دنیا

بنگلہ دیش: جابرانہ نظام کو چیلنج کرتے طلبہ

سوشووان دھر

بنگلہ دیش میں طلبہ کی حالیہ احتجاجی تحریک ملک کے لیے ایک اہم سیاسی موڑ ہے۔ اس کے اثرات ملک کی قومی سرحدوں سے باہر بھی محسوس کیے جا رہے ہیں، اور بہت سے لوگوں نے اسے بنگلہ دیش کی جمہوری اقدار کی بحالی کی جدوجہد کے طور پر پیش کیا ہے۔

آزاد بنگلہ دیش کی تاریخ میں جبر کی سب سے وحشیانہ لہروں میں سے ایک کے سامنے اب تک تقریباً 200 مظاہرین مارے جا چکے ہیں، جبکہ ہزاروں زخمی یا لاپتہ ہیں۔

اینٹی کوٹہ احتجاج

حالیہ مظاہروں کا آغاز جولائی کے آغاز میں طالب علموں کی جانب سے سرکاری ملازمتوں کے لیے کوٹہ سسٹم کے خاتمے کا مطالبہ کرنے کے لیے ہوا تھا۔ اس نظام کی ابتداء اس دور سے ہوئی جب بنگلہ دیش کو اس وقت مغربی پاکستان کہلانے والے حکمرانوں اور فوج کے خلاف اپنی آزادی کے لیے لڑنا پڑا۔ جیسے ہی 1972 میں ملک جنگ آزادی سے ابھراتو آزادی کے جنگجوؤں کے لیے ان کی قربانیوں کو تسلیم کرنے کے لیے ملازمتوں میں کوٹہ رکھا گیا۔

اس نظام میں اگلی دہائیوں میں کئی بار ترمیم کی گئی، جس کے نتیجے میں سول سروس کی 30 فیصد ملازمتیں فریڈم فائٹرزکے بچوں اور پوتے پوتیوں کے لیے مختص کی گئیں۔ مزید 26 فیصد خواتین، پسماندہ اضلاع کے لوگوں، مقامی کمیونٹیز اور معذور افراد کے لیے مختص ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ صرف 44 فیصد ملازمتیں عام درخواست دہندگان کے لیے اوپن کوٹہ کے طورپر رہ گئی ہیں۔

بنگلہ دیش میں بیروزگاری عام ہونے کی وجہ سے سول سروس کی نوکریوں کی بہت مانگ ہے۔ تقریباً30لاکھ بنگلہ دیشی نوجوان بیروزگار ہیں۔ نتیجے کے طور پر کوٹہ سسٹم نے بے اطمینانی اور مایوسی کو جنم دیا ہے۔

تاہم مظاہرین نے معاشرے کے پسماندہ اور کمزور طبقوں کے لیے مختص کوٹے کے خاتمے کا مطالبہ نہیں کیا۔ معاشرے میں رائج ناانصافیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کوٹے ایسی پالیسی کا حصہ ہیں، جو نسبتاً سماجی انصاف کو فروغ دینے کا باعث بنتی ہے۔ طلبہ کو ان کوٹوں سے متعلق کوئی اعتراض بھی نہیں ہے۔

طلبہ کا اعتراض ہے کہ فریڈم فائٹرز کی اولاد کیلئے کوٹہ غیر منصفانہ ہے اور اسے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق جنگجوؤں کی نسل سے تعلق رکھنے والوں کی آبادی مجموعی آبادی کے ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ تاہم سول سروس کی تقریباً ایک تہائی ملازمتیں ان لوگوں کیلئے مختص کی گئی ہیں۔ یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ فریڈم فائٹرز کی فہرست آج بھی بڑھ رہی ہے۔

بنگلہ دیش میں کوٹہ سسٹم کے خلاف عوامی رد عمل کوئی نئی بات نہیں ہے۔ 2013 اور 2018 میں بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہوئے، جن میں زیادہ منصفانہ انتظامات کا مطالبہ کیا گیا۔ 2018 کے طلبہ کے احتجاج کو تشدد کا سامنا کرنا پڑا، جس میں حملہ، مار پیٹ، ماورائے عدالت حراست اور مظاہرین کو اغواء کرنے کے کئی واقعات پیش آئے۔

اس سب کے باوجود تحریک نے حکومت کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کیا اور فریڈم فائٹرز کی اولادوں کے لیے کوٹہ ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اس وعدے پر عمل کرنے کے لیے حکومت کی رضامندی پہلے سے ہی شکوک و شبہات کا شکار تھی، اور یہ فتح قلیل المدتی ہی ثابت ہوئی۔ 5 جون 2024 کو ہائی کورٹ نے حکومتی حکم کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے خارج کر دیا۔

آمرانہ ریاست

بنگلہ دیش میں عدلیہ کی آزادی کے بارے میں طویل عرصے سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔تاہم ان سوالات میں شیخ حسینہ کے دور میں اضافہ ہوا، جو 1996 اور 2001 تک اور اس کے بعد 2009 سے تاحال ملک کی وزیر اعظم کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ تنقید نگاراور انسانی حقوق کے کارکن ملکی عدالتی نظام پر وزیراعظم کی آمرانہ گرفت اور عدالتی نظام کو اپنی سیاسی ایجنڈا کے آلہ کے طور پر استعمال کرنے کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔

فطری طور پر کوٹوں کی بحالی کا حکم دینے والے ہائی کورٹ کے فیصلے نے طلبہ برادری کے ردعمل کو اکسایا جو اب ‘آزاد بوشوموبیرودھی چھاترو اندولون ’(اینٹی ڈسکریمینیشن اسٹوڈنٹس موومنٹ) کے ذریعے تازہ دم ہوا ہے۔ زیادہ تر شہری علاقوں میں طلبہ سڑکوں پر نکل آئے اور سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔ دارالحکومت ڈھاکہ مکمل طور پر جام ہو گیا۔

14 جولائی کو وزیر اعظم کی ایک اشتعال انگیز تقریر سے حالات بدل گئے جس میں مظاہرین کو ‘رضاکار’کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ یہ ان لوگوں کے لیے ایک لفظ ہے ،جنہوں نے جدوجہد آزادی کے دوران مغربی پاکستان کی فوج کے ساتھ تعاون کیااور آزادی پسندوں کو ہلاک کیا۔ یہ تضحیک آمیز اصطلاح ایک ایسی قوم میں غداری اور خیانت کے الزام کے مترادف ہے جو ابھی تک اپنی جنگ آزادی کی میراث سے نبرد آزما ہے۔ برسراقتدار عوامی لیگ نے اپنے بہت سے ناقدین کو رضاکارکے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

شیخ حسینہ کی احتجاجی تحریک کی مذمت نے عوامی غصے کو مزید تیز کر دیا۔ ہزاروں طلبہ ڈھاکہ یونیورسٹی کے ہاسٹل گیٹ سے باہر نکلے اور سڑکوں پر جمع ہو کر انہوں نے درج ذیل نعرے لگائے:

تم کون ؟ میں کون ؟ رضاکار، رضاکار۔

کس نے کہا ؟ کس نے کہا ؟ مطلق العنان، مطلق العنان!

طلبہ نے نعروں کے ذریعے شیخ حسینہ کے الفاظ کو انہی کے چہرے پر واپس پھینکنے کی کوشش کی۔ ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے ہزاروں طلبہ ڈھاکہ، چٹاگانگ اور دیگر شہروں میں جمع ہوئے۔ جہانگیر نگر، رنگ پور اور کومیلا سے نوجوانوں نے دارالحکومت کے اہم راستوں پر دھرنا دیا، جس کی آبادی 22 ملین سے زیادہ ہے۔ ہائی سکول کے طلبہ بھی اس تحریک میں شامل ہو گئے۔

حکومت نے بغاوت کو دبانے کے لیے بڑے پیمانے پر جبر کا سہارا لیا۔ لاٹھی چارج، آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں کا اندھا دھند استعمال کیا گیا۔ اس کے علاوہ عوامی لیگ کے طلبہ ونگ‘ چھاترا لیگ ’کے ارکان کے روپ میں نقاب پوش مسلح غنڈوں نے کئی خواتین سمیت طلبہ پر حملے کرنا شروع کر دیئے۔

ڈھاکہ میں فوج نے سڑکوں پر پوزیشنیں سنبھال لیں اور مظاہرین کو دبانے میں پولیس کا ساتھ دیا۔ تحریک کے حامیوں کو ایک دوسرے سے رابطہ کرنے سے روکنے کے لیے انٹرنیٹ کنکشن معطل کر دیے گئے اور ٹیلی فون رابطوں میں بھی خلل پڑا۔ کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا،جسے توڑنے والوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم دیا گیا تھا۔ تاہم اس سب کے باوجود طلبہ باز نہیں آئے۔

مظاہرین کو منانے کی کوشش میں بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے 21 جولائی بروز اتوار کو ہائی کورٹ کے سابقہ حکم کو کالعدم قراردے دیا۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ 93 فیصد سرکاری ملازمتیں میرٹ کی بنیاد پر مختص کی جانی چاہئیں، جبکہ 5 فیصدفریڈم فائٹرز کی اولادوں اور2فیصد دیگر نامزد زمروں کیلئے کوٹہ مختص کیا جائے۔

بدقسمتی سے عدالتی حکم نے طلبہ کی تحریک کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے، بنگلہ دیشی معاشرے کے سب سے کمزور طبقوں کو مثبت کارروائی تک رسائی سے محروم کرنے جیسا اقدام کیا ہے۔ یہ اقدام مظلوموں کے ایک طبقے کو دوسرے کے خلاف کھڑا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ عدالت انسانی حقوق کی غیر آئینی خلاف ورزیوں کا حساب لینے میں بھی ناکام رہی ہے ،جو طلبہ ملک بھر میں برداشت کر رہے ہیں۔

شیخ حسینہ کا ریکارڈ

جنوری کے پارلیمانی انتخابات میں پارٹی کی کامیابی کے بعد وزیر اعظم کے طور پر تازہ ترین مدت کے صرف چند ماہ بعدہی شیخ حسینہ کی مخالفت پہلے سے زیادہ مضبوط ہو رہی ہے۔ بنگلہ دیش بیورو آف شماریات کے مطابق بنگلہ دیش کو دائمی بے روزگاری کا سامنا ہے، جہاں 15 سے 24سال کی عمر کے ہر 5میں سے2افرادبے روزگار ہیں، لیکن وہ اسکول میں بھی نہیں ہیں۔

اگرچہ اس بغاوت کو جنم دینے کی وجہ کوٹہ سسٹم بنا، لیکن اس کی بنیادی وجوہات میں گہرے سیاسی اور معاشی مسائل شامل ہیں۔ شیخ حسینہ کی وزارت عظمیٰ، خاص طور پر ان کی حالیہ مدت میں، اختلاف رائے کی عدم برداشت میں اضافہ ہوا ہے۔ زیادہ تر اپوزیشن جماعتوں نے رواں سال کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا، جو ووٹوں میں دھاندلی اور بڑے پیمانے پر دھمکیوں کے الزامات سے داغدارتھے۔

شیخ حسینہ کے اقتدار کے استحکام میں آزادی صحافت پر پابندیاں، سیاسی مخالفین پر عدالتی جبر اور عوامی وسائل کا فائدہ اٹھانا شامل ہے۔ طلبہ ان میں سے بہت سے مسائل اور حکومت کی جانب سے جمہوری اصولوں اور انسانی حقوق کو نظر انداز کئے جانے کے اقدام کے خلاف متحرک ہوئے۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے شیخ حسینہ کی عوامی لیگ کی جانب سے ورچوئل ون پارٹی حکمرانی کی جانب سفر کے بارے میں خبردار کیا ہے۔

دنیا کی سب سے طویل عرصے تک خدمات انجام دینے والی خاتون سربراہ حکومت کے طور پرشیخ حسینہ طویل عرصے سے بیرونی دنیا کے لیے اپنے ملک کے بنیاد پرست اسلام پسندوں کے ساتھ ساتھ ایک طاقتور فوج کے ساتھ مہارت کے ساتھ نمٹنے کی وجہ سے ہمیشہ اقتدار پر قبضہ کرنے کے مواقع تلاش کرتی رہی ہیں۔ غیر ملکی اور گھریلو سرمائے کے یکساں پسندیدہ انتخاب کے طور پرانہوں نے 6 فیصد کے مسلسل جی ڈی پی گروتھ کے اعداد و شمار کے ساتھ بنگلہ دیش کی دوبارہ ابھرتی ہوئی معیشت کے لیے تعریفیں سمیٹی ہیں۔

تاہم اقتصادی ترقی کی یہ سطحیں برآمدات پر مبنی ملبوسات کی صنعت پر انحصار کرتی ہیں ،جو زیادہ تر خواتین کارکنوں کو کمائی کے لیے ملازمت دیتی ہے۔ 2013 میں رانا پلازہ فیکٹری کے گرنے سے 1100 مزدور ہلاک اور 2600 زخمی ہوئے۔ پچھلے سال تزرین فیشن میں لگنے والی مہلک آگ نے 112 مزدوروں کی جان لے لی اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔

گارمنٹ سیکٹر میں تقریباً 45لاکھ مزدور کام کرتے ہیں۔ مزدوروں کی طرف سے بہتر اجرت اور کام کے حالات کے لیے کئی مرتبہ احتجاج کیا گیا ہے۔ گزشتہ سال نومبر میں پولیس نے مزدوروں کے مظاہرے پر فائرنگ کی، جس سے ایک خاتون ہلاک اور متعدد زخمی ہو ئے۔

یہ ریڈی میڈ گارمنٹس کی عالمی ویلیو چین کو سستی لیبر پاور فراہم کرنے والے کے طور پر بنگلہ دیش کے اہم کردار کا دوسرا پہلو ہے۔ اس کے باوجود بڑھتی ہوئی نجی سرمایہ کاری اور برآمدات پر مبنی اقتصادی ترقی نے لاکھوں لوگوں کو بے روزگاری سے نکالنے اور بجلی اور دیگر سہولیات تک رسائی کو وسیع کرنے میں مدد کی۔ 2021 میں ملک کی فی کس آمدنی معمولی طور پر بھارت سے آگے نکل گئی تھی۔

ہمسایہ ملک میانمار میں 2017 کے فوجی کریک ڈاؤن سے فرار ہونے والے لاکھوں روہنگیا پناہ گزینوں کے لیے بنگلہ دیش کی سرحدیں کھولنے پر شیخ حسینہ کی بین الاقوامی سطح پر بھی تعریف کی گئی۔ تاہم داخلی اختلاف کی کسی بھی شکل کے خلاف ان کی عدم برداشت نے بڑھتی ہوئی ناراضگی کو جنم دیا۔

بحران

دریں اثنا روس یوکرین جنگ کے پھیلنے والے اثرات نے بنگلہ دیش کی معیشت پر بڑابرا اثر ڈالا۔ پہلا خوراک اور ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمت کے ذریعے، اور دوسرا بنیادی طور پر یورپ سے تیار ملبوسات کی کم مانگ کے ذریعے۔ بنگلہ دیش کے زرمبادلہ کے ذخائر کو شدید نقصان پہنچا، جس سے ملک قرضوں کے بحران کے دہانے پر پہنچ گیا اور اسے گزشتہ سال 4.7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف )سے رجوع کرنے پر مجبور کیا۔ شیخ حسینہ نے جولائی کے اوائل میں 5 ارب ڈالر کا قرضہ حاصل کرنے کے لیے چین کا دورہ کیا تھا، لیکن انھیں مایوسی میں اپنا دورہ مختصر کرنا پڑا ،کیونکہ چینی حکام صرف 100 ملین ڈالر کا قرضہ دینے کے لیے تیار تھے۔

جیسے جیسے معاشی بحران گہرا ہوتا گیا، بنگلہ دیشی معیشت اس جھٹکے کو جذب کرنے میں ناکام رہی۔ معاملے کو مزید خراب کرنے کے لیے حکومت نے اس سے پہلے انفراسٹرکچر کے بڑے منصوبوں کو فنڈ دینے کے لیے اندھا دھند قرض لیا تھا۔ قرضوں کی ادائیگی اب باقی تھی، جس سے خزانے پر شدید دباؤ تھا۔ اس کے نتیجے میں عوامی قرضوں میں اضافہ ہوا اور افراط زر 2024 کے آغاز تک تقریباً 10 فیصد تک بڑھ گیا، جو دہائیوں کی بلند ترین سطحوں میں سے ایک ہے۔

اقرباء پروری اور بدعنوانی کے بڑے پیمانے پر الزامات کے درمیان بنگلہ دیش کے بینکوں کو لیکویڈیٹی کے شدید بحران کا سامنا ہے۔ اشیائے خوردونوش کی مہنگائی بدستور بہت زیادہ ہے، جو مئی 2024 میں 10.76 فیصدتک پہنچ گئی ہے اور ملک بھر میں لاکھوں افراد کو متاثر کر رہی ہے۔ ان تمام عوامل نے ملک کے سماجی و اقتصادی حالات کو انتہائی نازک بنا دیا ہے اور عام آبادی میں بڑھتی ہوئی مایوسی کو جنم دیا ہے۔

خلاصہ یہ کہ حسینہ کے گزشتہ 15 برسوں کے اقتدار نے ملکی معیشت میں قابل ذکر تبدیلیاں لائیں، لیکن ان کی یہ کامیابیاں بہت نقصان دہ اخراجات کے ساتھ آئیں۔ پہلی بار عوام کی آواز بن کر اقتدار میں آنے والی عوامی لیگ نے عوامی رائے کو دبانا شروع کر دیا۔ پارٹی جنگ آزادی کے ورثے پر اجارہ داری کا دعویٰ کرتے ہوئے حسینہ کی ذاتی ملکیت میں تبدیل ہوگئی۔

اس تناظر میں طلبہ کی بغاوت آزادی کی جدوجہد کی ایک منصفانہ اور مناسب تشخیص کو فروغ دینے کا کام کررہی ہے۔ یہ ایک ایسی جدوجہد تھی جس میں بڑی تعداد میں افواج نے حصہ لیا اور قربانیاں دیں، بشمول بنگلہ دیشی بائیں بازو، جن کی مضبوط موجودگی تھی۔ کوئی بھی فریق جنگ آزادی پر ملکیت کے خصوصی حق کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔

جیسا کہ بنگلہ دیش کی سیاست کی عظیم پرانی جماعت اپنی 75ویں سالگرہ منا رہی ہے، اس کے لیے اپنی تاریخ پر فخر کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ اس کے موجودہ ریکارڈ کے بارے میں فکر مند ہونے کی بھی بہت سی وجوہات ہیں۔ ماضی کی مقبول طاقت آج پیسے اور طاقت کے زور پر چھا گئی ہے۔ بہت سے عہدوں پر دولت مند، بااثر اور بدعنوان افراد نے قبضہ کر لیا ہے۔ پارٹی کے سرکردہ رہنما حقیقت سے دور ہوتے جا رہے ہیں، حکومت کرنے کے لیے ریاستی طاقت اور جبر پر زیادہ سے زیادہ انحصار کیا جا رہا ہے۔

بنگلہ دیش میں طلبہ کی تحریک بنگلہ دیشی سیاست اور معاشرے میں گہرے تضادات کی طرف توجہ دلانے میں کامیاب رہی ہے۔ یہاں تک کہ اگر حکومت طلبہ پر وحشیانہ جبر کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، پھر بھی اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ مستقبل میں بغاوتیں نہیں ہوں گی۔ مستقبل میں بغاوتوں میں معاشرے کے دیگر طبقات بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ ایک بار پھر بنگلہ دیش کے طلبہ ملک کو مستقبل کا راستہ دکھا رہے ہیں۔

(سوشووان دھرایک سیاسی کارکن اور ٹریڈ یونین اسٹ ہیں۔ ان کا تعلق کلکتہ انڈیا سے ہے۔)

(بشکریہ: جیکوبن، ترجمہ: حارث قدیر)

Roznama Jeddojehad
+ posts