خبریں/تبصرے

ملک بھر کی کسان تنظیموں کا 21 مئی کو احتجاج کرنے کا اعلان

لاہور(جدوجہد رپورٹ)پاکستان میں گندم سکینڈل پر ملک بھر کی کسان تنظیوں کا اجلاس 9 مئی کو لاہور میں ہوا جس میں پنجاب، سندھ، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان سمیت ملک کے تمام حصوں سے کسانوں نے شرکت کی اورمطالبہ کیا کہ گندم سکینڈل میں ملوث بیورکریٹوں، امپورٹرز اور سابق کیئر ٹیکر وزیر اعظم انوار الحق کو فوری گرفتار کیا جائے۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری فاروق طارق نے گندم سکینڈل کے کلیدی کردار سابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی تاریخ کے سب سے بڑے زرعی سکینڈل میں پنجاب کے کسانوں کو جو نقصان پہنچا ہے اس کا فوری ازالہ کیا جائے۔

فاروق طارق نے مزید کہا کہ پاکستان میں اب تک اگست 2023 سے مارچ 2024 باھر سے 34 لاکھ ٹن گندم غیر ضروری طور پر امپورٹ کی گئی۔ اس امپورٹ پر 330 ارب روپے ضائع کئے گئے۔ امپورٹ ہونے والی گندم میں سے 13 لاکھ ٹن میں کیڑے پڑے ہوئے تھے۔ مضر صحت گندم امپورٹ کرنے والوں کے خلاف فوری کاروائی کی جائے۔

پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کی تجویز پر ملک بھر کی کسان تنظیموں اور تحریکوں نے یکجا ہو کر اس نا انصافی کے خلاف ایکشن لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کا اعلان کر دیا۔ اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ 21 مئی کو ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے اور مطالبات پورے نہ ہونے تک احتجاجی تحریک کو مزید تیز کر دیا جائے گا۔

پاکستان کسان اتحاد کے صدر ملک ذوالفقار اعوان نے کہا کہ گندم درآمد سکینڈل میں ملوث تمام ذمہ داران پر مقدمات بنا کر انہیں فوری گرفتار کیا جائے اور ان کے مقدمات نیب عدالتوں میں چلائے جائیں۔ گندم درآمد پالیسی جس کے ذریعیپرائیویٹ سیکٹر کو خرایداری کی اجازت دی گئی اس قانون کو ختم کیا جائے۔ کنٹرول ریٹ پر کھادیں اور ادویات نہ دینے والوں پر خصوصی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ چھ ملکوں سے یہ گندم 70 جہازوں میں اس وقت امپورٹ کی گئی جب سب کو معلوم تھا کہ اس سیزن میں پاکستان اور خاص طور پر پنجاب میں گندم پہلے سے زیادہ ایکڑز میں لگائی گئی ہے۔ مجموعی طور پر اس گندم کی امپورٹ پر ایک ارب دس کروڑ روپے اس وقت خرچ ہوئے جب پاکستان میں فارن ریزروز انتہائی کم رہ گئے تھے۔ ضرورت نہ ہونے کے باوجود گندم اس لئے امپورٹ کی گئی کہ پاکستان میں گندم کا سرکاری ریٹ عالمی ریٹس سے زیادہ تھا۔

کسانوں نے مشترکہ اعلامیے میں مطالبہ کیا کہ جعلی کھادوں اور اسپرے کے خاتمے کیلئے تحصیل سطح پر لیبارٹریز قائم کی جائیں۔ چھوٹے کاشتکاروں کو ادھار رقم دیکرپھر ناقابل برداشت سود وصول کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔ جبکہ حکومت کو ہر سال کسانوں سے گندم خریدنے کا پابند کیا جائے اور اس کیلئے باردانہ کی تقسیم زمین کی ملکیت کی بجائے کاشت کاری کی بنیاد پر یقینی بنایا جائے۔ گندم اور دیگر فصلوں کیلئے کم از کم سپورٹ پرائس کا اعلان کیا جائے۔

پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے رہنما میاں اشرف نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ منڈی کو ریگولیٹ کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ کسانوں کو ان کی پیداوار کے لیے نہ صرف گندم بلکہ تمام فصلوں کی مناسب قیمتیں ملیں۔ کسانوں کو کھلی منڈی کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑنا چاہیے جس کا فائدہ صرف بیوپاریوں کو ہوتا ہے جو کہ تاجر، زرعی کاروبار کارپوریٹ سیکٹر اور سرمایہ دار ہیں۔

سندھ ہاری تحریک کے رہنما ڈاکٹر دلدار نے کہا کہ گندم سکینڈل کی حقیقی تحقیق کے لئے فوری طور پر ایک کمیشن قائم کیا جائے اور کسان رہنماؤں کو حقیقی نمائندوں کو اس کا ممبر نامزد کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر قبضہ کرنا بند کیا جائے جبکہ بے زمین ہاریوں میں زمین تقسیم کی جائے۔

کسان رہنما طارق محمود نے کہا کہ اس نکتے پر بھی سوچنا ضروری ہے کہ 3200 روپے فی من درآمد شدہ گندم مارکیٹ میں 4300 روپے میں فروخت کرنے والی نجی شعبے کی 65 کمپنیوں کا سہولت کار کون ہے؟

کسان رہنماؤں نے کہا کہ عبوری حکومت کو کلیدی معاشی فیصلے کرنے کی تجویز موجودہ مسلم لیگی حکومت نے اپنے 16 ماہ کے اقتدار کے دوران دی تھی۔ جس کی ہم نے بھرپور مخالفت کی تھی۔ گندم سکینڈل کے بعد یہ طے کر لینا چاھئیے کہ آئندہ کبھی بھی کسی عبوری حکومت کو کلیدی معاشی فیصلے کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاھئیے۔

کسانوں نے مشترکہ اعلامیے میں کہا کہ کسان اب مزید استحصال برداشت نہیں کریں گے، اب دما دم مست قلندر ہوگا۔ ہم دنیا بھر کی کسان تحریکوں سے رابطوں میں ہیں اور پاکستان میں کسانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو عالمی سطح پر سامنے لایا جائے گا، اگر ہمارے مسائل حل نہ کیے گئے تو ایک بھر پور مزاحمتی تحریک چلائی جائے گی جسے دبانا حکومت کیلئے مشکل ہو جائے گا۔

Roznama Jeddojehad
+ posts