محمد اکبر نوتزئی
کوئٹہ کی سریاب روڈ، جو کبھی دہشت گردانہ حملوں اور دھماکوں کیلئے مشہور تھی، گزشتہ کئی سالوں کے دوران وہاں مثبت تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔
مثال کے طور پر سڑک کو سنگل روڈ سے ڈبل کیریج وے میں تبدیل کرنے کے لیے تعمیر کیا جا رہا ہے۔ پچھلے کئی سالوں کے دوران اس بدنام زمانہ سڑک پر متعدد شاپنگ مالز کھلے ہیں، جن میں خاص طور پر خواتین کی آمدورفت اچھی ہے۔
النوید شاپنگ مال بھی ایسا ہی ایک ڈھانچہ ہے،جو بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کی اس سڑک پر بنا ہوا ہے۔ امجد بلوچ نامی ایک نوجوان مجھے اس مال کے اندرپہلی منزل کے ایک کونے میں واقع ایک چھوٹی سی دکان کی طرف لے گیا۔ اندر روشنی کے داخل ہونے کی واحد جگہ آدھے بند بلائنڈز تھے۔ دیواروں پر قطاروں میں کتابوں سے بھری الماریاں نصب ہیں اور ایک خوبصورت کاؤنٹر ہے، جو کافی جگہ گھیرتا ہے۔
امجد اس جگہ کو ریڈرز کلب کہتے ہیں، جوانہوں نے حال ہی میں 11 ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کرقائم کیا ہے۔
میں نے امجد سے روشنی آن کرنے کو کہا تاکہ میں اس خوشگوار چھوٹی سی پناہ گاہ کی تصویر بنا سکوں۔ امجد نے چھت کی سیلنگ اور دیواروں میں ساکٹوں سے لٹکی سرخ تاروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہاں بجلی ہی نہیں ہے۔
امجد راہداری کی لائٹس آن کروانے کی درخواست کیلئے ساتھ والی دکان پر چلے گئے، تاہم ان کی درخواست کو یہ بتاتے ہوئے رد کر دیا گیا کہ بجلی بند ہے اور مال کو جنریٹر پر چلایا جا رہا ہے۔
امجد بے خوف ہیں اور ان کی زندگی کبھی بھی آسان نہیں رہی۔ ایک نچلے درجے کے ملازم کے طورپر اپنے والد کی محدود تنخواہ پر8بہن بھائیوں کے ساتھ پرورش پانے والے امجد ہمیشہ نئے مواقعوں اور جگہوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ان کے دو بھائیوں نے تو تعلیم بھی ترک کر دی اور کم عمری میں ہی معمولی ملازمتیں کرنا شروع کر دیں۔
تاہم وہ ہمیشہ ایک مختلف سمت میں جاتے ہیں۔ جب وہ آٹھویں جماعت کے طالبعلم تھے، تب کیچی بیگ کے علاقے میں اپنے سکول کی لائبریری کی طرف گئے۔ وہ اپنے ریڈرز کلب کے فرش پر بیٹھے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’مجھے تب سے پڑھنے میں دلچسپی ہے۔ میرا شوق اس مقام پر پہنچا جہاں میں نے اپنے سکول کے زمانے میں علی عباس جلالپوری اور سبط حسن کے تمام تحریری کام پڑھے۔“
تھوڑا تھوڑا کرکے امجد نے کتابیں خریدنے کے لیے اپنا جیب خرچ استعمال کیا، اور اس مقام پر پہنچ گئے جہاں انہوں نے گھر کے ایک کمرے کو لائبریری میں تبدیل کردیا۔ وہ اس وقت بھی سکول میں تھے۔
وہ یاد کرتے ہیں کہ ”اس وقت میری ذاتی لائبریری میں 150کتابیں تھیں۔ کالج میں داخلہ لینے کے بعد انہوں نے چند دوست بنائے جو پڑھنے کے بھی شوقین تھے۔ امجد کے یونیورسٹی پہنچنے تک ان کی تعداد ایک درجن تک پہنچ گئی۔
امجد کا کہنا ہے کہ اس راستے میں اسکول اور کالج میں ان کے گریڈز کو نقصان پہنچا، کیونکہ وہ کورس کی کتابوں کے مقابلے اپنی خوشی کے لیے کتابیں پڑھنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ”میرے خیال میں اس کی وجہ یہ تھی کہ میں ان کتابوں کے لیے درکار روٹ لرننگ فارمولے کی بجائے تصوراتی طور پر کتابوں کو سمجھنا چاہتا تھا،جو میرے نصاب کا حصہ تھیں۔“
اگرچہ ان کے گریڈزاچھے نہیں تھے، لیکن ایسا لگتا تھا کہ وہ صحیح راستے پر ہے۔ امجد اس وقت ایک یونیورسٹی میں فلسفہ پڑھ رہے ہیں، بلا شبہ جلالپوری اور بہت سے دوسرے لوگوں کے کاموں میں گزری کئی راتوں سے متاثر ہیں۔
برسوں کے دوران امجد اور ان کے دوستوں نے کتابیں پڑھنے اور بات چیت کرنے کی عادت کو برقرار رکھا۔ سریاب روڈ کے اسی علاقے میں ان کے پسندیدہ اڈوں میں سے ایک لوری کریز تھا، جہاں طلبہ نے صحت کی دیکھ بھال کی ایک ترک شدہ سہولت کو عارضی لائبریری میں تبدیل کر دیا تھا۔
جب امجد اور میں دکان پر تھے، ہمارے ساتھ ریڈرز کلب کے شریک بانیوں میں سے ایک عابد بلوچ اور اس گروپ کے بقیہ 10 ممبران بھی ساتھ تھے۔
جب میں نے ان سے ریڈرز کلب کے قیام کے خیال کے بارے میں پوچھا تو ان کے جوابات میں ایک مشترک قدر موجود تھی۔ یہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ خواتین کو بھی سہولیات فراہم کی جائیں، جو سماجی پابندیوں کی وجہ سے اکثر لائبریری تک نہیں جا پاتیں، تاکہ وہ لائبریریوں میں آئے بغیر بھی کتابوں سے لطف اندوز ہو سکیں۔
کتابوں کی کمپنی میں
ریڈرز کلب میں تقریباً 2000 کتابیں ہیں، جن میں زیادہ تر قومی اور بین الاقوامی امور، بلوچستان اور پاکستان کی تاریخ، اور بلوچ اور براہوی ادب کے ساتھ ساتھ فلسفہ اور افسانے پر کتابیں ہیں۔ یہ کلب فیس بک اور واٹس ایپ سمیت سوشل میڈیا کے دوسرے ذرائع کا استعمال کرتا ہے،تاکہ لوگوں کو نئی آمد کے بارے میں آگاہ کیا جا سکے اور ساتھ ہی دستیاب کتابوں کی فہرست بھی شیئر کی جا سکے۔
جب کسی کتاب کی درخواست کی جاتی ہے، تو لڑکے اسے سائیکلوں اور موٹر سائیکلوں پر خود پہنچا دیتے ہیں، پڑھنے والے سے ایک پیسہ بھی نہیں لیا جاتا ہے۔ امجد کا کہنا ہے کہ ایک ماہ کے اندر کوئٹہ میں ان کے پڑھنے والوں کی تعداد بڑھ کر 1,000 ہو گئی ہے۔
کلب اعتماد کی بنیاد پر کام کرتا ہے، کتاب لینے والے سے ایک ماہ کے اندر کتاب واپس کرنے کی امید ہے۔ اگر کوئی کتاب واپس نہ کر سکے تو اسے بلیک لسٹ کر دیا جاتا ہے۔ امجد کہتے ہیں کہ ”ہمارے پاس کوئی کتاب چور نہیں ہے، حالانکہ دو لوگوں نے وہ کتابیں واپس نہیں کیں جو انہوں نے ادھار لی تھیں۔“
ا
مجد اور ان کے دوستوں کے لیے خوشی کی بات یہ ہے کہ کتابوں کی تقریباً نصف درخواستیں خواتین کی جانب سے کی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک سدرہ بلوچ ہیں، جو اس اقدام کی بدولت اب باقاعدہ قاری ہیں۔
سدرہ نے فون بات کرتے ہوئے بتایا کہ”میں بھی زیادہ تر لوگوں کی طرح فیس بک کے ذریعے ریڈرز کلب سے ملی۔ سدرہ کہتی ہیں کہ وہ اپنا زیادہ تر وقت اپنے سیل فون کے استعمال میں گزارتی تھیں، پڑھائی مکمل کرنے کے بعدانہوں نے کتابیں پڑھنے کا سلسلہ تقریباً پچھلی نشستوں پر ڈال دیا تھا۔ اس میں ایک اہم عنصر لائبریری تک رسائی کا فقدان تھا، خاص طور پر سریاب روڈ پر رہنے والی ایک خاتون کے طور پر۔
سدرہ نے جو پہلی کتابیں ادھار لی اور پڑھی ان میں سے ایک مقامی افسانہ نگار آغا گل کی ’بولان کے آنسو‘تھی۔ اس کے بعد انہوں نے یہ سلسلہ جاری رکھا۔ اس تصنیف نے ان میں اپنے صوبے اور اسکی تاریخ کے بارے میں پڑھنے کی ان کی دلچسپی کو مزید بڑھاوا دیا۔ انکا کہنا ہے کہ ”ریڈرز کلب میں آنے کے بعد میں نے دوبارہ پڑھنا شروع کردیا ہے، اور میں ایک بار پھر کتابوں کی صحبت سے لطف اندوز ہو رہی ہوں۔“
ایک کمیونٹی کی تعمیر
امجد اور ان کے دوست ان کتابوں کو اپنے قارئین سے کوئی رقم لیے بغیر خریدتے اور پہنچاتے رہے ہیں، لیکن طلبہ کے لیے اس طرح کے اقدام کی مالی اعانت آسان نہیں ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ انہوں نے کلب کی بنیاد منافع کے لیے نہیں رکھی، بلکہ پڑھنے کے کلچر اور کتابوں سے محبت کو تقویت دینے کے لیے رکھی ہے۔ ان کے لیے کم از کم اس وقت سبسکرپشنز اور ممبرشپ غیر ضروری پیچیدگیاں ہیں۔لیکن انہیں غیر متوقع ذرائع سے حمایت ملی ہے۔
ان نوجوانوں کو موجودہ مقام تک پہنچنے کیلئے اپنے کلب اور کتابوں کو کئی جگہوں پر منتقل کرنا پڑا۔ امجد کہتے ہیں کہ ”یہ اس لئے تھا کہ ہم کرایہ برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ اس دکان کے مالک نے کرایہ نہ لے کر ہمارا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔“
اسی طرح وہ مزید کہتے ہیں کہ مصنفین سمیت مختلف لوگ کتابیں بھی عطیہ کرتے رہے ہیں۔ دریں اثنا امجد اور ان کے دوست کتاب ادھار لینے والے کے مقام کے لحاظ سے آپس میں پک اینڈ ڈراپ کا انتظام کرتے ہیں۔
ایسا ہی ایک کتاب ادھار لینے والا ایک آدمی ہے جس کا بازو کٹا ہوا ہے، جو ایک گیراج میں کام کرتا ہے۔ امجد یاد کرتے ہیں کہ ”جب وہ کتاب کی خواہش کرتے تھے، تو ہمیشہ کی طرح ہم اسے ان تک پہنچانا چاہتے تھے۔اس کی بجائے وہ سریاب روڈ پر کلب آئے اور انہوں نے کہا کہ یہ کتاب کے احترام کیلئے کر رہے ہیں۔“
امجد نے مزید کہا کہ یہ ایسی متاثر کن کہانیاں ہیں جو دوستوں کو اپنا کام جاری رکھنے میں مدد کرتی ہیں۔
ان کا ارادہ ہے کہ وہ کلب چلانا جاری رکھیں گے اور پڑھنے کی اپنی بھوک کو پورا کریں گے۔ مستقبل میں وہ ایک استاد بننا چاہتے ہیں، تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ طلبہ اور کلاس رومز تک پڑھنے اور سیکھنے کی خوشی پہنچا سکیں۔
(بشکریہ: ڈان، ترجمہ: حارث قدیر)