عدنان فاروق
لکشمی چوک لاہور کی لکشمی منزل کو چند سال پہلے ’اسلامائز‘کر دیا گیا تھا مگر اس پتھر سے بنی عمارت کی پیشانی پر مذہبی نعرہ لکھوانے کے باوجود بھی اس علاقے کے مسلمان ہونے پر شک ہی رہا۔
اب جس چوک میں یہ عمارت واقع ہے، اس کا نام بدل دیا گیا ہے۔
لکشمی چوک اب ’مولانا ظفر علی خان چوک‘ قرار دے دیا گیا ہے۔
کہاں سیٹھ لکشمن داس جو غریبوں کا داتا اور کہاں مولانا ظفر علی خان۔
معلوم نہیں مولانا ظفر علی خان اور ان کا اخبار ’زمیندار‘کیوں پاکستانی تاریخ کے ماتھے پر تھونپا جاتا ہے جبکہ پیشہ ور صحافیوں کے نقطہ نظر سے ظفر علی خان ایک بے رحم اخباری مالک کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔
’زمیندار‘میں صحافیوں اور اخبار کے دیگر عملے کو کئی کئی مہینے تنخواہ نہیں ملتی تھی۔ ادارتی لحاظ سے بھی یہ اخبار رجعت پسندی کا ایک پلندہ تھا۔ لیکن شاید نیا پاکستان انہی لوگوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے تو بنایا گیا ہے۔
اس چوک میں مسلم لیگ کا دفتر بھی تھا جہاں سے پاکستان بنانے کی مہم چلی۔
یاد آیا اپنے منٹو صاحب بھی اسی لکشمی منزل میں کچھ عرصے کے لئے رہتے رہے۔
فلم نگری سے جڑے بہت سے لوگ اس چوک کی رونق رہے۔ کبھی کسی کو یہ خیال نہ آیا کہ اس چوک کا نام ’اسلامائز‘کیا جائے۔ یہ قائد ثانی کی حکومت ہے جسے ایسے ’حلال‘ خیال سوجھتے ہیں۔
دلچسپ بات ہے جب سے پاکستان بنا ہے، صرف ان چیزوں کو بدلا جا رہا ہے جن پر ہندو ہونے کا شائبہ ہو۔
انگریز کی چھوڑی ہوئی کسی چیز کو بدلنے کی کوشش کبھی بھی نہیں کی جاتی۔ انگریز کی چھوڑی ہوئی پولیس ہو یا سرحدیں، انگریز کے بنائے قانون ہوں یا طبقاتی نظام، انگریز کی دی ہوئی جاگیرداری ہو یا نوکر شاہی، سب ’حلال‘ ہیں۔
برق گرتی ہے تو بے چارے ’ہندوستانو‘ پر!
اب اگر چوک کا نام بدل ہی دیا ہے تو سب کچھ اچھی طرح بدل دیجئے۔ لکشمی کی بغل میں موجود رائل پارک کو ’شاہی باغیچہ‘ قرار دے دیجئے اور لکشمی منزل کا نام ’نیک پروین منزل‘رکھ دیا جائے۔
سو سال بعد زندہ دلان لاہور اپنے بچوں کو یہ قصہ سنایا کریں گے کہ نیک پروین لکشمی نامی وہ عورت تھی جو مولانا ظفر علی خان سے ایسا متاثر ہوئی کہ پیشہ تج دیا اور نیک پروین بن گئی۔