پاکستان

جموں کشمیر: ایک شاندار تحریک اور ریاستی الزام تراشی

راشد نعیم

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر بھر میں تقریباً 2019 سے ایک تسلسل کے ساتھ عوام کی بڑی تعداد،جس میں تمام تر مکاتب فکر کے لوگ،سیاسی کارکنان،طلبہ،مزدور،تاجر،ٹرانسپورٹ ورکرز اور دیگر شعبہ جات کے لوگ شامل ہیں، ایک بنیادی حقوق کی تحریک میں سرگرم ہیں۔ یہ تحریک گزشتہ چار پانچ سالوں سے کئی بار انتہائی متحرک ہو کر باوجوہ غیر متحرک ہو جاتی رہی،لیکن 2023 کے مئی میں اس تحریک نے راولاکوٹ سے ایک نئی کروٹ لی اور پر امن جدوجہدکے عہد کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے منظم ہونا شروع کیا۔ اس تحریک نے ثابت کیا کہ اگر سمت کا تعین کر لیا جائے اور گاؤں محلے تک تحریک کو منظم کر لیا جائے تو کسی چھوٹے سے خطے کی تحریک بھی دنیا کی شاندار تحریکوں کی تاریخ میں اپنا نام درج کروا سکتی ہے اور فتح کے جھنڈے گاڑ سکتی ہے۔ پورے ایک سال کی اس تحریک نے 13 مئی 2024 کو دنیا بھر کی فتح یاب تحریکوں میں اپنا نام سر فہرست لکھوایاہے۔

جموں کشمیر کی اس تحریک نے ہر تحریک کی طرح ریاست کی طرف سے ان گنت الزامات، متحرک کارکنانِ تحریک کے خلاف جبر کی بے انت کوششوں، قید و بند کی صعوبتوں،حتیٰ کے جانوں کی قربانی سے فتح حاصل کی، لیکن مظلوم اور ظالم کے نظام پر مبنی ریاست مظلوموں کی فتح نہ صرف ہضم کرنے سے قاصر ہوتی ہے،بلکہ وہ نئی حکمت عملی کے ساتھ مظلوم عوام کی اس تحریک کے خلاف سازشوں میں مصروف ہو جاتی ہے۔ ایسا ہی چیلنج اس وقت جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے پلیٹ فارم سے منظم تحریک کو بھی درپیش ہے۔

جموں کشمیر کی موجودہ تحریک نے ایک سال میں کئی ایک سرگرمیاں انجام دیں۔نصف درجن بار پورا پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر بند کیا،کئی ایک ریاستی کریک ڈاؤن برداشت کیے،11 مئی کے لانگ سے قبل 8 مئی کومیرپور ڈویژن،جہاں سے مارچ کا آغاز ہونا تھا،سے رات کی تاریکی میں سرگرم کارکنان کو گھروں سے اٹھا کر جیلوں میں بند کر دیا گیا۔اس کے رد عمل میں پورا خطہ گھروں سے نکل آیا اور 6 دن تک ریاست کے وجود کو سرے سے مٹا دیا۔یوں ریاست کی نگرانی کرنے والی مقتدر قوتیں حرکت میں آئیں اور پہلے پہل جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ممبران کو 12 مئی کو پھر سے بلا کر ایک لولی پاپ دینے کی کوشش کی،جس کے مسترد ہونے پر مارچ میں مزید شدت آ گئی۔ 13 مئی کو جب حالات کسی کے بھی کنٹرول میں نہ رہے اور مارچ کی شدت اس قدر زیادہ ہو گی کہ لگتا تھا اگر تحریک کے چارٹر آف ڈیمانڈ کو تسلیم نہ کیا گیا تو سب کچھ جل کر بھسم ہو جائے گا۔ تب ریاست نے مارچ کو کنٹرول کرنے کے لیے ریاست میں موجود پولیس فورسز، پاکستانی وفاق سے آئی ایف سی،پی سی وغیرہ کو ناکافی دیکھ کر رینجرز کی نفری طلب کی۔رینجرز کے جموں کشمیر میں داخل ہونے پر مزاحمت کی نئی تاریخ رقم کی گئی اور مظفرآباد کے شہریوں نے میزبانی کا حق اپنا خون دے کر اداکیا۔ ایسے حالات میں ریاست کے پاس گھٹنے ٹیکنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا اور تحریک کے 10 بنیادی مطالبات میں سے دو مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے ان کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا،جبکہ تیسرے مطالبے کو جوڈیشل کمیشن کے قیام تک نوٹیفائی کر دیا۔ ساتھ ہی مذاکراتی کمیٹی سے تحریک کے جملہ اسیران کی رہائی اور مقدمات کی واپسی کا بھی عہد کیا گیا،لیکن 13 مئی کے عہد نامے کے باوجود تاحال تحریک کے اسیران جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔

اس وقت صورت حال یہ کہ جیسے ریاست نے یہ طے کر لیا ہے کہ ایک طرف جموں کشمیر کے شہریوں سے اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی پاداش میں ہرطرح کے انتقام کو کیسے ممکن بنایا جائے اور ساتھ ہی ساتھ ان شہریوں کو ملنے والے ریلیف کو کس طرح سے واپس لیا جائے۔ اس ساری صورتحال میں جس حقیقت کو دیکھنا مقصود ہے،وہ یہ ہے کہ کیا جموں کشمیر کے وسائل سے خطے کی عوام کو کوئی بہتر معاشی نظام دیا جا سکتا ہے،جس کا جواب جاری تحریک ہاں میں دیتی ہے۔ آئیے جموں کشمیر کے دستیاب وسائل پر مختصر نظر ڈالتے ہیں:

اس وقت پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کے پاس آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ غیر ملکی ترسیلات زر ہیں، جس کا تخمینہ تقریباً پانچ ارب ڈالر لگایا جاتا ہے،جو کہ 1200 ارب روپے کے لگ بھگ بنتا ہے۔ ہمارے بڑے بھائی کے سرکاری سہولت کار یہ جتانے میں کافی ہلکان ہوئے جا رہے ہیں کہ خطہ کی کل آمدن پچاس ارب روپے کے قریب ہے اور بڑا بھائی اس کو 232 ارب روپے کے بجٹ کا انتظام کر کے دیتا ہے،جس سے خطے کے لوگوں کا گزر بسر ہوتا ہے۔تحریک کا مطالبہ ہے کہ جموں کشمیر کے ساتھ ایک منصفانہ اور شفاف مالیاتی اور بنکاری نظام کا معاہدہ کیا جائے،جس کے تحت بیرون ملک سے آنے والے اس زر مبادلہ کے ذریعے ایک مستند قسم کا ڈویلپمنٹ پروگرام متعارف کرایا جائے تاکہ لوگوں کا معیارِ زندگی بہتر بنایا جاسکے۔

تحریک کے اہم مطالبہ یعنی سستی بجلی اور بجلی کے تمام پیداواری یونٹس کے حق ملکیت سمیت نیشنل گرڈ کا قیام وغیرہ تھا۔ اس مطالبے کو درست طور پر تسلیم کیے جانے سے اور اس پر مکمل عملدرآمد کے بعد اگر اس خطے کی آمدن کا اندازہ لگایا جائے تو اس وقت اس خطہ سے 3 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے،جبکہ واپڈا محض 3 سو میگاواٹ بجلی اس خطہ کی ضرورت کے مطابق اسے فراہم کرتا ہے۔اس 3 سو میگاواٹ کی قیمت مقامی حکومت کی تحریک کی قیادت کو دی جانے والی بریفننگ کے مطابق 5 ارب 24 کروڑ بنتی ہے،جبکہ مالی سال 2023-24 میں ٹیرف ڈیفرنشیل کے نام پر 80 ارب روپے مقامی حکومت کی گرانٹ سے منہا کر لیے جاتے ہیں۔یوں 3 سو میگاواٹ کی قیمت بلات کی صورت میں 85 ارب روپے سے زیادہ بنتی ہے۔ جن بلوں کی قیمت میں کمی ہوئی ہے اس سے مقامی حکومت کی آمدن میں فرق پڑنا تھا، جبکہ 2024-25 کے مالی سال میں یہ ٹیرف ڈیفرنشیل 80 ارب کی بجائے 108 ارب روپے ہو گیا ہے،یعنی بل کم ہونے کے باوجود مقامی حکومت کے لیے بجلی مہنگی ہو گئی ہے۔ اگر 3 سو میگاواٹ بجلی کی قیمت 85 ارب اور اب 113 ارب روپے ہو گئی ہے تو پھر 3 ہزار میگاواٹ کی 1130 ارب روپے بنتی ہے۔

حالیہ تحریک کا ایک اور مطالبہ اشیاء خوردونوش اور آٹے کی قیمت کی کمی پر مبنی تھا،جس کا تعلق بالواسطہ ٹیکسیشن اور منگلا جھیل کے پانی کی قیمت سے متعلق تھا۔یہ خطہ تقریباً دو ارب ڈالر کی سالانہ درآمدات کرتا ہے،جو 5 سو ارب روپے سے زیادہ ہیں،جن پر ریاست کا ہر شہری تقریباً ایک سو ارب روپے سے زائد کے ٹیکس ادا کرتا ہے،جبکہ منگلا جھیل میں جمع پانی بھی اپنی ایک بڑی قیمت رکھتا ہے۔اگر ایک شفاف اور بین الاقوامی اور پاکستان کے اپنے قانون کے تحت معاہدے کے تحت ان وسائل اور ٹیکسز کی کل آمدن مقامی حکومت کے حوالے کر دی جائے تو یہ آمدن بھی اس حکومت کے بجٹ سے تجاوز کر جاتی ہے۔

تحریک کے 11 میں سے ایک مطالبہ جموں کشمیر بنک کو شیڈول بنک کا درجہ دے کر ریاست میں قائم تمام پبلک اور پرائیویٹ بنکوں کی برانچوں کو اس کے کنٹرول میں دینا تھا،جس سے ایک طرف ترسیلات زر کو زر مبادلہ کی شکل میں محفوظ رکھنا ممکن ہوتا،تو دوسری طرف خطے کے لوگوں کی تقریباً700ارب روپے کی جمع پونجی جو ڈیپازٹ کی شکل میں اس خطے میں قائم 530کے لگ بھگ برانچوں میں موجود ہے، اس کا 25 فیصد قانونی طور پر خطے کی تعمیر و ترقی کے لیے قرضوں کی شکل میں فراہم کیا جا سکتا ہ، جو بنکاری نظام کی قانونی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ان قرضوں کا حجم تقریباً 175 ارب روپے بنتا ہے، جبکہ اس خطہ میں محض 15 ارب روپے کار فنانسنگ اور ہاؤس بلڈنگ کے طور پر قرضے دئیے جاتے ہیں۔ دوسری طرف 160 ارب کے یہی قرضے پاکستان میں کارپوریٹ سیکٹر کو مہیا کیے جاتے ہیں،جس کا مروجہ طریقے سے پاکستان کے عوام کو بھی کوئی فاہدہ نہیں ہو رہا ہے۔ پاکستان میں دئیے جانے والے تمام تر بڑے قرضے اجارہ دار وں اور سرمایہ دار وں کو دئیے جاتے ہیں،جن کے معاہدے اتنی ناقص شرائط پر ہوتے ہیں کہ ریاست کو کچھ فاہدہ ملنے کی بجائے قرضوں کی اصل رقم بھی یورپ اور دوسرے مغربی ممالک کو شفٹ ہو جاتی ہے۔

محکمہ جنگلات کے پروموشن کے لیے بھی تحریک کا ایک مطالبہ چارٹر آف ڈیمانڈ میں شامل تھا۔ اس وقت بھی خطہ میں وسیع جنگلات موجود ہیں۔ایک غیر فعال محکمہ کی موجودگی میں یہ شعبہ تباہی کے دہانے پر ہے،لیکن اس کی مناسب دیکھ بھال سے اسے بہت بڑی آمدن کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔ سیاحت خطہ کی آمدن کا بہت اہم ذریعہ ہے اور اس شعبہ میں بہتری کی بہت ہی بڑی گنجائش موجود ہے۔مدنی ذخائر خطے کی آمدن میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں۔محض دو تین ارب روپے کے بجٹ سے لائیو سٹاک کے شعبہ کے ذریعے حکومت کی آمدن میں محض چند سالوں میں بے حد اضافہ کیا جا سکتا ہے۔زراعت کے شعبہ خصوصاً خطے کے شمالی حصہ میں باغبانی کے ذریعے سبزیوں اور پھلوں میں خود کفیل بنا جا سکتا ہے،بلکہ اس سے خطے کی آمدن میں بھی بے پناہ اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

یہاں ہمیں ایک بات ذہین میں رکھنی ہو گی کہ اگر جموں کشمیر کے یہ تمام وسائل اگر پاکستان کو روشن کرنے،اسے ترقی یافتہ بنانے کے لیے قربان کر دئیے جائیں تو بھی ماضی کی طرح ان وسائل سے پاکستانی معاشرے کی بہتری کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں،کیونکہ ایک تو پاکستان کی آبادی 25 کروڑ ہے،دوسرے نہ صرف سرمایہ دارانہ نظام بلکہ تین سو سالہ رائج نو آبادیاتی نظام ترقی کی ہر صلاحیت سے عاری ہو چکا ہے۔دوسری طرف جموں کشمیر میں اس وقت 25 سے 30 لاکھ افراد اس معاشی جبر میں سسک رہے ہیں اور تقریباً 15 تا 20 لاکھ افراد معاشی جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔اگر اوپر درج وسائل کو محض ایک شفاف اور انسان دوست معاہدے کے تحت اس خطے کے لوگوں کی فلاح کے لیے استعمال میں لایا جائے تو یہ خطہ محض ایک عشرے میں صحیح معنوں میں عہد حاضر کی جدید ریاست بن سکتا ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اس وقت یہ خطہ بھی کچھ بین الاقوامی مسائل سے دو چار ہو چکا ہے،جن کا حل محض نئے پیداواری رشتے اور ایک متبادل نظام میں ہی مضمر ہے۔ ان مسائل میں سب سے شدید مسئلہ ماحولیاتی تبدیلی کا بھی شامل ہے۔

حالیہ تحریک نے اب تک جو سب سے بڑی کامیابی حاصل کی ہے، وہ عام عوام کا وسیع اتحاد ہے۔ اس تحریک کا ایک اہم سبق ہے کہ اگر عوام کے پاس درست سمت،واضح حکمت عملی اور درست طریقہ کار موجود ہو اور ان کے سامنے اہداف اجتماعی ہوں،تو وہ جی جان سے اس کے لیے لڑنے کے لیے نہ صرف تیار ہیں بلکہ وہ دنیا کی ہر رکاوٹ کو پاش پاش کرتے ہوئے ہر جیت کو ممکن بنانے کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔یہ تحریک میں سرگرم سیاسی شعور رکھنے والے کارکنان کی ذمہ داری کہ وہ سستی بجلی اور سستے آٹے کے حصول کے لیے اورمکمل چارٹر آف ڈیمانڈ پر عملدرآمد کے لیے عوام کے شعور کو ایک سمت دیں تاکہ آنے والی نسلیں روزی روٹی کی تلاش سے آگے بڑھ کر اپنے مستقبل کی تعمیر میں کردار ادا کریں۔

Roznama Jeddojehad
+ posts