دنیا

رئیسی کی موت پر اہل ایران خوش، ملاکریسی کو دھچکہ

بابک کئیا

19 مئی کو صدر رئیسی کی ہیلی کاپٹر حادثے میں موت سے ایرانی نظام کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔موجودہ نظام میں،حقیقی طاقت رہبر ِاعلیٰ کے پاس ہے۔اہم ترین پالیسی ساز فیصلے رہبر اعلیٰ ہی لیتا ہے۔صدر کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے۔ صدر کا کام فیصلوں پر عمل درآمد کرانا ہوتا ہے۔

ہاں لیکن یہ بات بھی یاد رہے کہ صدر رئیسی بارے کہا جا رہا تھا کہ وہ 85 سالہ موجودہ رہبر اعلیٰ، علی خامنائی،کے جانشین ہوں گے۔اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ملا کریسی کو دھچکہ ضرور لگا ہے۔

اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جو قبیلے اقتدار اور دولت پر قابض ہیں،ان کے مابین تناو بڑھے گا اور دوسری جانب مستقبل کی عوامی تحریکوں کو شہ ملے گی۔

بلا شبہ رئیسی کی موت پر ریاست نے سرکاری سطح پر سوگ منانے کا اہتمام کیا۔28 جون کو موجودہ رژیم(regime) نیا صدر منتخب کرنے کی جلدی میں ہے۔قابل غور:جو بات زیادہ اہم ہے وہ یہ کہ رئیسی کی موت کا اعلان ہوتے ہی ملک بھر میں فوری طور پر جشن منائے گئے۔

تہران سے ساقیز تک (مہسہ امینی کا آبائی شہر)،لوگوں نے تقریباََ سر عام خوشی کا اظہار کیاگو رئیسی پر اب مقدمہ چلانا تو ممکن نہیں رہا۔

بچر آف تہران

رئیسی کے سی وی (CV) پر نظر دوڑائیں تو اندازہ ہو گا کہ لوگوں کو رئیسی اور اسلامی جمہوریہ سے اتنی نفرت کیوں تھی۔ اَسی کی دہائی میں رئیسی تہران میں ڈپٹی پبلک پراسیکیوٹر تھا۔خمینی کے حکم پر رئیسی نے کریک ڈاون شروع کیا۔دس ہزار سیاسی کارکن گرفتار کئے گئے۔ انہیں عراق جنگ کے اختتام پر پھانسی دی گئی۔

رژیم کی کوشش کی تھی ہر طرح کے اختلاف رائے کو مٹا دیا جائے،بالخصوص اس نسل کو راستے سے ہٹا دیا جائے جس نے شاہ ایران کی آمریت کو بھی للکارا مگر اسلامی جمہوریہ کی آمریت کی بھی مخالفت کی۔

رئیسی ڈپٹی پراسیکیوٹر ہی نہیں،جلاد بھی تھا۔جبر کی اس لہر میں جو لوگ بچ گئے،ان کا کہنا تھا کہ رئیسی نے بعض سیاسی مخالفین کواپنے ہاتھ سے موت کے گھاٹ اتارا۔

1988 میں پھانسیوں کی جو لہر چلی،ان کی وجہ سے رئیسی کو بچر آف تہران کا لقب ملا۔

حال ہی میں بطور صدر رئیسی نے اخلاقی پولیس کر پھر سے متحرک کیا۔خواتین کو ہراساں کرنے،مہسہ امینی کی موت،’زن، زندگی،آزادی‘تحریک کے خلاف جبر کی براہ راست ذمہ داری رئیسی پر لاگو ہوتی ہے۔رئیسی نے ٹریڈ یونین قائدین،ماحولیات کے لئے کام کرنے والے کارکنوں،انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے کارکنوں،خواتین حقوق کے لئے کام کرنے والوں،بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والوں اور فنکاروں کو زندان میں ڈالا۔رئیسی کا معاشی و سماجی ریکارڈ شرمناک ہے۔افراط ِزر 70 فیصد ہے۔60 فیصد آبادی غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔دوسری جانب،حکمران اور پاسدارانِ انقلاب اور ان کے رشتہ دار دن بہ دن امیر سے امیر تر ہو رہے ہیں۔

عالمی رہنماوں کی جانب سے اظہار یکجہتی

یہ بات سمجھنا زیادہ مشکل نہیں کہ رئیسی کی موت پر کوئی بھی آنسو نہیں بہا رہا۔۔۔ما سوائے اعلیٰ سرکاری شخصیات کے،یا پھر اس رژیم کے علاقائی اتحادی رنجیدہ ہیں۔کچھ یورپی ریاستوں کو بھی دکھ پہنچا ہے۔ خطے کی کچھ ریاستوں کو بھی دکھ ہوا جنہوں نے ترکی کی طرح رئیسی کو زندہ ڈھونڈنے میں مدد کی پیشکس کی تھی۔اور تو اور ناٹو نے بھی تعزیت کی ہے۔۔۔جب کسی سربراہِ ریاست کی جان بچانے کا معاملہ ہو تو تمام تر اختلافات بھلا کر عالمی رہنما یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔

اہل ایران مگر کبھی بھی یہ نہیں بھولے کہ جب ایران کے عوام قدرتی آفات یا موجودہ رژیم کے ہاتھوں ہزاروں کی تعداد مین لقمہ اجل بن رہے تھے تو کسی عالمی یا علاقائی رہنما کے کان پر جوں نہیں رینگی۔

لوگوں کو یورپی یونین کی مجرمانہ امیگریشن پالیسی بھی نہیں بھولی۔ جب ایران کی اس آمریت سے فرار ہو کر لوگ یورپ پہنچتے ہیں تو انہیں سیاسی پناہ تک نہیں ملتی۔

اسلامی جمہوریہ کے خلاف جدوجہد میں اہل ایران کسی پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں ماسوائے اپنے قوت بازو پر اور اس عالمی یکجہتی پر جو دنیا بھر کے عام لوگ اس جدوجہد سے رکھتے ہیں۔

Roznama Jeddojehad
+ posts