مسلمانوں کو خبردار بھی کیا کہ اگر وہ ہندوؤں کے ساتھ مل کر بیرونی حکمرانوں کے خلاف نہیں لڑیں گے تو وہ خود بھی تباہ ہو جائیں گے۔

1910میں برکت اللہ جاپان چلے گئے، وہاں جاپانی زبان سیکھی۔ جاپان کے ایک سکول میں بطور ٹیچر بھرتی ہو گئے۔ وہاں وہ ایک مصری انقلابی فضلی سے رابطے میں آئے۔ وہ ’اسلامی فریٹرنٹی‘ نامی جریدے کے مدیر تھے۔ برکت اللہ کے مضامین’اسلامی فریٹرنٹی‘میں شائع ہو رہے تھے تاہم برطانیہ حکومت کے دباؤ پر جاپان نے اسکی اشاعت پر پابندی عائد کر دی۔

برکت اللہ نے ایک اور ماہانامے کے آغاز کیا۔ برطانوی حکومت نے یہ دوسرا میگزین بھی بند کروا دیا۔ برکت اللہ کو جاپان سے امریکہ بھیجنے پر بھی برطانوی حکومت نے جاپان پردباؤ ڈالا اور 1914میں مولانا برکت اللہ کو امریکہ واپس بھیج دیا گیا۔ برکت اللہ نے جاپان میں برطانوی سامراج کے خلاف صحافتی پروپیگنڈہ کرنے کے علاوہ ایک خفیہ تنظیم بھی قائم کی۔ اس تنظیم میں برکت اللہ کے ہمراہ بھگوان سنگھ، ماتھورا سنگھ اور دیگر قریبی دوست بھی شامل تھے۔

مئی1913میں انہوں نے ’اعلان آزادی‘(ڈیکلریشن آف انڈی پینڈینس) کے عنوان سے انگریزی زبان میں ایک انتہائی جارحانہ مضمون تحریر کیا۔ ان کا ایک مضمون ’آخر الحل سیف‘(تلوار ہی آخری حل ہے)بھی حکومت کی طرف سے ضبط کر لیا گیا تھا۔

’اعلان آزادی‘میں برکت اللہ نے برطانوی حکمرانی کی وجہ سے ہندوستان میں پیدا ہونے والی تین بڑی لعنتوں کی نشاندہی کی۔ انہوں نے وسائل کی لوٹ، غربت اور طاعون، قحط اور موت کو تین بڑی لعنتیں قرار دیا، جو برطانوی حکمرانی کی وجہ سے ہندوستان کا مقدر بن گئی تھیں۔

امریکہ میں ہندوستانی انقلابیوں نے لالہ ہردیال کی قیادت میں 1913میں غدر پارٹی کی بنیاد رکھی۔ غدر پارٹی کی سرگرمیوں میں اضافے کی وجہ سے برطانوی حکومت نے امریکہ پر دباؤ ڈالا اور لالہ ہردیال کو امریکہ سے بے دخل کر دیا گیا۔ لالہ ہردیال نے اپنی غیر موجودگی میں غدر اخبار کی ادارت کی ذمہ داریاں برکت اللہ کے سپرد کر دی تھیں۔

پہلی عالمی جنگ کے دوران برکت اللہ اور غدر پارٹی کے دیگر رہنماؤں نے جرمنی سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں۔ اکتوبر1914میں برلن انڈین نیشنل پارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا، جو بعد میں ’برلن کمیٹی فار انڈین انڈیپنڈنس لیگ ان یورپ‘بن گئی۔ پہلی عالمی جنگ کے آغاز کے کچھ عرصہ بعد ہی برکت اللہ ترکی پہنچے اور وہاں سے 1915میں جرمنی چلے گئے۔ برلن کمیٹی کا مقصد جرمن فوجیوں کے ذریعے گرفتار کئے گئے ہندوستانی سپاہیوں پرمشتمل ایک رضاکار فورس تیار کرنا تھا، جو عرب اور ایرانی قوم پرستوں کے ساتھ مل کر برطانیہ کے خلاف لڑسکے۔ اس کے علاوہ افغانستان کے ذریعے ہندوستان میں لڑنے کیلئے ایک فوج بھیجنے کی بھی تیاری کی جا رہی تھی۔ برکت اللہ کافی تعداد میں ہندوستانی جنگی قیدیوں کوجرمن حکام سے رہا کروا کر غدر تحریک میں شامل کرنے میں کامیاب ہوئے۔

جرمنی میں موجود انقلابیوں نے راجہ مہندرا پرتاب، برکت اللہ اور کاظم بے کی قیادت میں ایک وفد افغانستان بھیجا۔ ایک جرمن ڈپلومیٹ ڈاکٹر وان ہنٹنگ بھی اس وفد کے ہمراہ گئے۔ اس وفد میں برکت اللہ نے فارسی ترجمان کے طور پر بھی ذمہ داریاں نبھائیں۔ راجہ مہندرا پرتاب، برکت اللہ اور دیگر نے افغان بادشاہ اور ان کے عہدیداران سے متعدد ملاقاتیں کیں۔

دسمبر1915میں راجہ مہندرا پرتاب اور برکت اللہ نے ہندوستان کی عبوری حکومت کے قیام کا اعلان کیا۔ مہندرا پرتاب اس حکومت کے صدر مقرر ہوئے، برکت اللہ وزیراعظم اور وزیر خارجہ مقرر کئے گئے، جبکہ مولانا عبید اللہ سندھی کو وزیر داخلہ مقرر کیا گیا۔

پہلی عالمی جنگ کے اختتام کے بعد افغان حکمران امان اللہ خان نے برکت اللہ، راجہ مہندرا پرتاب اور دیگر کوماسکو بھیجا تاکہ سوویت یونین سے ممکنہ برطانوی جارحیت کے خلاف مدد مانگ سکیں۔

ماسکو میں پروفیسر برکت اللہ کو افغان حکومت کے سربراہ کے طورپر خوش آمدید کہا گیا۔ انہوں نے وہاں سوویت اخبار کو دیئے گئے اپنے بیان میں کہا کہ ”میں نہ تو کمیونسٹ ہوں اور نہ ہی سوشلسٹ، لیکن میرا سیاسی پروگرام ایشیا سے برطانیہ کے انخلاء پر مبنی ہے۔ میں یورپ کے ذریعے ایشیا کی کپیٹلائزیشن کا دشمن ہوں، جس کا اصولی نمائندہ برطانیہ ہے۔ اس لئے میں کمیونسٹوں کے بہت قریب ہوں اور اس مقصد کیلئے ہم فطری اتحادی ہیں۔“

ماسکو میں برکت اللہ، راجہ مہندرا پرتاب، مولوی عبدالرب اور پارتیوادی اچاریہ نے لینن سے ملاقات کی۔ برکت اللہ لینن کے نظریات سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ انہوں نے ترکش زبان میں ایک پمفلٹ لکھا جس کا عنوان ’بالشوازم‘ تھا۔ اس پمفلٹ میں انہوں نے اسلامی ملکوں کے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ روسیوں کی طرح متحد ہو جائیں اور سامراجی طاقتوں کو اکھاڑ پھینکیں۔

ماسکو میں برکت اللہ نے ایم این رائے، شفیق، ذکریہ اور دیگر ہندوستانی انقلابیوں کے مابین اختلافات کو ختم کرنے کی ناکام کوشش بھی کی۔

1920کے آغازمیں مولانا عبدالباری اور دیگرعلماء نے ہندوستان کو ’دارالحرب‘ قرار دیا اور بڑی تعدادمیں مسلمانوں نے افغان امیر کی پیشگی اجازت کے تحت افغانستان ہجرت کی۔ ہندوستان میں اس وقت خلافت کے حق میں مسلمانوں کی ایک تحریک اورگاندھی کی’عدم تعاون کی تحریک‘عروج پر تھی۔ ان دونوں تحریکوں نے ہندوستانی معاشرے میں ایک نئی ہلچل پیدا کر رکھی تھی۔

ہندوستان کے باہر برکت اللہ برطانیہ مخالف سرگرمیوں میں مصروف تھے۔ وہ روسی مدد سے افغانستان میں ایک اسلحہ کی فیکٹری قائم کرنے کیلئے رضامندی حاصل کر چکے تھے۔ تاہم اس کیلئے ایک شرط یہ رکھی گئی تھی کہ افغان حکومت برطانیہ سے کوئی تعلق نہیں رکھے گی۔ مارچ1921میں افغانستان کے برطانوی حکومت کے ساتھ معاہدے نے برکت اللہ کی تمام کوششوں پر پانی پھیر دیا۔

1922میں انور بے نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے اتحاد کا نعرہ بلند کیا اور سنٹرل ایشیا کی مسلم ریاستوں پر مشتمل اسلامی ریاست بنانے کی کوشش شروع کر دی تھی۔ انہوں نے سوویت یونین کے خلاف بغاوت شروع کی لیکن اگست1922میں مارے گئے۔ برکت اللہ ان کے خلاف کھڑے ہوئے اور سنٹرل ایشیا کی مسلم ریاستوں کو سوویت روس کے اندر ہی رہنے کا مشورہ دیا۔

یوں تو برکت اللہ خلافت کے حامی تھے لیکن اس معاملے میں ان کے خیالات میں ایک تضاد بھی موجود تھا۔ ایک طرف وہ کوشش کر رہے تھے کہ خلافت کا ادارہ قائم رہے، لیکن دوسری طرف ان کا کہنا تھا کہ ”ہندوستانی اخباروں نے خلافت کی عزت اور درجہ بحال رکھنے کیلئے بہت چیخ و پکار کی، لیکن وہ غربت،بھوک، بیروزگاری اورذرخیز زمین کی تباہی اور قابل رحم حالت کو نہیں دیکھ سکے، جس کاترک شکار تھے۔“

جب فرانس گئے اور وہاں سے ایک میگزین کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا،تو برطانیہ نے فرانسیسی حکومت کو اطلاع دی کہ برکت اللہ فرانس میں کمیونسٹ نظریات کو پھیلا رہے ہیں۔ انہیں فرانس سے بے دخل کر دیا گیا اور وہ دوبارہ جرمنی چلے گئے۔

ہندوستان کی آزادی کیلئے برکت اللہ نے ہمیشہ ہندو، مسلم اور سکھ اتحاد کی بنیاد پر جدوجہد کو آگے بڑھایا اور اسی کے قائل رہے۔ سامراجیت اور سرمایہ داری کے خلاف بھی وہ کھلے عام لکھتے اور بولتے رہے ہیں۔ انہوں نے قوموں کی ترقی سے متعلق اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ”قوموں اور عوام کی فزیکل ڈویلپمنٹ اور روحانی ترقی کا انحصار ان کی معاشی صورتحال پر ہوتا ہے۔ جن ملکوں میں کھانے کیلئے روٹی میسر ہے، پہننے کیلئے کپڑے اور رہنے کیلئے گھر موجود ہیں، وہاں لوگ وہ کام مکمل کرتے ہیں جسکا وہ ذمہ لیتے ہیں۔ لیکن جو لوگ دن رات زندہ رہنے کی ضروریات کی تلاش میں رہتے ہیں، ان کے پاس آرٹس اور سائنس کو سیکھنے کا وقت ہی موجود نہیں ہوتا۔ ہندوستان ایسا ملک ہے جہاں اس کے زیادہ تر باشندے غریب ہیں۔ ان کے پاس نہ تو کھانے کیلئے پوری غذا ہے اور نہ ہی پہننے کیلئے مناسب کپڑے ہیں، نہ ہی ان کے پاس رہنے کیلئے گھر ہیں۔البتہ یہاں 300ملین لوگوں پر 300سے زائد راجے اور نواب ہیں۔“

برکت اللہ نے مذہبی تضادات اور اختلافات کی بھی کھل کر مخالفت کی اور ہمیشہ ہندو، سکھ اور مسلم اتحاد پر زیادہ زور دیا۔ 1927میں برکت اللہ نے برسلز میں انٹرنیشنل انٹی امپیریل ازم کانفرنس میں شرکت کی۔ اس کے بعد وہ زیادہ تر بیمار رہنے لگے۔

مہندرا پرتاب اور دیگر کے ہمراہ غدر پارٹی کی دعوت پر سان فرانسسکو بھی گئے۔ امریکہ کی مختلف ریاستوں میں ہندوستانیوں سے ملاقاتیں کیں اور الوداعی کانفرنس میں سینکڑوں افراد شریک ہوئے۔ تاہم وہ ان سے زیادہ بات نہ کر سکے۔ ان کی جگہ راجہ مہندرا پرتاب نے بات کی۔

مولانا برکت اللہ 27ستمبر1927کو وفات پا گئے۔ ان کے جنازے میں ہندو، مسلم اور سکھ سبھی موجود تھے۔ سب نے اپنے اپنے مذاہب کے تحت ان کیلئے دعا کی اور انہیں امریکہ میں ہی سپرد خاک کیا گیا۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔