لاہور(جدوجہد رپورٹ)حکومت پاکستان کی طرف سے حال ہی میں کالعدم قرار دی گئی پشتون تحفظ موومنٹ(پی ٹی ایم) کی جانب سے اعلان کردہ ’پشتون قومی جرگے‘ کو ناکام بنانے کے لیے حکومت نے اقدامات تیز کر دیئے ہیں۔ ضلع خیبر میں جرگے کے مقام کو پولیس اور ایف سی نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے اور مختلف مقامات پر خندقیں کھود دی گئی ہیں۔
پولیس کے ساتھ تصادم کے دوران کارکنوں پر آنسو گیس کی شیلنگ اور فائرنگ کے واقعات بدھ کو دن بھر پیش آتے رہے۔ فائرنگ کی زد میں آکر 3کارکنان ہلاک اور ایک درجن سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔
پی ٹی ایم کا دعویٰ ہے کہ پولیس نے ان کے 130سے زائد کارکنوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ بیان میں الزام عائد کیا گیاکہ سکیورٹی اہلکاروں نے جمرود میں جرگے کے اعلان کردہ مقام پر قبضہ کر رکھا ہے اور کارکنوں کی جانب سے مزاحمت کرنے پر سیدھی فائرنگ کی گئی ہے۔
بیان کے مطابق مرنے والوں میں خیل وزیر، طائف وزیر اور رمضان اتمان شامل ہیں۔ مقامی پولیس حکام نے تاحال اس واقعے پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق حیات آباد میڈیکل کمپلیکس پشاور کے ہسپتال ڈائریکٹر ڈاکٹر شیر زمان نے بتایا کہ مجموعی پر 13 زخمی لائے گئے تھے جس میں سے تین کی موت ہو گئی۔بعض زخمیوں کی سرجریاں ہو چکی ہیں، جبکہ بعض کی ابھی ہونی ہیں۔
واضح رہے کہ حکومت نے پشتون قومی جرگے کی تیاریوں میں مصروف پی ٹی ایم پر چند روز قبل پابندی عائد کر دی تھی۔ خیبر ضلع میں دفعہ 144نافذ کر کے 4سے زائد افراد کے اجتماع پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ تاہم دوسری طرف ڈپٹی کمشنر نے سپورٹس فیسٹیول بھی انہی تاریخوں میں منعقد کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
چیف سیکرٹری پختونخوا کی جانب سے بھی پی ٹی ایم کو جرگہ منعقد کرنے کے عمل کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے شہریوں کو اس میں شرکت سے پرہیز کرنے کی ہدایت کی ہے اور شرکت کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی بھی ہدایت دی گئی ہے۔
دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ نے پی ٹی ایم کا ساتھ دینے والوں کے شناختی کارڈ بلاک کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اسلام آباد میں میڈیا نمائندگان سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی ایم پی پابندی کے بعد پختونخوا حکومت نے 54افراد کو فورتھ شیڈول میں شامل کیا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ جو ریاست سے علیحدگی کی بات کرے گا، وہ ہمارا دشمن ہے۔ امن و امان کی صورتحال خراب ہے۔ کسی صورت متوازی عدالتی نظام کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
پختونخواہ میں پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت ایک طرف پی ٹی ایم کو قومی جرگے کے انعقاد سے روکنے کے لیے سرگرم ہے، جبکہ دوسری طرف کئی دیگر پارٹیوں اور تنظیموں کی طرح پی ٹی آئی کے سرکردہ رہنماؤں نے بھی جرگے کی حمایت کرتے ہوئے شمولیت کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔
صوبائی مشیر اطلاعات اور پی ٹی آئی رہنما بیرسٹر محمد علی سیف نے ایک پیغا م میں کہا کہ وفاقی حکومت نے پی ٹی ایم کو کالعدم کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا ہے، جس کے بعد قانوناً تنظیم کو کسی قسم کے سیاسی اجتماع، جلسے اور جلوس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس پیش رفت کے بعد کالعدم تنظیم کو ان کے اعلان کردہ 11 سے 13 اکتوبر کے اجتماع کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
بیرسٹر سیف کے مطابق کالعدم تنظیم نے گزشتہ دنوں ضلع خیبر میں اجتماع کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد ضلعی انتظامیہ نے دفعہ 144 کے تحت ایسی تمام سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی تھی۔
بیرسٹر سیف کے مطابق انتظامیہ کی کوشش ہے کہ حالات کو قابو میں رکھا جائے۔وزیر اعلیٰ کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ معاملات کو پر امن طریقے سے حل کریں۔
پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین نے گزشتہ رات کریک ڈاؤن کے بارے میں فیس بک پر لکھا کہ سکیورٹی اہلکاروں نے جرگے کے مقام پر خندقیں کھود دی ہیں۔
انہوں نے لکھا: ’ہماری حیثیت یہ رہ گئی ہے کہ اپنی روایات کے مطابق جرگے کے لیے اجازت بھی نہیں مل رہی لیکن اب جرگہ ہوگا اور اب تو جرگہ اور بھی ضروری ہوگیا ہے۔‘
ادھرپشاور ہائی کورٹ نے بدھ کو کہا ہے کہ وفاقی حکومت پشتون تحفظ موومنٹ پر پابندی کی وجوہات فراہم کرے۔
پشتون قومی جرگہ
ابتدائی طور پر پی ٹی ایم کی جانب سے تقریباً تین ماہ پہلے اس جرگے کا اعلان کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ اس جرگے میں پشتون اقوام، اضلاع، سیاسی جماعتیں اور یہاں تک کہ مختلف تنظیمیں بھی شرکت کریں گی۔
اعلان کے مطابق اس جرگے کے سلسلے میں ضلع خیبر میں 80 کیمپ لگائے جانے ہیں جن میں 45 کیمپس اضلاع کے لیے مختص ہوں گے جہاں ان کے نمائندے موجود ہوں گے۔ اس کے علاوہ 35 کیمپس سیاسی جماعتوں، مختلف تنظیموں اور دیگر شعبہ جات کے سربراہان کے لیے ہوں گے۔
شیڈول کے مطابق پہلے روز ایک بڑی سکرین پر پشتونوں کے خلاف گذشتہ برسوں میں جو مبینہ کارروائیاں یا مظالم ہوئے ہیں، جنگوں سے جو نقصانات ہوئے اور اس کے علاوہ متاثرہ افراد کی کہانیاں، ویڈیوز اور دستاویزی شواہد دکھائے جائیں گے۔
دوسرے دن بند کمرے میں بااثر شخصیات ان مسائل پر غور و فکر کریں گے اور پہلے دن جو دیکھا گیا اس پر روشنی ڈالیں گے۔ اس دن کے دوران ہر کیمپ سے ایک نمائندہ منتخب کیا جائے گا جو جرگے کے آئندہ کے لائحہ عمل پر اپنے رائے دے سکے گا۔
تیسرے دن منتخب نمائندگان حلف اٹھائیں گے اور آئندہ کے ایجنڈے اور لائحہ عمل کو تیار کریں گے۔ اس دن کا اختتام قومی عدالت جرگہ کے نتائج اور مستقبل کے لیے بنائے گئے لائحہ عمل کے باقاعدہ اعلان سے ہوگا۔
اس جرگے میں شرکت کے لیے پی ٹی ایم کے قائدین نے تمام سیاسی جماعتوں اورتنظیموں کو دعوت نامے بھیجے تھے۔ ان شخصیات میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور، مولانا فضل الرحمان، ایمل ولی خان، محمود خان اچکزئی اور دیگر بااثر شخصیات شامل ہیں۔
پی ٹی ایم کے رہنماؤں کے مطابق جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی اور پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی نے اس جرگے میں شریک ہونے کی یقین دہانی کروائی تھی۔
جمعیت علمائے اسلام کے قبائلی علاقوں کے رہنما مولانا جمال الدین نے سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ جمعیت کے کارکن جرگے میں شرکت کریں گے، وہ خود بھی جائیں گے اور اگر موقع ملا تو وہ جرگے میں تقریر بھی کریں گے۔
عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جماعت کے سربراہ ایم ولی خان اس جرگے میں شریک ہوں گے۔ گذشتہ روز جاری اس بیان میں کہا گیا تھا کہ عوامی نیشنل پارٹی پی ٹی ایم کی پختون قومی عدالت میں شرکت کرے گی۔
’جہاں بھی پختونوں کے حقوق، وسائل اور قربانیوں کی بات ہو گی اے این پی وہاں صفِ اول میں کھڑی نظر آئے گی۔‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس جرگے میں اے این پی کا وفد صوبائی صدر میاں افتخار حسین کی قیادت میں شرکت کرے گا۔