نقطہ نظر

بلوچ نسل کشی کیخلاف پاکستانی عوام ہمارا ساتھ دیں، یہ ہر مظلوم کی تحریک ہے: گلزار دوست بلوچ

حارث قدیر

گلزار دوست بلوچ کہتے ہیں: ”یہ کریمہ بلوچ کی ہی تحریک ہے،جس کی آج قیادت ماہ رنگ بلوچ، آمنہ بلوچ، سمی دین بلوچ اور صبیحہ بلوچ کے ہاتھوں میں ہے۔ بلوچ نسل کشی اور بربریت کے خلاف پاکستان بھر کے عوام اسی طرح ہمارا ساتھ دیں اور سرکاری بیانیہ کو مسترد کریں۔ یہ ہر مظلوم کی تحریک ہے اور تمام مظلوم مل کر ہی جیت سکتے ہیں۔ عوام بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ساتھ ہیں۔ مقابلے میں لگایا گیا دھرنا ریاست کے کارندوں کا ہے۔ ریاست کے یہ حربے عوام ناکام بنائیں گے۔“

گلزار دوست بلوچ کا تعلق ضلع کیچ سے ہے۔وہ تربت سول سوسائٹی کے کنونیئر اور بلوچستان سول سوسائٹی کے چیئرمین ہیں۔ اس تحریک میں پہلے روز سے شامل ہیں اور ضلع کیچ سمیت بلوچستان بھر میں لوگوں کو منظم کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ’جدوجہد‘ نے ان کا ایک مختصر انٹرویو کیا، جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:

بلوچ یکجہتی کمیٹی کیسے تشکیل پائی، اس کی لیڈرشپ کن لوگوں پر مشتمل ہے اور اس کا ڈھانچہ کس طرح ترتیب دیاگیا ہے؟

گلزار دوست بلوچ: بلوچ یکجہتی کمیٹی کا قیام تین سال پہلے ہوا تھا۔ تربت میں ایک گھر پر سرکاری حمایت یافتہ ڈیتھ سکواڈ نے حمل کر کے فلک ناز بلوچ کو شہید کیا تھا اور ان کی ایک بچی برمش زخمی ہوئی تھی۔ اس واقعے کے خلاف بلوچستان اور کراچی میں شدید رد عمل سامنے آیا، احتجاجی تحریک کا آغاز ہوا اور مظاہرے کئے گئے تھے۔ اس وقت برمش یکجہتی کمیٹی کے نام سے اس کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ اس کے بعد پھر حیات بلوچ اور پھر کریمہ بلوچ کے واقعات ہوئے اور برمش کمیٹی کا نام تبدیل کر کے بلوچ یکجہتی کمیٹی رکھا گیا۔ اس وقت سے یہ کمیٹی کام کر رہی ہے۔ اس وقت اس کمیٹی کی قیادت بلوچستان میں ماہ رنگ بلوچ کے پاس ہے اور کراچی و سندھ میں اس کی قیادت آمنہ بلوچ کر رہی ہیں۔

اسلام آباد میں جاری دھرنے کے بعد بلوچستان میں اس تحریک کا پھیلاؤ کتنا ہے اور لوگ اس تحریک کے بارے میں کیا رویہ رکھتے ہیں؟

گلزار دوست بلوچ: اسلام آباد دھرنا کے بعد یہ تحریک بہت حد تک بلوچستان بھر میں منظم ہو چکی ہے۔ جب تربت سے اسلام آباد کا سفر شروع کیا گیا تھا، تو راستے میں بلوچ اور پشتون علاقوں میں مارچ کا بھرپور استقبال کیا گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں لوک سڑکوں پر آئے اور جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل عام کے خلاف اس لانگ مارچ کی بھرپور حمایت کی۔ ابھی اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے سامنے دھرنا جاری ہے۔ عام بلوچ عوام سمیت پاکستان بھر کے عوام کے رویہ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ اس تحریک کو لاپتہ افراد کی ایک حقیقی تحریک سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اس تحریک کی بھرپور حمایت کر رہے ہیں۔ مالی مدد بھی کر رہے ہیں، سیاسی حمایت بھی کر رہے ہیں اور عملی طور پر بھی اس تحریک میں بھرپور شریک ہو رہے ہیں۔

بلوچستان میں ماورائے عدالت قتل عام اور لوگوں کوجبری طور پر لاپتہ کئے جانے کا سلسلہ تو کافی عرصہ سے جاری ہے۔ گو اس کے خلاف احتجاج بھی مسلسل جاری ہے۔ تاہم اس وقت اتنا بڑا مارچ کس طرح منظم ہو پایا، اور ایسا پہلے کیوں نہیں ہو سکا؟

گلزار دوست بلوچ: ماورائے عدالت قتل عام کا سلسلہ تو 2001کے بعد سے جاری ہے۔ اس مسئلے پر پہلے بھی تحریکیں چلی ہیں۔ 2009اور2010کے عرصہ میں ریاست نے ان تحریکوں کو سبوتاژ کیا، جس کے بعد درمیان میں نسبتاً جمود آیا۔ تاہم بلوچستان یکجہتی کمیٹی اور بالخصوص خواتین نے اس تحریک کو دوبارہ منظم کیا ہے۔ تربت میں بالاچ کے ماورائے عدالت قتل کے بعد اب یہ باقاعدہ طور پر ایک منظم تحریک بن چکی ہے۔ جعلی انکاؤنٹرز میں مارے گئے افراد اور جبری گمشدگیوں کا شکار افراد کے خاندانوں کو بھی اس تحریک سے ایک امید اور یقین قائم ہوا ہے کہ انہیں اس تحریک کے ذریعے سے انصاف مل سکتا ہے۔ تمام متاثرہ خاندان اس تحریک کے ساتھ ہیں اور ان کی بھرپور شرکت کی وجہ سے ہی روز بروز یہ تحریک مزید مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔

اس لانگ مارچ اور احتجاجی دھرنا کے شرکاء کے مطالبات کیا ہیں اور ان مطالبات کے حصول کیلئے لانگ مارچ کے علاوہ جدوجہد کے کون سے طریقے اپنائے جا سکتے ہیں؟

گلزار دوست بلوچ: ہمارے مطالبات میں شامل ہے کہ بلوچ عوام کے جعلی انکاؤنٹرز میں ملوث سی ٹی ڈی(کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ)کو ختم کیا جائے۔ بالاچ بلوچ اور ان کے تینوں ساتھیوں کو ماورائے عدالت قتل کرنے والے کرداروں کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے ان کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ جبری طور پر گمشدہ افراد کو جعلی انکاؤنٹرز میں قتل کرنے کا سلسلہ بند کر کے تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے۔ ماورائے عدالت گرفتاریوں اور ٹارچر سیلوں میں لاپتہ رکھنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ جن لوگوں پر ریاست کو کوئی شک ہے، ان کے خلاف مقدمات درج کر کے انہیں فری اینڈ فیئر ٹرائل کا حق دیا جائے۔ ہمارا یہ بھی مطالبہ ہے کہ پاکستانی عدالتیں اور قانون ہمیں انصاف دینے میں ناکام ہو چکے ہیں، اس لئے اقوام متحدہ اس معاملے کا نوٹس لے اور فیکٹ فائنڈنگ ٹیم تشکیل دی جائے، جو بلوچستان میں ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کی روک تھام میں کردار ادا کرے۔

اس تحریک کی اہمیت آپ کی نظر میں کیا ہے اور بلوچستان پر اس کے کیا اثرات مرتب ہونگے؟

گلزار دوست بلوچ: یہ تحریک بہت اہمیت کی حامل ہے اوراس کے دیر پا اثرات مرتب ہونگے۔ اس تحریک میں تمام بلوچ عوام شامل ہیں۔ یہ بلوچوں کی بقاء کی جنگ ہے۔ یہ تحریک جاری رہی تو بلوچ عوام کی نسل کشی اور ماورائے عدالت قتل عام سمیت جبری گمشدگیوں کا سلسلہ روکنے پر ریاست کو مجبور کیا جا سکتا ہے۔ بلوچ عوام کو اس کا ساتھ دینا ہوگا۔ جتنی یہ تحریک مضبوط ہوگی، اتنا ہی ریاستی بیانیہ تبدیل ہوگا اور جعلی ریاستی بیانیے کو شکست ہوگی۔ بلوچوں کو اٹھا کرماورائے عدالت قتل کرنے اور جبری گمشدگیوں کا سلسلہ روکنے کیلئے اس تحریک کی کامیابی ناگزیر ہے۔

کریمہ بلوچ کے بعدماہ رنگ بلوچ ایک رہنما کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ ان کے ساتھ دیگر خواتین رہنما بھی قیادت میں موجود ہیں۔ خواتین قائدانہ کردار ادا کر رہی ہیں۔ اس سارے عمل کو کیسے دیکھتے ہیں؟

گلزار دوست بلوچ: ماہرنگ، آمنہ، سمی اور صبیحہ سمیت دیگر تمام خواتین، جو اس تحریک کی قیادت کر رہی ہیں، کیلئے کریمہ بلوچ ایک رول ماڈل ہیں۔ یہ تحریک کریمہ بلوچ کی ہی تحریک ہے۔یہ تحریک اس وقت ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں بہت منظم ہے۔ کراچی میں آمنہ بلوچ اس تحریک کی بہت احسن طریقے سے قیادت کر رہی ہیں اور خواتین کی قیادت میں ہی بلوچ عوام کی یہ تحریک کامیابی سے بھی ہمکنار ہوگی۔

بڑی بلوچ قوم پرست جماعتوں کا اس تحریک کے حوالے سے رویہ کیا ہے اور کون کون سے سیاسی رجحانات کی حمایت اس تحریک کو حاصل ہے؟

گلزار دوست بلوچ: مرکزی دھارے کی جماعتیں اس وقت الیکشن کو مدنظر رکھتے ہوئے چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں۔ اس تحریک میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے۔ وہ اخلاقی حمایت بھی اس طرح سے نہیں کر رہے ہیں۔اس تحریک میں عام بلوچ عوام ہیں اور تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے بلوچ عوام اس تحریک میں شامل ہیں۔

نگران حکومت اور ریاست کی جانب سے لاپتہ افراد کے خلاف ایک وکٹم بلیمنگ پر مشتمل پروپیگنڈہ شروع کر رکھا ہے۔ میڈیا بھی پیش پیش ہے۔ اس کو کس طرح دیکھتے ہیں؟

گلزار دوست بلوچ: حکومتیں چاہے سیاسی ہوں یا نگران، اپنے آپ کو ریاست کا ہی وفادار سمجھتے ہوئے ہر دور میں متاثرہ خاندانوں کے خلاف غلط اور بے بنیاد پروپیگنڈہ ہی کرتی آئی ہیں۔

نگران حکومت میں جتنے لوگوں کو وزیر یا وزیراعظم وغیرہ بنایا گیا ہے، یہ تو ریاست کے ہی کارندے ہیں۔ یہاں عوامی مینڈیٹ کے ذریعے بھی کوئی سیاسی یا حقیقی عوامی نمائندہ نہیں آتا، نگران تو براہ راست ریاست کے ہی لوگ ہوتے ہیں۔ اس طرح کی بلیک میلنگ کا الزام شروع سے ہی ہم پر لگایا جاتا رہا ہے۔ اس لئے ان حکمرانوں سے کوئی گلہ شکوہ نہیں ہے۔ نہ ہی ان سے ہم نے کوئی امید وابستہ کی ہوئی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عالمی ادارے، یو این، یورپی یونین، ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل وغیرہ ہی مداخلت کر کے اس مسئلے کو حل کر سکتے ہیں۔

اسلام آباد میں ایک اور دھرنا لگایا گیا ہے، جو کافی سہولیات سے مزئین ہے۔ یہ کون لوگ ہیں اور اس کا مقصد آپ کی نظر میں کیا ہے؟

گلزار دوست بلوچ: اسلام آباد میں جو دوسرا دھرنا لگوایا گیا ہے اور ہمارے دھرنے کو کاؤنٹر کرے کیلئے ریاست نے ڈیتھ سکواڈ کے کارندے بٹھائے ہوئے ہیں۔ اس طرح کے ہتھکنڈوں کے باوجود انہیں ہر بار ناکامی ہوتی ہے۔ بلوچ عوام فیصلہ ساز ہیں اور انہوں نے بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے جاری تحریک اور ہمارے احتجاجی دھرنے کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ عوام بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ساتھ سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔ پورے پاکستان سے لوگ بلوچ یکجہتی کمیٹی کا ساتھ دے رہے ہیں۔ یہ جو لوگ دوسرا دھرنا دے کر بیٹھے ہیں یہ عام بلوچ عوام پر مشتمل ایک ریلی نکال کر دکھائیں تو انہیں اپنی حیثیت کا اندازہ ہو جائے گا۔ یہ اس طرح کے حربے جاری رکھیں گے لیکن اب یہ ناکام ہو چکے ہیں۔ عوام نے انہیں پہلے سے مسترد کیا ہوا ہے۔ بلوچ عوام، پاکستان بھر کے عوام اورجو کوئی تھوڑا بہت آزاد میڈیا ہے وہ ان کی نیتوں کو بھی سمجھتا ہے اور ان کے کردار کو بھی جانتے ہیں۔ انہیں ریاست ہی لائی ہے اور ہمارے مقابلے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

بلوچ عوام اور بالعموم پورے پاکستان اور زیرانتظام علاقوں کے شہریوں کے نام کوئی پیغام دینا چاہیں تو کیا کہیں گے؟

گلزار دوست بلوچ: ہمارا پیغام یہ رہے گا کہ بلوچستان کے حوالے سے ریاست کے بیانیہ کو مسترد کرنے کیلئے عوام ہمارا ساتھ دیں۔ ہم پاکستانی عوام سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس بربریت اور بلوچ نسل کشی کے خلاف ہمارا ساتھ دی۔ جس طرح ابھی پاکستان بھر کے عوام ہمارے ساتھ ہیں، اسی طرح ہماری آواز بنیں۔ یہ صرب بلوچ عوام کی بقاء کی جدوجہد نہیں ہے۔ یہ اس خطے کے تمام محکوم و مظلوم عوام کی جدوجہد ہے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔