الیاس خان
کہتے ہیں تاخیر سے مرتب ہونیوالی تاریخ زیادہ مستند ہوتی ہے۔ کیونکہ حکمران طبقے کے حاشیہ بردار اور بکاؤ و ضمیر فروش دانشور حقائق چھپا کر اور اصل حالات و واقعات کو مسخ کر کے قلم زن کرتے ہیں تاکہ حکمران اشرافیہ اور ان کے نظام کے مفادات کا تحفظ کیا جائے۔ لیکن خوشبو اور سچ صدا چھپ نہیں سکتے۔ لہٰذا ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ماضی کے چھپائے اور مسخ کیے گئے حقائق اور واقعات اپنی اصل اور حقیقی شکل میں منظر عام پر آ جاتے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی و سماجی تاریخ میں 5 جولائی 1977ء کو بزدل ترین، جھوٹے اور منافق جنرل ضیا الحق نے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو امریکی سی آئی اے کی ایما پر معزول کر کے قومی اسمبلی توڑ دی۔ بعد ازاں 4 اپریل 1979ء کو بھٹو کو ایک جھوٹے مقدمہ قتل میں بذریعہ عدالت سولی پر چڑھا دیا۔ یہ ایک ہی سلسلہ کی وارداتیں تھیں۔ لیکن اس صورتحال کا عمیق جائزہ ہی حقائق کا پردہ چاک کرے گا۔ بدیں وجہ 1970ء کی دہائی میں ایشیا بالخصوص پاکستان، افغانستان اور ایران وغیرہ میں ابھرتی ہوئی سوشلسٹ انقلاب کی تحریکوں اور بالعموم خطہ عرب سمیت پوری دنیا میں پھیلی سامراج مخالف بغاوتوں کا تجزیہ ضروری ہے۔ جنہوں نے نہ صرف مغربی سامراج بلکہ سوویت یونین کی سٹالنسٹ بیوروکریسی کے بھی کان کھڑے کر دئیے تھے۔
69-1968ء میں پاکستان میں ایوب خان آمریت کی انتہائی استحصالی سرمایہ دارانہ پالیسیوں کے خلاف محنت کشوں کی وسیع انقلابی تحریک پھوٹ پڑی تھی۔ اس سے ایک سال قبل ہی 30 نومبر 1967ء کو ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تھی اور پارٹی کا تاسیسی پروگرام (منشور) تیار کر کے محنت کش طبقے کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ جس کا لب لباب یہ تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی حصول اقتدار کے بعد پاکستان میں سرمایہ دارانہ نظام معیشت اکھاڑ کر سوشلسٹ معیشت کا نفاذ کرے گی۔ نیز تمام ریاستی امور اور ملکی انتظام و انصرام محنت کش طبقہ کے تربیت یافتہ اجتماعی ہاتھوں میں دے کر استحصال سے پاک معاشرے کا قیام عمل میں لائے گی اور امریکہ اور دیگر سامراجی قوتوں سے پاکستانی سیاست اور معیشت کو آزاد کرائے گی۔ پیپلز پارٹی کی بنیادی دستاویز جیسا ریڈیکل پروگرام پاکستان میں کمیونسٹ جماعتوں سمیت کسی اور سیاسی جماعت کے پاس نہیں تھا۔ چنانچہ اس دلکش منشور نے ذوالفقار علی بھٹو کو قائد عوام بنا دیا اور انتہائی قلیل عرصہ میں پیپلز پارٹی ملک کی مقبول ترین جماعت بن کر ابھری۔ 1970ء کے عام انتخابات میں مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی بھاری اکثریت سے الیکشن جیت گئی اور ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے۔ لیکن پھر حصول اقتدار کے بعد تحریک کو جمہوری رد انقلاب کی نذر کرنے کی ایک علیحدہ اور طویل داستان ہے۔ عوامی دباؤ کے پیش نظر ذوالفقار علی بھٹو نے کچھ اصلاحی اقدامات کیے۔ لیکن سوشلسٹ انقلاب کے ٹھوس عملی اقدامات اٹھانے سے گریز ہی کیا گیا۔ حالانکہ طلبہ و نوجوانوں کی کثیر تعداد سمیت پاکستان کے محنت کش عوام پیپلز پارٹی کے سوشلسٹ انقلابی پروگرام کے حمایتی تھے اور دامے درمے قدمے سخنے بھٹو کے ساتھ کھڑے تھے اور اسے اپنا مسیحا اور نجات دہندہ سمجھتے تھے۔ پاکستان میں اگر سماج کی سوشلسٹ تعمیر نو کا عمل آگے بڑھتا تو یہ انقلابی چنگاریاں پورے خطے میں پھیل سکتی تھیں۔ کیونکہ بیشتر ممالک میں سوشلسٹ تحریکیں پہلے سے مصروف عمل تھیں۔ بہرحال ذوالفقار علی بھٹو کے تحت پیپلز پارٹی کی اصلاح پسندانہ روش کی وجہ سے یہ انقلابی عمل ایک تعطل اور زوال پذیری کا شکار ہو گیا اور سامراجی قوتیں خطے میں اپنے مفادات بچانے کے لیے سازشوں میں سرگرم عمل ہو گئیں۔ جن میں موقع ملتے ہی پیپلز پارٹی حکومت کا دھڑن تختہ اور ذوالفقار علی بھٹو کا قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔
یوں تو جنرل ضیا الحق نے اپنی عسکری زندگی میں کئی گھناؤنے اور ناقابل معافی جرائم سرزد کیے جن کی فہرست کافی طویل ہے۔ مگر 5 جولائی 1977ء کو سرزد کیے گئے تاریخی جرم اور بعد کے اقدامات نے پاکستانی معاشرے میں مذہبی بنیاد پرستی، فرقہ واریت اور لسانی و علاقائی تعصبات کے جو بیج بوئے اس کا خمیازہ تاحال یہ سماج بھگت رہا ہے۔ انقلابی نوجوانوں سے 1968-69ء کی سوشلسٹ تحریک کا انتقام لینے کے لیے انہیں کلاشنکوف اور ہیروئن جیسے ’تحائف‘ سے متعارف کروایا گیا۔ جنرل ضیا الحق کی غلیظ اور سیاہ کرتوتوں نے یہاں کے عوام کے لیے اذیت ناک صورتحال پیدا کر دی۔ اس سے قبل اسی ضیاالحق (جو اس وقت برگیڈیئر تھا) نے امریکی ایجنٹ اردن کے شاہ حسین کے کہنے پر اس عسکری لشکر کی قیادت کی تھی جس نے اردن کے سرحدی علاقوں میں فلسطینی حریت پسندوں کا وسیع قتل عام کیا تھا۔ جس سے پتا چلتا ہے کہ وہ کس قدر رجعتی اور منافق انسان تھا۔
اسی عرصے میں 20 نومبر 1979ء کو مسلمانوں کے مقدس ترین مقام حرم پاک پر چھ سو بنیاد پرست سعودی باغیوں نے بذریعہ اسلحہ قبضہ کر لیا اور مطالبہ کیا کہ امریکہ و دیگر مغربی ممالک کو تیل کی سپلائی فوری بند کی جائے۔ نیز عرب کی سرزمین سے امریکہ سمیت تمام غیر ملکی ملٹری اور سول ماہرین کو نکالا جائے۔ اس واقعے کے فوری بعد سعودی عرب کے شاہ خالد اور شاہی خاندان کے دیگر اہم افراد ملک سے فرار ہو گئے۔ شاہ خالد نے بیرون ملک سے بیان جاری کیا کہ باغیوں کو بیروت کی عرب سوشلسٹ ایکشن پارٹی کی مدد حاصل ہے۔ جبکہ امام خمینی نے بیان دیا کہ یہ قبضہ امریکہ اور اسرائیل نے مل کر کروایا ہے۔ المختصر سعودی حکمران اشرافیہ نے فرانس اور پاکستان سے عسکری مدد حاصل کی۔ چنانچہ فرانسیسی ’GIGN‘ یونٹ (سپیشل فورسز) اور جنرل ضیا الحق کے بھیجے ہوئے کمانڈوز کے ذریعے خاصے خون خرابے کے بعد یہ محاصرہ ختم کروایا گیا۔ کئی باغیوں کو دوران آپریشن قتل کر دیا گیا۔ جو گرفتار ہوئے انہیں بغیر مقدمہ چلائے پھانسیاں دے دی گئیں۔ اس آپریشن کے بعد ہی شاہ خالد وغیرہ واپس آئے۔ اس وقت سعودی شاہی خاندان کو یہ اطلاعات بھی موصول ہو رہی تھیں کہ سعودی فوج میں بھی بڑے پیمانے پر بغاوت ہو سکتی ہے۔ چنانچہ آپریشن کی کامیابی کے بعد فوج میں بڑے پیمانے پر تطہیر کا عمل شروع ہو گیا۔ بہرحال یہ واقعات اس وقت خود خلیجی ریاستوں میں پھیلے سامراج مخالف جذبات کا پتا دیتے ہیں۔
1960ء اور 1970ء کی دہائیوں میں مغربی سامراج اور اس کی پروردہ مقامی حکمران اشرافیہ کو وسیع پیمانے پر پھیلی عوامی بے چینی اور سوشلسٹ تحریکوں کے خطرات کا ادراک تھا۔ ان رجحانات کی سرکوبی کے لیے انہوں نے نہ صرف یہاں بلکہ پوری دنیا میں بنیاد پرست قوتوں کو پروان چڑھانے کی پالیسی اختیار کی۔ بھٹو حکومت کے خلاف پاکستانی قومی اتحاد (پی این اے) کی تشکیل، نام نہاد نظامِ مصطفی کی تحریک اور 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کا شور اسی سلسلے کی کڑیاں تھی۔ شواہد بتاتے ہیں کہ یہ سب 1974-75ء سے ہی متذکرہ بالا امریکی ایجنڈا کا حصہ تھا۔ اسی دوران ایران میں سامراجی کٹھ پتلی شہنشاہ کے خلاف تودہ پارٹی (کمیونسٹ پارٹی آف ایران) کے انقلابیوں نے زبردست تیاری کے ساتھ انقلابی تحریک کا آغاز کر دیا جس کے اثرات عرب ممالک میں بھی مرتب ہو رہے تھے جہاں پہلے سے سوشلسٹ بعث پارٹی کی برانچیں اور کمیونسٹ پارٹیاں سرگرم عمل تھیں۔ دوسری طرف افغانستان میں خلق اور پرچم دھڑوں پر مبنی پی ڈی پی اے، جو انقلابی ایجنڈے کے تحت داؤد خان کی حکومت کے ساتھ برسر پیکار تھی، کو بھی افغان فوج کے اکثریتی حلقوں کی حمایت حاصل ہو رہی تھی۔ جو بعد ازاں ثور انقلاب پر منتج ہوئی۔
ایران میں تودہ پارٹی کی قیادت کی مصالحت اور مرحلہ واریت پر مبنی پالیسیوں کی وجہ سے امریکی و فراسیسی سامراج کو موقع ملا کہ شہنشاہ ایران کی معزولی کے تناظر میں امام خمینی (جو فرانس میں جلا وطنی گزار رہا تھا) کی آمد اور اقتدار پر قبضے کی راہ ہموار کی جائے۔ اس سلسلے میں اسے ایرانی عوام کا رہبر اور مسیحا بنا کر ایران روانہ کر دیا گیا جبکہ شہنشاہ ملک چھوڑ کر فرار ہو گیا (فرانس چلا گیا)۔ یوں ایران کو اس بنیاد پرستی کی وحشت و درندگی کے حوالے کر دیا گیا جس کے خلاف سارے مغربی سامراجی آج بظاہر برسر پیکار نظر آتے ہیں۔
امام خمینی نے اقتدار پر قبضے کے بعد تودہ پارٹی کے خلاف ہی کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔ جس کے تقریباً دس ہزار کیڈروں کا قتل عام پہلی فرصت میں کیا گیا۔ تودہ پارٹی کے سیکرٹری جنرل نورالدین کیانوری کو اذیت ناک سزائیں دی گئیں اور قومی ٹیلیوژن پر اعتراف جرم کروایا گیا۔ بعد ازاں وہ نظر بندی پر مبنی قید میں فوت ہوا۔
اپریل 1978ء میں افغانستان میں نور محمد ترکئی کی قیادت میں انقلاب برپا ہونے کے بعد انتہائی ترقی پسندانہ و عوام دوست اقدامات کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ ثور انقلاب کی پہلی سالگرہ کے موقع پر قائد انقلاب نور محمد ترکئی نے دنیا بھر کے محنت کشوں کو پیغام دیا جس میں انہوں نے ثور انقلاب کو بالشویک انقلاب سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ صرف افغانستان کا نہیں بلکہ پوری دنیا کے مظلوموں اور استحصال زدہ عوام کا انقلاب ہے۔ یہ سارا عمل بھی نہ صرف امریکہ بلکہ سوویت افسر شاہی کی آنکھوں میں کھٹک رہا تھا۔ ایسی سامراج دشمن تحریکوں کی کامیابی دنیا بھر کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے شعور کو جھنجوڑ سکتی تھی۔ چنانچہ پہلے اکتوبر 1979ء میں ثور انقلاب کے قائد نور محمد ترکئی کو سوویت ’کے جی بی‘ نے ایک سازش کے ذریعے صدارتی محل میں قتل کرایا۔ پھر دسمبر 1979ء میں انقلاب کے دوسرے قائد حفیظ اللہ امین کو اس کے بیٹے و سکیورٹی گارڈز سمیت سوویت کمانڈوز نے آپریشن ’333Storm‘ کے تحت تاج بگ محل پر حملہ کر کے قتل کر دیا۔ دو دن بعد سوویت افواج باقاعدہ افغانستان میں داخل ہو گئیں۔ جس کے بعد سی آئی اے کو وہ رجعتی ڈالر جہاد شروع کرنے کا موقع مل گیا جس میں ضیا آمریت کا بھیانک کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
1970ء کے اواخر کے چند سالوں میں رونما ہونے والے یہ واقعات آج کے انقلابی نوجوانوں کو غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں اور اپنے اندر اہم تاریخی اسباق سمیٹے ہوئے ہیں۔ ان سے پتا چلتا ہے کہ اس نظام کے کاسہ لیس دانشوروں کی مرتب کردہ تاریخ کے برعکس ہمارا ماضی سرمایہ داری اور سامراج کے خلاف کیسی شاندار جدوجہدوں اور تحریکوں سے عبارت ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ پیپلز پارٹی سے لے کر تودہ پارٹی تک مصالحت، اصلاح پسندی اور مرحلہ واریت پر مبنی پالیسیوں کی ناگزیر ناکامیوں اور خوفناک مضمرات کو واضح کرتے ہیں۔ مزید برآں ان سے پتا چلتا ہے کہ اپنے نظام کو بچانے کے لیے یہ سامراجی اور ان کے گماشتہ حکمران انتہائی زہریلی بنیاد پرستی کے استعمال سمیت کس قدر بے رحمی اور وحشت پر اتر سکتے ہیں اور ناکام انقلابات کا خمیازہ نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ضیاالحق نے 5 جولائی 1977ء کو جس ردِ انقلابی عمل کا آغاز کیا تھا اسے بعد کی نام نہاد جمہوری و آمرانہ حکومتوں نے کسی نہ کسی شکل میں آگے ہی بڑھایا ہے۔ ضیا جسمانی طور پر مر گیا لیکن اس کے سیاہ نظریات آج بھی اس ریاست اور اس کی حکومتوں کی پالیسیوں اور طرزِ عمل میں زندہ ہیں اور اس ملک کے محکوم عوام کی زندگیوں کو اجیرن کیے ہوئے ہیں۔ اگر سامراج اور استحصالی طبقات اپنے مفادات کے لیے تمام تر داخلی اختلافات کے باوجود ایک ہیں تو دنیا بھر کے استحصال زدہ محنت کش عوام کو بھی یکجا ہونا ہو گا۔ اور ماضی کی جدوجہدوں کی کمزوریوں اور خامیوں سے سیکھتے ہوئے سامراجی سرمایہ داری کے خلاف لڑائی کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانا ہو گا۔ اس کے علاوہ نجات کا کوئی راستہ موجود نہیں۔