(سری لنکا کے حالیہ صدارتی انتخاب میں جے وی پی(پیپلز لبریشن فرنٹ) کے رہنما انورا ڈسا نائیکے کی کامیابی پر ایک طرف دنیا بھر میں بات ہو رہی ہے تو دوسری طرف عالمی بایاں بازو اس پر بحث کر رہا ہے۔ جے وی پی خود کو مارکسسٹ لینن انسٹ کہتی ہے مگر وہ سنہالہ شاونزم کے لئے بھی بدنام ہے۔وہ کھل کر تامل آبادی پر ریاستی جبر کی حمایت کرتی رہی ہے۔ گذشتہ روز ہم نے اس حوالے سے کویتا کرشنن کا نقطہ نظر پیش کیا۔ کویتا کرشنن کا تعلق ہندوستان سے ہے اور انہیں جنوبی ایشیا کی ایک اہم مرکس وادی آواز سمجھا جاتا ہے۔ آج ایک سری لنکن مارکس وادی کارکن بالاسنگھم سکنتھا کمار کا انٹرویو پیش کریں گے جو کویتا کرشنن سے مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ ’جدوجہد‘ نے ان سے یہ خصوصی انٹرویو منگل کی شام کیا)۔
بالاسنگھم سکنتھا کمارکہتے ہیں کہ ”نئے سری لنکن صدرکا انتخابی منشور غریبوں پر بوجھ کم کرنے کے لیے موجودہ فریم ورک کے اندر کچھ تبدیلیوں کی تجویز پیش کرتا ہے۔ تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے مقداری اور ساختی اہداف پر نظر ثانی سے انکار کرنے پر معاہدہ توڑنے جیسے اقدام کا کوئی امکان نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کے معاہدے کے اندر رہتے ہوئے اس منشورپر عملدرآمد ممکن نظر نہیں آتا۔ وعدے اور اعلانات نہ صرف مبہم ہیں بلکہ ان کو پورا کرنے کیلئے کوئی ٹائم فریم بھی نہیں دیا گیا۔ کئی دہائیوں سے شاؤنزم اور بالادستی میں ڈوبی سنہالہ قوم میں انتخابی بنیادیں ان آئینی تبدیلیوں کی راہ میں بھی رکاوٹ ہونگی، جن کا وعدہ کیا گیا ہے۔“
بالاسنگھم سکنتھا کمارمعروف سوشلسٹ رہنما ہیں۔ وہ پولیٹی میگزین (کولمبو)کے ایڈیٹر اور سری لنکا کی سماجی سائنسدانوں کی ایسوسی ایشن کے رکن ہیں۔ سری لنکن انتخابات سے متعلق ان کا مختصر انٹرویو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
انورا کماراڈسانائیکے کون ہیں اور ان کی انتخابی کی جیت کی کیا اہمیت ہے؟
بالاسنگھم: انورا کمارا ڈسانائیکے (اے کے ڈی)کی جیت علامتی اور ٹھوس وجوہات کی بنا ء پر انتہائی اہم ہے۔ ان سے قبل اس سماجی اور سیاسی اشرافیہ کی حکومت رہی جس نے 1948 میں برطانیہ سے آزادی کے بعد سری لنکا پر غلط طریقوں سے حکومت کی ہے۔
اے کے ڈی کا تعلق ایک دیہی غریب گھر سے ہے۔ ان کے والد ایک سرکاری محکمے میں معمولی ملازم تھے اور ان کی ماں چاول کے کھیت کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ ایک وسیع گھرانے کی دیکھ بھال بھی کرتی تھیں۔ وہ اپنے خاندان میں پہلے گریجویٹ تھے، جنہوں نے کیلنیا یونیورسٹی میں فزیکل سائنس کی تعلیم حاصل کی۔ کیلنیا میں وہ انڈر گراؤنڈ ’جنتا ویمکتی پیرامونا‘(جے وی پی۔پیپلز لبریشن فرنٹ) کے کارکن بن گئے۔ جے وی پی کو قانونی حیثیت ملنے کے بعد وہ ایک کل وقتی سیاسی کارکن بن گئے اور مرکزی دھارے کی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ ایک استحصال زدہ اور پسماندہ طبقے کے فرد اور ساتھ ہی مارکسسٹ، لینن اسٹ پارٹی کے نمائندے کے طور پر ان کے بطور ریاستی یا حکومتی سربراہ انتخاب نے پورے انتخابی سانچے کو ہی توڑ کر رکھ دیا ہے۔
اس کے علاوہ انہوں نے ایک انحطاط پذیر سیاسی نظام کو تبدیل کرنے کے پلیٹ فارم پر مہم چلائی، جس نظام کے خلاف طبقے، صنف، نسل سے بالاترہو کر آبادی کی اکثریت نے رد عمل دیا ہے۔ یہ عوامی رد عمل 2020-21میں معاشی تباہی اور بیرونی قرضے ادا نہ کرپانے کی وجہ سے سری لنکا کے دیوالیہ ہونے کے وقت عروج پر تھا۔
سری لنکا کے لوگوں کی اے کے ڈی سے توقع ہے کہ ان کی حکومت اس سیاسی کلچر کو ختم کر دے گی، جس میں سیاستدان انتخابات کے درمیانی عرصہ میں عوام پر حکمرانی کرتے ہیں۔ خواہ وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں،مراعات سے فیض یاب ہوتے رہتے ہیں۔ اپنے دفتروں کے ذریعے سیاسی جماعتوں، مقامی اور غیر ملکی کاروباری سودے بازی اور رشوت سے منافع کماتے ہیں، حکومتی اور بین الاقوامی ٹینڈرز اور معاہدوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں، اوراپنی بداعمالیوں اور جرائم پر سزاؤں، مقدمات اور استغاثہ سے استثنیٰ حاصل کرتے ہیں۔۔۔چونکہ اے کے ڈی کی پارٹی روایتی سیاسی طبقے سے باہر ہے اور اس سے پہلے بدعنوانی کے اس نیٹ ورک کا حصہ نہیں رہے اور انہیں ووٹروں کی ایک بڑی اقلیت(42فیصد) نے اقتدار میں لایا ہے، جنہیں دوسری جماعتوں پر بجا طورپر کوئی بھروسہ یا یقین نہیں ہے۔
یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آیا جے وی پی کی قیادت میں قائم این پی پی اتحاد کی حکومت وہ اصلاحات کر پائے گی، جس کی اس کے حامی توقع کر رہے ہیں، یا یہ بھی ماضی کی حکومتوں جیسی ثابت ہو گی۔
اے کے ڈی حکومت کا نیو لبرل ازم اور اقتصادی رفتار کے حوالے سے نقطہ نظر کیا ہے؟
بالاسنگھم: تاریخی طور پر جے وی پی ایک سرمایہ دار مخالف جماعت رہی ہے۔ تاہم 1994 سے جب سے اس نے پارلیمانی سیاست میں قدم رکھا ہے، اس کا پالیسی موقف مخلوط معیشت (مکس اکانومی)والا ہو گیا۔ وہ ایسی معیشیت چاہتی ہے جس میں ریاست کا بھی کردار ہو،سرمایہ داری کا بھی مکمل خاتمہ نہ ہو۔
2024 کی انتخابی مہم اور این پی پی کے منشور سے یہ بات واضح ہے کہ اگرچہ نیو لبرل ازم کی کوئی بھوک نہیں ہے اور نہ ہی یہ مربوط طور پر نیو لبرل مخالف ہے۔ این پی پی نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)کے جاری پروگرام سے اپنی وابستگی کا اعادہ کیا ہے،جو سری لنکا کو نیو لبرل کفایت شعاری میں مقید کررہا ہے۔
یہ (منشور) غریبوں پر بوجھ کم کرنے کے لیے موجودہ فریم ورک کے اندر کچھ تبدیلیوں پر بات چیت کرنے کی تجویز پیش کرتا ہے۔ تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے مقروض ملکوں کو قرض دیتے وقت پالیسی کے مطابق عائد کی گئی شرائط کے مطابق مقداری اور ساختی اہداف پر نظرثانی کرنے سے انکار پر معاہدہ توڑنے جیسے اقدام کا کوئی امکان نہیں ہے۔
این پی پی آزاد تجارت، غیر ملکی سرمایہ کاری اور برآمدی رجحان کا بھی حامی ہے۔ گھریلو پیداوار کو بڑھانے (یعنی کہہ تو نہیں رہے مگر امپورٹ سبسٹی ٹیوشن انڈسٹریلائزیشن)، سرکاری اداروں کی نجکاری کی مخالفت، توسیع شدہ سماجی پروگراموں اور بزرگوں، پنشنرز، نوجوان ماؤں اور چھوٹے بچوں والی خواتین، معذور افراد اور دائمی بیماریوں وغیرہ کے لیے بجٹ میں رقم مختص کرنے جیسے حوالوں کے ذریعے سے یہ ان کلاسک نیو لبرل اقدامات کا توڑ کرنا چاہتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ یہ طریقہ کار آئی ایم ایف کے معاہدے کے اندر رہتے ہوئے اور دولت کی تقسیم کے بغیر عوامی سرمایہ کاری کی سطح کے لیے مالیاتی بندوبست کیسے کرے گا؟ یاد رہے سری لنکا کی روایتی برآمدات:تیار ملبوسات، چائے اور ربڑ کی مصنوعات کی آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہورہا ہے۔ ادہر، 2027 کے بعد تجارتی اور دو طرفہ قرضوں کی ادائیگی بھی دوبارہ شروع ہونی ہے۔
نسلی کشیدگی اور آئینی اصلاحات سے نمٹنے کے لیے اے کے ڈی کی صدارتی جیت کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟
بالاسنگھم: 2022 کی عوامی بغاوت (اراگالیا/پوراتم/جدوجہد) کے بعد سے نسلی کشیدگی میں کمی آئی ہے۔ اراگالیا کے دوران اس’نظام‘ کے خلاف ’لوگوں‘ کی اجتماعی شناخت پیش کرنے کی شعوری کوششیں کی گئیں جو ان کے درمیان نسل اور عقیدے کی بنیاد پر تقسیم کا بیج بوتا ہے۔ این پی پی مسلسل نسل پرستی کے خلاف رہی ہے، اور اس کے اراکین میں نسلی اقلیتیں یعنی شمالی مشرقی نژاد تامل، ہل کنٹری تامل اور مسلمان(سری لنکا کی ایک نسلی اور مذہبی شناخت)شامل ہیں۔ 2024 کی انتخابی مہم دہائیوں بعد چلنے والی ایسی مہم ہے،جہاں امیدواروں نے نسلی اور مذہبی کشیدگی (جو یقینا حل نہیں ہوئی)کو ہوا دینے کی بجائے معیشت پر توجہ مرکوز کی۔
اے کے ڈی کو اپنی انتخابی جیت میں تامل اور مسلم کمیونٹیز، خاص طور پر یونیورسٹی کے طلبہ اور نوجوانوں کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی کے کچھ کارکنوں کی طرف سے بھی حمایت حاصل ہوئی جبکہ ان کا منشور تنازعات سے متاثرہ شمال اور مشرق میں تاملوں کے کچھ اہم خدشات کی نشاندہی کرتا ہے،جیسے انسداد دہشت گردی کی قانون سازی کا خاتمہ اور سیاسی قیدیوں کی رہائی، لاپتہ افراد کے خاندانوں کے لیے سچائی اور انصاف، ریاستی اداروں کے ذریعے زمینوں پر قبضوں کا خاتمہ، تامل بولنے والوں کے لیے عوامی خدمات تک رسائی، زیادہ خود مختاری کے لیے صوبائی کونسل کے نظام کو دوبارہ فعال کرنا، رہائش، زمین، صحت اور تعلیم کے لیے ہل کنٹری تاملوں (پلانٹیشن ورکرز کی اولاد) کے سماجی و اقتصادی خدشات کو دور کرنے سمیت بہت سے وعدے مبہم ہیں اور وعدوں کی تکمیل کیلئے وقت کا تعین بھی نہیں کیا گیا ہے۔
این پی پی نے ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں اور بدھ مت کے پادریوں کوساتھ ملانے کی کوشش کی ہے۔ یہ دوایسے قدامت پسند گروہ ہیں، جو جنگی جرائم کے لئے جوابدہی کے ساتھ ساتھ فیڈرل وحدانی ریاست کی تشکیل نو کے سخت خلاف ہیں۔ نئے صدر نے سری لنکا کے لیے ایک نئے آئین کا وعدہ کیا ہے جو صدر کے حد سے زیادہ اختیارات ختم کر دے گا اور ساتھ ہی ان علاقوں کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دے گا جن میں قومی اقلیتیں آباد ہیں۔
تاہم جب تک کہ وہ 14 نومبر کو ہونے والے عام انتخابات میں پارلیمانی اکثریت حاصل نہیں کر لیتے، اور/یا دیگر سیاسی جماعتوں سے اتحادی تلاش نہیں کرتے، ان کے پاس ان مسائل پر فیصلہ کن طور پر آگے بڑھنے کے لیے مطلوبہ پارلیمانی تعداد پوری نہیں۔ ان کا پارٹی اتحاد اور وہ اس بات سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ سنہالا قوم میں ان کی انتخابی بنیاد جو کئی دہائیوں سے شاونزم کی وجہ سے قائم ہے، وہ آئین سازی میں عدم دلچسپی رکھتی ہے یا بدترین طور پر مخالف ہے، کیونکہ آئین سازی کو قومی اقلیتوں کے زیادہ حقوق کو تسلیم کرنے اور ریاستی طاقت میں ان کے اشتراک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اگلے چند مہینوں کی سیاسی اور سماجی حرکیات سری لنکا میں ترقی پسند تبدیلی کے امکانات کا تعین کرے گی۔