دنیا

انقلابی رجحانات: محنت کشوں اور عوام کی پیش قدمی اور بائیں بازو کے لیے گنجائش

(نوٹ: طبقاتی جدوجہد کی 41ویں کانگریس کے سلسلہ میں عالمی صورتحال سے متعلق دستاویز’سوشلزم یا بربریت: عالمی صورتحال، پیش منظر اور لائحہ عمل‘ شائع کی گئی ہے۔ مذکورہ دستاویز کا ایک حصہ یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔)

جس طرح انتہائی دائیں بازو کے ابھار سے ظاہر ہونے والے خطرے کو معمولی سمجھنا ایک غلطی ہو گی اسی طرح محنت کشوں اور وسیع تر عوام کے بڑھتے ہوئے ابھار سے انکار کرنا بھی بہت بڑی بھول ہو گی۔ یہ تحرک کئی برسوں سے جاری ہے اور 2023ء میں ایک جست کے ساتھ امریکہ اور یورپ کی طاقتور مزدور تحریک اس میں شامل ہوئی ہے۔ ہمیں اس میں فلسطینی مزاحمت کو بھی شامل کرنا چاہیے جس نے پورے مشرق وسطیٰ میں سامراج کے منصوبوں کو غیریقینی سے دوچار کر دیا ہے۔

فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی اہمیت ہم پہلے ہی بیان کر چکے ہیں۔ آئیے محنت کش طبقے کی سب سے طاقتور بٹالین کی ہڑتالوں اور تحریک پر غور کریں۔ امریکہ میں ہم نے حال ہی میں تین بڑے کار ساز اداروں کے محنت کشوں کی کامیاب ہڑتال اور 50 سال میں ہڑتالوں کا سب سے بڑا سلسلہ دیکھا ہے۔ کورنیل یونیورسٹی کے مطابق 2023ء میں 400 سے زائد ہڑتالیں ہوئیں جن میں ہالی ووڈ کی تفریحی صنعت کو مفلوج کر دینے والی ہڑتال بھی شامل ہے اور تاریخ میں صحت کے شعبے کے محنت کشوں کی سب سے بڑی ہڑتالیں بھی شامل ہیں۔ اس سے قبل ہم جارج فلائیڈ کے قتل کے بعد چلنے والی تحریک اور خواتین اور نوجوانوں کی سیاسی ریڈکلائزیشن بھی دیکھ چکے ہیں۔

برطانیہ میں اب چند سالوں سے مزدوروں نے دوبارہ کھڑا ہونا شروع کر دیا ہے اور ریل کے محنت کشوں، اساتذہ اور شعبہ صحت کے محنت کشوں کی اہم ہڑتالیں اور کرایوں میں اضافے کے خلاف مقامی احتجاج ہوئے ہیں۔ فرانس میں پنشن اصلاحات کے خلاف محنت کش طبقہ لڑائی لڑ رہا ہے، اجرت میں اضافے کے لیے ہڑتالیں ہو رہی ہیں، پولیس تشدد کے خلاف نوجوانوں کی بغاوت ہوئی ہے، نسل پرستانہ قوانین کے خلاف تحریکیں چل رہی ہیں اور کسانوں کی طرف سے سڑکیں بند کی جا رہی ہیں (جس وقت یہ سطور تحریر کی جا رہی ہے کسانوں کی تحریک ہالینڈ، بیلجیم، ہنگری اور پولینڈ وغیرہ تک پھیل چکی ہے)۔ جرمنی میں ریلوے کی طویل ترین ہڑتال جاری ہے اور لاکھوں لوگ ابھرتے ہوئے انتہائی دائیں بازو کے خلاف متحرک ہو چکے ہیں۔ سپین میں نرسوں اور صحت کے شعبے کے محنت کشوں، ریلوے مزدوروں اور آئبیریا ایئر لائن کے کارکنوں کی ہڑتالیں ہوئی ہیں۔ آئرلینڈ میں اساتذہ، ڈاکٹروں اور ٹرانسپورٹ محنت کشوں کی ہڑتالیں ہوئی ہیں۔ اسی طرح اٹلی میں پبلک ٹرانسپورٹ کے محنت کشوں، ہوائی ٹریفک کنٹرولرز اور ٹیکسی ڈرائیوروں کی جدوجہد جاری رہی ہے۔ اس طرح کے واقعات پورے یورپ میں ہو رہے ہیں۔

لاطینی امریکہ میں 2024ء کا آغاز عام ہڑتال کے ساتھ ہوا اور ارجنٹینا میں نئی انتہائی دائیں بازو کی حکومت کے جابرانہ اور مزدور دشمن قوانین کے خلاف دس لاکھ محنت کش متحرک ہوئے۔ پچھلے سالوں میں نکاراگوا، چلی، کولمبیا، پیرو اور بولیویا میں عوامی بغاوتیں ہوئیں اور برازیل، ایکواڈور، پاناما، کیوبا، ہیٹی، پورٹوریکو اور پیراگوئے میں بڑے پیمانے پر تحریکیں اٹھیں۔

افریقہ میں ساحل کے خطے میں 2020ء سے فرانسیسی سامراج کی کٹھ پتلی حکومتوں کے خلاف عوامی حمایت کے ساتھ فوجی بغاوتیں ہو رہی ہیں۔ یاد رہے کہ افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں 2010ء سے 2012ء تک پہلی عرب بہار گزری جس نے تیونس، مصر، لیبیا اور یمن کی آمریتوں کا تختہ الٹ دیا۔ 2018ء سے 2022ء کے عرصے میں اردن، لبنان، سوڈان، الجزائر، شام اور عراق وغیرہ میں دوبارہ تحریکیں اٹھیں اور کئی ایک حکومتوں کا خاتمہ بھی ہوا۔ ایران میں 2019ء میں مہنگائی کے خلاف عوامی بغاوت ہوئی اور 2022ء میں مذہبی پولیس کے ہاتھوں مہسا امینی کے قتل کے بعد ایک اور بغاوت ہوئی۔

ایشیا میں حالیہ برسوں میں ہم نے سری لنکا اور میانمار میں بغاوتیں یا بڑے پیمانے کی تحریکیں اور ہندوستان میں بڑی عام ہڑتالیں دیکھی ہیں۔ پاکستان میں بھی مزدور تحریک کے بحران کے باوجود پبلک سیکٹر کے محنت کش نجکاری کے خلاف اور اجرتوں میں اضافے کے لیے نبردآزما ہیں۔

اسی طرح قومی تحریکوں کا ایک پورا سلسلہ دنیا میں نظر آتا ہے۔ سامراجی حملوں سے جنم لینے اور سرمایہ دارانہ نظام میں نہ حل ہو پانے والے ان مسائل (یوکرائن، مغربی صحارا، کشمیر، ہانک کانگ، تائیوان وغیرہ) میں قومی آزادی کی جدوجہدوں کی استقامت ا نقلابیوں کے لیے اپنے عبوری پروگرام کے لازمی جزو کے طور پر قومی حق خودمختاری، حق خو د ارادیت اور حق دفاع کو اپنانے کی ضرورت کو ظاہر کرتی ہے۔

موجودہ دور کا اہم ترین تضاد ایسی ٹھوس انقلابی قیادتوں کی عدم موجودگی ہے جن کا محنت کش طبقے کی تحریکوں میں اتنا اثر و رسوخ موجود ہو کہ وہ جدوجہد اور بغاوتوں کے نتائج پر اثر انداز ہو سکیں۔ اس سے غدار اور مفاہمت پرست مزدور قیادتوں کو ان کے ہتھکنڈوں کے لیے گنجائش مل جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی فتوحات حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور بہت سی جدوجہدیں اور تحریکیں جمہوری ردانقلاب کے طریقہ کار یا ریاستی جبر کے ہاتھوں شکست کھا کر ختم ہو جاتی ہیں۔

بیشتر حالیہ تحریکوں اور نیم بغاوتوں کی ایک اور کمزوری ان کا عوامی کردار ہے۔ یعنی ان میں محنت کش طبقے کا مرکزی کردار نہیں ہے۔ چونکہ محنت کش ان میں ہراول کردار ادا نہیں کر رہے اس لیے جمہوری تنظیموں کا ظہور، جدوجہد میں شامل مختلف شعبوں کی ہم آہنگی اور ہمارے پروگرام کو وسیع تر عوام تک پہنچانا مشکل ہو جاتا ہے۔

ہمیں 2023ء میں ہونے والی نئی پیش رفتوں کو بہت غور سے دیکھنا ہو گا کیونکہ مرکزی سرمایہ دارانہ ممالک میں محنت کش طبقات سامنے آ رہے ہیں۔ اس سے حالات و واقعات کا رخ بدل سکتا ہے اور وہ دنیا بھر پہ اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

وہ جتنی بھی کوششیں کر لیں آج سرمایہ داروں کے پاس اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ ان ابھرتی ہوئی جدوجہدوں کو تاریخی شکست دے سکیں۔ اگرچہ ہمارے طبقے اورعوامی قیادت کے مسائل ہمیں اپنے حق میں بحران کو حل کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتے۔ تناظر جدوجہد میں مزید تیزی کا ہے۔ جس میں محنت کشوں کی مزید ہڑتالیں، تحریکیں اور بار بار ابھرنے والی بغاوتیں شامل ہوں گی۔

جیسا کہ ہم نے پچھلی کانگریس کی عالمی دستاویز میں لکھا تھا، ”ہمارا چیلنج یہ ہے کہ اس نئے مرحلے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہر ملک میں اپنے نوجوان کیڈرز کو تربیت دیں۔ اپنے آپ کو سماجی اور سیاسی طور پر محنت کش طبقے اور وسیع تر عوام کے سب سے زیادہ متحرک حصوں میں شامل کریں اور اپنی تعمیر میں ایک جست لگائیں۔ یاد رہے کہ ابھی ہم ایک ایسے عمل کے محض آغاز پر ہیں جو گہرا ہوتا جائے گا اور ہمیں آگے بڑھنے کے متعدد مواقع فراہم کرے گا۔ اگر ہم مضبوط انقلابی سوشلسٹ تنظیموں کی تعمیر میں آگے بڑھیں اور اس مرحلے پر اپنے طبقے کے کلیدی حصوں کی قیادت کر پائیں تو ہم اپنے آپ کو ایک ایسے معروضی عنصر میں تبدیل کر سکتے ہیں جو سماجی عمل کی کمزوریوں کو پورا کر سکے گا، کلیدی کردار ادا کرنے میں مزدور تحریک کی معاونت کر سکے گا اور محنت کشوں کو آنے والی بغاوتوں اور انقلابات میں اقتدار کے حصول کی کشمکش میں حصہ لینے کے قابل بنا سکے گا۔ صرف اسی طرح ہم انقلاب سے پہلے کی ایسی صورتحال تک پہنچ پائیں گے جہاں ہمارا انجام پسپائی نہیں ہو گا اور اسی طرح ہم حقیقی معنوں میں وہ انقلابی بن سکیں گے جو تاریخ کا دھارا موڑ کے رکھ دیتے ہیں۔“ ہم نے مزید کہا تھا،”تسلط کے ڈھانچوں اور طریقہ ہائے کار کا بحران عوام کی پرتوں میں اثر و رسوخ کے وسیع امکانات کھول رہا ہے۔ انتہائی دایاں بازو اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کو عوامی تحریک کے انتہائی قدامت پسند اور پسماندہ حصوں میں مقبول بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہم انقلابیوں کو دلیری کے ساتھ اپنے تمام اقدامات، رجحانات اور حکمت عملیوں کو یوں استعمال کرنا ہو گا کہ اس گنجائش کا فائدہ اٹھایا جا سکے جو انقلابی بائیں بازو کے لیے موجود ہے اور بحران کی شدت کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے جدوجہد کے ہراول دستے میں رہنے کے ساتھ ساتھ ہمیں نہ صرف رجعتی حکومتوں کے خلاف بلکہ حکمران ڈھانچوں اور غدار قیادتوں کے خلاف بھی وسیع اور گہرے مطالبات اٹھانے ہوں گے اور جس نظام کے لیے ہم لڑ رہے اس کے اور انقلابیوں کو پھر سے منظم کرنے کی ضرورت کے حق میں پروپیگنڈا کرنا ہو گا۔“

Roznama Jeddojehad
+ posts