حارث قدیر
بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں بھارتی حکومت نے 10سال بعد تین مرحلوں میں اسمبلی انتخابات منعقد کروانے کا اعلان کر دیا ہے۔ بھارت نواز کشمیری جماعتوں نے ریاستی درجہ بحال کئے بغیر انتخابات کے انعقاد کی صورت بائیکاٹ کاعندیہ دیا ہے۔ انتخابات کے اعلان کے بعد حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں نے جموں کشمیر کاریاست کا درجہ بحال کرنے کا مطالبہ دہرایا۔ تاہم بھارتی جماعتوں نے اس عمل کو سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد اور خوش آئند اقدام قرار دیا ہے۔
بھارتی الیکشن کمیشن کے اعلان کے مطابق وفاقی کے زیر انتظام علاقے جموں کشمیر کی اسمبلی کے انتخابات کا آغاز18ستمبر کو ہوگا۔ یہ انتخابات تین مرحلوں میں ہونگے۔ دوسرا مرحلہ25ستمبر جبکہ تیسرا اور آخری مرحلہ یکم اکتوبر کو ہوگا۔ ووٹوں کی گنتی اور نتائج کا اعلان 4اکتوبر کو کیا جائے گا۔
بھارتی سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو ہدایت کی تھی کہ 30ستمبر2024سے قبل جموں کشمیر میں اسمبلی انتخابات کرائے جائیں، جبکہ بھارتی حکومت کو بھی کہا تھا کہ جموں کشمیر کی ریاستی حیثیت کو جتنی جلدی ممکن ہو سکے بحال کیا جائے۔ تاہم ریاستی حیثیت کو بحال کئے جانے کے اعلان یا اقدام کے بغیر ہی انتخابات کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق جموں کشمیر اسمبلی کی مجموعی 119نشستوں میں سے90نشستوں پر پولنگ تین مرحلوں میں ہوگی۔ 18ستمبر کو 24نشستوں کیلئے پولنگ ہوگی، 25ستمبر کو 28نشستوں کیلئے، جبکہ 40نشستوں کیلئے پولنگ یکم اکتوبر کو ہوگی۔
باقی ماندہ 5نشستوں کو نامزدگی کے ذریعے پورا کیا جائیگا، جبکہ24نشستیں پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کیلئے محفوظ رکھی گئی ہیں، جن پر کسی قسم کا کوئی انتخاب یا نامزدگی نہیں کی جائے گی۔یہ نشستیں خالی ہی رہیں گی۔
بھارت نواز جماعتوں نیشنل کانفرنس، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی)اور دیگر نے 5اگست2019سے پہلے کے اختیارات بحال کئے بغیر انتخابات کے انعقاد کو بے معنی قرار دیا ہے اور بائیکاٹ کا عندیہ بھی دیا ہے۔ پی ڈی پی کی سربراہ اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے تو واضح اعلان کر دیا ہے کہ ریاستی تشخص اور اختیارات کی بحالی کے بغیر انتخابات کا بائیکاٹ کریں گی، تاہم نیشنل کانفرنس کے رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ وہ ایسے وزیراعلیٰ کسی صورت نہیں بنیں گے، جنہیں ایک چپڑاسی بھرتی کرنے کیلئے بھی بھارتی لیفٹیننٹ گورنر سے اجازت لینا پڑے۔
بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کی اسمبلی کے انتخابات اس سے قبل2014میں ہوئے تھے، جن کے نتیجے میں پی ڈی پی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی مخلوط حکومت قائم ہوئی تھی۔ تاہم 4سال بعد یہ حکومت ختم ہو گئی تھی اورگورنر نے اسمبلی کو تحلیل کر دیا تھا۔یوں یہ اسمبلی اپنی 6سالہ مدت پوری نہیں کر پائی تھی۔ اسمبلی تحلیل کئے جانے، گورنر راج اور بعد ازاں صدارتی راج کے نفاذ کے بعد سخت پابندیاں اور سکیورٹی لگائی گئی۔ تمام بھارت نواز اور آزادی پسند قیادتوں کو قید و نظر بند کیا گیا اور ذرائع ابلاغ کے تمام ذرائع کو معطل کر کے 5اگست2019کو بھارتی حکومت نے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تحفظ دینے والے بھارتی آئین کے آرٹیکل370کو غیر فعال اور آرٹیکل35اے کو ختم کرکے ریاست کی آئینی نیم خودمختاری ختم کر دی تھی۔ یوں جموں کشمیر کی شناخت، اسکا پرچم اور قانون سازی کے خصوصی اختیارات کے خاتمے کے ساتھ ساتھ نوکریوں پر غیر ریاستی افراد کی تعیناتیوں اور زمینوں کی غیر ریاستی افراد کے ہاتھوں خریداری پر عائد پابندیاں ختم ہو گئی تھیں۔ سب سے بڑھ کر بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے الگ الگ بھارت کے وفاق کے زیر انتظام علاقوں (یونین ٹیریٹریز) میں تقسیم کر دیا تھا۔ یہ علاقے اب یونین ٹیرٹری آف جموں کشمیر اور یونین ٹیرٹری آف لداخ کہلاتے ہیں۔
گزشتہ پانچ برسوں کے دوران بھارتی حکومت اور جموں کشمیر کی مقامی انتظامیہ نے کئی قوانین میں ترمیم کی ہے اور متعدد ایسے نئے قوانین متعارف کروائے ہیں، جن کے نتیجے میں جموں کشمیر کے اختیارات میں مزید کمی آئی ہے۔
سکیورٹی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے انتخابات کو تین مرحلوں میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔جہاں بھارتی لوک سبھا انتخابات میں ووٹروں نے بھارتی حکمران جماعت کے اقدامات کو ووٹ کی پرچی سے مسترد کیا ہے، وہیں جموں، پونچھ اور راجوری کے علاقوں میں عسکریت پسندوں کے حملوں اور بھارتی فورسز کے ساتھ جھڑپوں کا سلسلہ بھی بھارتی حکومت کیلئے درد سر بنا ہوا ہے۔
بھارت نواز سیاسی جماعتوں کے بائیکاٹ کی صورت یہ انتخابات بے معنی ہو کر رہ جائیں گے۔ تاہم اگر انتخابات میں یہ جماعتیں حصہ لیتی ہیں تو حکمران بی جے پی کے خلاف ایک رد عمل اور نفرت کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہیں۔ دوسری جانب جموں صوبہ میں بی جے پی بھی لوک سبھا انتخابات کی طرح اپنا اثر دکھانے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔
علیحدگی پسند یا آزادی پسند کہلانے والی جماعتیں 5اگست2019کے بعد مسلسل حکومتی جبر کے بعد تقریباً غیر فعال ہو چکی ہیں۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ اور جماعت اسلامی پر پابندی عائد ہے۔ تاہم جماعت اسلامی نے پابندی ہٹائے جانے کی اپیل کی ہوئی ہے اور آئین کے دائرے کے اندر رہ کر سرگرمیاں کرنے کی بھی یقین دہانی کروا رکھی ہے۔ پابندی ہٹائے جانے کے باوجود جماعت اسلامی کوئی غیر معمولی کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔
جموں کشمیر کو جس طرح بھاری سکیورٹی فورسز کی تعیناتی، کالے قوانین کے نفاذ، میڈیا اور اظہار رائے پر پابندیوں اور ریاستی جبر کے نتیجے میں خاموش کرنے کی حکمت عملی اپنائی گئی ہے، یہ خاموشی تادیر رہنے والی نہیں ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں یہ واضح ہو چکا ہے کہ سطح کے نیچے بھارتی اقدامات کے خلاف غصہ اور نفرت ماضی سے کہیں زیادہ ہے۔ کوئی ایک واقعہ یا حادثہ صورتحال کو یکدم تبدیل کر سکتا ہے۔ تاہم متبادل پروگرام اور واضح نظریات سے عاری قیادتیں جموں کشمیر کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو اس جنگ و جدل اور ریاستی جبر سے نجات کا کوئی واضح راستہ دکھانے سے عاری ہیں۔ بایاں بازو بھارتی قومی شاؤنزم کا شکار ہے، جبکہ دائیں بازو کی قوتیں پراکسی وار کے ذریعے مال کمانے میں مصروف رہی ہیں اور اب ریاستی جبر کے نتیجے میں غیر فعال ہو کر رہ گئی ہیں۔ ایسی کیفیت میں نوجوانوں کو متبادل راستوں کی تلاش کرنا ہوگی اورقومی و طبقاتی جبر کے خلاف دیگر محکوم قومیتوں اور بھارتی محنت کشوں کے ساتھ جڑات کے ذریعے فسطائی رجحانات اورقومی و طبقاتی جبر و استحصال کے خاتمے کیلئے آگے بڑھنا ہوگا۔ جموں کشمیر سے بھڑکنے والی مزاحمت کی چنگاریاں پورے بھارت کو اپنی لپیٹ میں لینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔