فاروق سلہریا
برطانوی لیگ ہو یا ہسپانوی، مجھے فٹبال کلبوں میں کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ہاں البتہٰ میں فٹبال کا ورلڈ کپ ضرور دیکھتا ہوں۔اسی طرح،گذشتہ بیس سال سے یورپی کپ کا کوئی میچ ہی ہو گا جو نہیں دیکھا۔
دو سال پہلے،قطر میں ہونے والا واحد ورلڈ کپ تھا جس کا بائیکاٹ کیا۔ وہاں مزدوروں کے ساتھ جو ہوتا ہے یا میڈیا میں جب یہ خبریں چلیں کہ فٹبال سٹیڈیم بناتے ہوئے سینکڑوں جنوب ایشیائی مزدور جان سے گئے، تو مجھے لگا کہ ورلڈ کپ دیکھنا ممکن نہیں۔
اس وقت یہ جان کر مزید خوشی ہوئی کہ یورپ کی کم از کم سات ٹیمیں ایسی تھیں جو مزدور نہ سہی،ایل جی بی ٹی افراد سے یکجہتی کے لئے احتجاج ریکارڈ کرائیں گی۔
قارئین کو یاد ہو گا کہ فیفا نے ورلڈ کپ کے دوران ایسی علامات پر پابندی لگا دی جن سے ایل جی بی ٹی سے اظہار یکجہتی کیا جا سکتا تھا۔ مجھے جرمنی کے ریاستی خبر رساں ادارے ڈوئچے ویلے کی رپورٹ یاد ہے جس میں سوین کرسٹر (Sven Christer)بارے بتایا گیا جس نے ورلڈ کپ کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا۔
کرسٹر ایل جی بی ٹی حقوق کے لئے کام کرتا ہے اور فٹبال کا زبردست فین ہے۔
ورلڈ کپ شروع ہوا تو جرمن ٹیم کی مندرجہ بالا تصویر دنیا بھر میں توجہ کا مرکز بنی۔ جاپان کے خلاف میچ سے پہلے جرمن ٹیم نے منہ پر ہاتھ رکھ کر احتجاج ریکارڈ کرایا۔ اس احتجاج کے بعد جرمن فٹبال ایسوسی ایشن کی جانب سے اعلان کیا گیا:”ہم سیاسی بیان نہیں دے رہے۔۔۔انسانی حقوق پر سودے بازی نہیں ہو سکتی۔“
اکتوبر سے غزہ میں قتل عام ہو رہا ہے۔ جرمنی میں فلسطین کے حق میں مظاہرہ کرنے پر بھی پابندی ہے۔ جرمنی کی ٹیم یورپی کپ کے سوپر ایٹ کے مرحلے میں پہنچ گئی ہے جو ہفتے کے روز سے شروع ہو رہا ہے۔ ممکن ہے جرمنی فائنل تک بھی پہنچ جائے۔ میں اس انتظار میں ہوں کہ جرمن ٹیم کس دن غزہ میں انسانی حقوق کے حوالے سے،کسی میچ سے پہلے منہ پر ہاتھ رکھ کر احتجاج ریکارڈ کراتی ہے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔