حفیظ بلوچ
ہر سال14مارچ دنیا میں دریاؤں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ دریاؤں اورندیوں کی زندہ حیثیت تسلیم کی گئی ہے اور ان کے حفاظت کے لئے اقدامات کئے جاتے ہیں۔ندیوں کی بدولت دریاؤں کا جنم ہوتا ہے اور اگر ندیاں باقی نہ رہیں تو دریا بھی ختم ہو جائیں گے۔ آج دنیا ندیوں اور دریاؤں کو زندہ حیثیت سے نظام کائنات کا اہم ستون تسلیم کر چکی ہے۔ مگر افسوس کہ آج کراچی کو آکسیجن مہیا کرنے والے ملیر کو زندگی کی علامت دینے والی ملیر ندی کو سرکار کی سرپرستی میں موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے۔
کیرتھر رینج کے پہاڑی سلسلے سے وجود میں آنے والا ملیر دریا ایک مکمل بائیولیوجیکل ایکو سسٹم کی بنیاد ہے۔ یہ وہ مرکزی ستون ہے جس کی بدولت میٹھے پانی کا طاقتور سیلاب سمندر کو ہر سال پیچھے دھکیلنے کا سبب بنتا ہے۔ اسی ملیر ندی کے میٹھے پانی کی بدولت کراچی میں آج بھی زیر زمین میٹھا پانی ملتا ہے۔ اسی ملیر ندی کی بدولت ملیر کا گرین زون ہے اور کراچی کو آکسیجن مہیا ہوتی ہے۔ اسی ملیر ندی کی بدولت کراچی کا ماحولیاتی نظام ابھی تک قائم ہے، مگر اسی ملیر ندی کو مائننگ کے ذریعے تباہ کیا جا رہا ہے۔ ملیر ندی کو گئے وقتوں میں ملیر دریا کہا اور مانا جاتا تھا۔کھدیجی ندی، مول ندی، جرندو ندی، لنگھیجی ندی، تھڈو ندی اور لٹ ندی کی بدولت ملیر ندی کا وجود کسی دریا کے مانند بہتا تھا۔ کھدیجی ندی، مول ندی اور جرندو ندی کے میلاپ سے ملیر ندی بنتی تھی،پھر لنگھیجی ندی تھدو ندی اور لٹ ندی سے شیر دریا بن جاتا تھا۔
1960 کی دہائی تک اس میں سارا سال پانی بہتا تھا۔ مون سون کی بارشوں میں ملیر دریا دھاڑتا شور کرتا سمندر میں جا کر گرتا تھا۔ پھر وقت کے فرعونوں نے ملیر دریا کو کھودنا شروع کیا، کراچی کے بے ہنگھم اور بہت تیزی سے بڑھتے شہر کو عمارتوں کی ضرورت تھی۔ اس لئے ملیر ندی کی ریت کو نکال کر کنسٹرکشن میں استعمال کیا جانا شروع ہو گیا۔ یوں کراچی کی عمارتیں بنتی گئیں اور ملیر دریا سمٹتا چلا گیا۔
کراچی کی عمارتوں میں ملیر ندی کا خون شامل ہے۔ ملیر ندی ریت بجری سے خالی ہوتی چلی گئی اور ملیر ندی سے پانی کی جگہ گٹر کا سیورج آنا شروع ہو گیا۔ ایک میٹھی لیاری ندی کی تباہی کی بعد ملیر ندی کو تباہ کرنے کا سلسلہ شدت اختیار کرتا چلا گیا۔ ملیر ندی کی تباہی سے ملیر کی زراعت متاثر ہونا شروع ہوئی،اور کورنگی کی زراعت کو انڈسٹریل زون کھا گیا۔اب ملیر ایکسپریس وے بھی زراعت اور ملیر ندی کو کھائے جا رہی ہے۔
کیرتھر رینج کے پہاڑی سلسلے،جہاں کیرتھر نیشنل پارک واقع ہے، سے ندیوں کی ایک مالا ملیر دریا کو بنیاد فراہم کرتی ہے۔ اسی کیرتھر کے پہاڑوں کی ندیوں کو بحریہ ٹاؤن نامی ایک بھیڑیا نما جانور کاٹ کر ختم کر رہا ہے۔ دوسری طرف ڈی ایچ اے کی انڈسٹریل زون کے منصوبے کی صداؤں سے اس قتل عام کو اور دوام دیئے جانے کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ ایک طرف ملیر ایکسپریس وے ملیر دریا کی حیثیت کو ختم کر رہا تو دوسری طرف ریت بجری مافیا کی سفاک مائننگ ملیر دریا کے ساتھ کیرتھر نیشنل پارک کے وجود کو ختم کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ بحریہ ٹاؤن کی کیرتھر نیشنل پارک میں توسیع ایک پورے ماحولیاتی ایکو سسٹم، جنگلی حیاتیات اور مقامی آبادی کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے کافی ہے۔
جس طرح کیرتھر، ملیر کی زمینوں اور ملیر ندی کو نیلامی میں دے کر پاکستان پیپلزپارٹی نے اقتدار میں اپنا حصہ لیا ہے۔ اس سے ایک بات تو واضع ہو جاتی ہے کہ مستقبل میں کیرتھر نیشنل پارک اورکیرتھر رینج کے پہاڑوں کی حیثیت ختم ہو جائے گی۔ ملیر دریا نہیں بلکہ گٹر ندی بن جائے گا، جو ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن کے سیورج کے کیمیکل زدہ پانی سے بھرا ہوگا اور سمندر میں جا کر سمندر کے پانی کوبھی گندا کرے گا، اور ملیر مکمل ختم ہو جائے گا۔
ابھی بھی وقت ہے اس بھیانک منظر سے ملیر کو اورکراچی کو بچایا جا سکتا ہے، کیرتھر نیشنل پارک کو بچایا جا سکتا ہے، یہاں کے مقامی لوگوں کی حیثیت کو بچایا جا سکتا ہے، مگر وقت بہت کم ہے۔ زرداری اینڈ گروپ نے پورے ملیر اورکیرتھر کا سودا کر دیا ہے اور اقتدار میں اپنا حصہ لے لیا ہے۔ ان کا دھندا چلے گا، مگر ملیر کی حیثیت یہاں کے مقامی لوگوں کا وجود اور کراچی شہر کا ماحولیاتی تحفظ داؤ پر لگ چکا ہے۔ صرف ایک راستہ ہے، جو مزاحمت کا راستہ ہے۔ مزاحمت اس لئے ناگزیر ہے کہ ملیر دریا کے وجود کے ساتھ سب کچھ جڑا ہوا ہے، جس میں ہم سب بھی شامل ہیں۔