پاکستان

5فروری: کیا کھویا، کیا پایا؟

ساجد نعیم

امسال 5فروری کا دن پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی تاریخ میں اپنی منفرد حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ گزشتہ35سال سے یہ دن ’یوم یکجہتی کشمیر‘ کے نام سے منایا جاتا رہا ہے۔ عام ادوار میں انسانی سوچ اور فکر پر جمود طاری ہوتا ہے اور گزشتہ ساڑھے تین عشرے اسی دور کی غمازی کرتے ہیں۔ اس لئے حکمرانوں کی طرف سے ’یوم یکجہتی‘ بلا روک ٹوک منایا جاتا رہا ہے۔ تاہم رواں سال اس دن سے قبل ہی خطہ جموں کشمیر کے اس حصے کے باسیوں نے حکمرانوں کی نفسیات اور طرز فکر کا طلسم توڑ دیا تھا۔ عوامی شعور جب بیداری کی انگڑائی لیتا ہے تو وہ نہ صرف سوچ و فکر کے نئے زاویے تخلیق کرتا ہے، بلکہ حکمرانوں کی طرف سے دیئے گئے ہر نقشِ کہن کو تاریخ کے کوڑے دان کی نظر کر دیتا ہے۔

گزشتہ ڈیڑھ، دو سال کی کمر توڑ مہنگائی اور بے پناہ افراط زر نے نہ صرف عام محنت کش عوام کی پرتوں، بلکہ اپر مڈل کلاس اور مڈل کلاس کی بھی چیخیں نکلوا دیں۔اپر مڈل کلاس کے افراد لوئر مڈل کلاس اور مڈل کلاس کے لوگ نچلے طبقوں کی سطح پر پہنچ گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گزشتہ سال مئی سے لوگ اس نظام اور اس کے پروردہ حکمرانوں کے خلاف برسرپیکار ہو گئے۔ گزشتہ سال ستمبر میں تحریک اپنے جوبن پر جا پہنچی اور اسی جوبن کے عالم میں اس نے اپنی قیادت خود تراشنا شروع کر دی۔ ’تحریکیں اپنی قیادت خود تراشتی ہیں‘ کی سچائی اس وقت ایک حقیقت کا روپ دھارنے لگی، جب تحریک نے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے نام سے اپنا ایک ادارہ قائم کیا۔ 30ارکان پر مشتمل جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی میں ایک بھی ایسا نام نہیں، جو چند ماہ پہلے تک کوئی معروف و مشہور شخصیت رہا ہو۔ حکمرانوں نے جی بھر کر ان نئے ابھرنے والوں کا تمسخر اڑیا، لیکن وہ یہ بھانپنے سے قاصر تھے کہ ان افراد کی طاقت ان کی انفرادیت نہیں، بلکہ ان کے پیچھے موجود عوام کی طاقت و شکتی ہے، جس کے آگے دنیا کی کوئی بھی طاقت ٹھہرنے سے قاصر ہوتی ہے۔ یہی وہ طاقت تھی جس نے بالآخر حکومت وقت کو اس غیر نمائندہ قیادت کے ساتھ مذاکرات کرنے پر مجبور کیا۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایک خود رو تحریک کی قیادت میں حادثاتی عناصر کا شامل ہونا قطعی فطری عمل ہوتا ہے اور محض عمل کے میدان میں ہی تحریک اپنی قیادت کی تطہیر کرتے ہوئے آخر کار وہ قیادت تراشتی ہے، جو اس کی جدوجہد کا حقیقی ہتھیار ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے حالیہ تحریک میں حادثاتی عناصر کا حصہ کچھ زیادہ ہی تھا اور مذاکراتی عمل شروع ہوتے ہی قیادت کی کمزوریاں عیاں ہونا شروع ہو گئیں۔

تین بنیادی مطالبات؛
1)۔ پیداواری لاگت پر بجلی کی بلاتعطل فراہمی۔
2)۔ سبسڈائزڈ آٹے کی وافر فراہمی اور
3)۔ اشرافیہ کی مراعات کا خاتمہ،

میں سے آخری دو مطالبات پر بہت ابتداء ہی میں تقریباً سرینڈر کر دیا گیا۔ سبسڈائزڈ آٹے کی جگہ ٹارگٹڈ سبسڈی ا ور مراعات کے خاتمے کے کچھ برائے نام اقدامات پر حامی بھر لی گئی۔ مذاکرات کا عمل جوں جوں طویل ہوتا گیا، قیادت نچلی سطح پر بنائی گئی ایکشن کمیٹیوں اور عوام کی وسیع تر پرتوں سے لاتعلق ہوتی گئی۔ کمیٹی جھوٹی حکومتی طفل تسلیوں پر یقین کرتے ہوئے اپنی اصل طاقت،عوامی احتجاج،کو موخر کرتی گئی اور اس طاقت کو کند کرتی گئی۔ بجائے اس کے کہ عوام کی وسیع تر پرتوں کو شعور دے کر بہت چھوٹے پیمانے تک ایکشن کمیٹیوں کو منظم کیا جاتا،الٹا پہلے سے موجود ایکشن کمیٹیوں کو عضو معطل بنا دیا گیا۔ بعض جگہوں پر جہاں ایکشن کمیٹی کے کلیدی ذمہ دار موجود تھے، تحصیل اور ضلعی سطح پرکمیٹیوں کی تشکیل کی راہ میں روڑے اٹکائے گئے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ بعض جگہوں پر ایسے افراد، جن کا تحریک کے اندر نادیدہ ہی سہی لیکن بہت کلیدی کردار تھا،ان کو نہ صرف حقارت کی نظر سے دیکھنا شروع کر دیا گیا، بلکہ ان کو کہنیاں مار کر پیچھے بھی کیا گیا۔ ان تمام تر کمزوریوں کو صرف ایک چیز نے سنبھال رکھا تھا کہ تحریک میں کوئی رخنہ نہ آجائے اور ایکشن کمیٹی، جو تحریک کی جڑت کی علامت ہے، اس پر کھلے عام تنقید نہ کی جائے۔

تاہم 4فروری کو ایکشن کمیٹی نے ایک ایسا اقدام اٹھایا، جس نے کسی کے نہ چاہتے ہوئے بھی ایک پینڈورا باکس کھول دیا۔ جو تحریک کی جڑت کی غرض سے سوال کرنے سے کترا رہے تھے، ان کی طرف سے سوالات کی بھرمار ہے۔ مثلاً یہ کہ کمیٹی کی قیادت کو 4فروری کو اپنی کال پر دیئے گئے اقدامات کو منظم کرنے کی بجائے مذاکرات کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ کاغذ کے جس پرت کو نوٹیفکیشن اور اس میں درج جن چیزوں کو حاصلات بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، کیا وہ واقعتاایسی ہی ہیں؟ اس ’نوٹیفکیشن‘ میں زیادہ تر مطالبات کے حوالے سے کمیٹیوں کی تشکیل کی گئی ہے۔ 76سالہ تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ جو کام نہ کرنا ہو، اس پر انتظامی کمیٹی اور جہاں سچ چھپانا ہو، وہاں پر ’تحقیقاتی کمیٹی‘ بنا دی جائے۔ تو پھر ان کمیٹیوں کا کردار کیونکر مختلف ہوگا؟ احتجاجی پروگرام سے پہیہ جام کو منہا کرنے میں کیا منطق استعمال ہوئی؟ کاغذ کا وہ ٹکڑا جس کی قیمت خود اس پرت سے بھی کم تھی، کیونکہ وہ استعمال ہو چکا تھا، اس کی بنیاد پر احتجاج کو جشن میں تبدیل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اور اس طرح کے دیگر بہت سے سوالات ہیں۔

دراصل ہوا کیا؟

قیادت کے تمام تر تذبذب کے باوجود5فروری کو جو کچھ ہوا وہ احتجاج ہی تھا نہ کہ جشن۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ قیادت تحریک کو سمت دینے کی بجائے خود تحریک کی مخالف سمت میں کھڑی ہے۔ پہیہ جام کی کال واپس لینے کے باوجود تقریباً مکمل پہیہ جام رہا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ تحریک نے اب تک کبھی بھی جبری پہیہ جام ہڑتال یا شٹر ڈاؤن نہیں کروایا۔ قیادت اس بات کو تسلیم کرے یا نہ کرے جو کچھ 5فروری کو اس خطے کے محنت کش عوام نے کیا وہ قیادت کی وجہ سے نہیں بلکہ قیادت کے باوجود ہوا۔ جسے انگریزی میں یوں بیان کیا جاتا ہے: "Not because of themselves but inspite of themselves”
تحریک اور قیادت کے رد عمل میں اس قدر دوری کا سبب قیادت کاتحریک سے مکمل کٹ جانا ہے۔

آگے کیا کیا جائے؟

ان حالات میں ایکشن کمیٹی کے ذمہ داران پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ مذکورہ بالا سوالات کا اگر ذمہ داران کے پاس کوئی کافی و شافی جواب نہیں اور راقم کی رائے میں ان سوالات کے جواب نہیں ہیں تو ذمہ داران کو خود احتسابی کے عمل سے گزرنا چاہیے۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ تحریک کے تقاضے ان کی بساط سے باہر ہیں تو وہ رضاکارانہ طو رپر قیادت سے علیحدگی اختیار کر لیں۔ اگر ان کا خیال اس کے برعکس ہے اور وہ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے ان کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں تو یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہاں سے آگے انہیں انتہائی احتیاط اور استقامت کی ضرورت ہے۔ مزید یہ کہ عوام کی وسیع تر پرتوں کو منظم کرنے کیلئے وارڈز کی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔ وارڈز کی کمیٹیوں کی بنیاد پر یونین کونسل کی سطح پر اور یونین کونسل کی بنیاد پر تحصیل اور پھر ضلعی کمیٹیوں کی بنیاد پر مرکزی جوائنٹ ایکشن کمیٹی تشکیل دی جائے۔ ہر سطح کی کمیٹی کو اپنے نمائندے کو واپس بلانے کا حق بھی دیا جائے۔ ہر سطح کی کمیٹیوں کے باقاعدہ اجلاس ہوں، جن میں انتظامی، حکمت عملی اور حقوق و فرائض کی آگاہی کے حوالے سے مباحث ہوں۔ بل بائیکاٹ مہم کو سوشل میڈیا کے علاوہ باقاعدہ فزیکل کیمپین کے ذریعے منظم کیا جائے۔ نچلی سطحوں سے تجاویز لے کر چارٹر آف ڈیمانڈ کو از سر نو مرتب کیا جائے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts