خبریں/تبصرے

پشاور: کرن خان کے کنسرٹ پر پولیس کا حملہ: شدید ردعمل

لاہور (جدوجہد رپورٹ) پشاور سٹی پولیس کی جانب سے معروف گلوکار کرن خان کے نجی کنسرٹ کو پرتشدد طریقے سے روکنے کے خلاف سوشل میڈیا پر شدید احتجاج کیا جا رہا ہے اور پولیس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ جمعہ کی رات پشاور پولیس نے نذیر آباد کے محلے میں ایک میوزک پارٹی پر چھاپہ مار کر میوزیکل آلات کو اکھاڑ پھینکنے کے علاوہ منتظمین اور فنکاروں کے ساتھ بدتمیزی کی۔ پولیس نے کرن خان اور دیگر فنکاروں کو گرفتار کر کے تھانے منتقل کیا۔ تاہم بعد ازاں انہیں رہا کر دیا گیاتھا۔

’ڈان‘ کے مطابق پولیس کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے مقامی لوگوں کی شکایت پر یہ کارروائی کی اور ممکنہ تصادم کو روکنے کیلئے کنسرٹ کو رکوایا، کیونکہ یہ کنسرٹ شب برات کے موقع پر منعقد کیا جا رہا تھا۔

پولیس کے مطابق پڑوس میں موجود مدرسے کے علاوہ سوشل میڈیا کے ذریعے شکایات موصول ہوئی تھیں۔

تاہم منتظمین کا کہنا ہے کہ پولیس پارٹی میں گھس گئی، موسیقی کے آلات کو توڑا اور لوگوں کو گرفتار کیا۔ ہنگامی آرائی کے دوران پیسوں سے بھرا ایک بیگ بھی گم ہو گیا۔

دلشاد آفریدی کے مطابق وہ 18 مارچ کی شب کرن خان کے ساتھ اپنے ایک دوست کی شادی کا جشن منانے جمع ہوئے تھے، تقریب میں 100 کے قریب لوگ موجود تھے۔ پولیس نے مہمانوں سے بدتمیزی کی اور موسیقی کے آلات کو توڑ دیا۔

سوشل میڈیا صارفین نے پولیس کی اس کارروائی کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

این ڈی ایم کے سربراہ محسن داوڑ نے ٹویٹر پر لکھا کہ ”پشاور میں کرن خان کے میوزک شو پر پولیس حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ دوسرے صوبوں میں پولیس موسیقی اور ثقافتی تقریبات کو سکیورٹی فراہم کرتی ہے، جبکہ پشاور میں پولیس ایسے پروگراموں پر حملہ کرتی ہے۔ کنسرٹ پر چھاپہ مارنے والوں کے خلاف فوری تعزیری کارروائی کی جائے۔“

کچھ سوشل میڈیا صارفین نے موسیقی کے حوالے سے طالبان کی عدم برداشت اور پشاورپولیس کے چھاپے کو مماثل قرار دیا۔

عوامی نیشنل پارٹی کے ایمل ولی خان نے کہا کہ ”اے این پی اس معاملے کو اسمبلی کے فلور پر اٹھائے گی تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ پولیس کو طالبان فورس کے طور پر کس نے استعمال کیا۔“

فنکاروں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور ادبی افراد نے بھی کرن خان کے میوزیکل کنسرٹ کے دوران پولیس کے چھاپے اور ہراساں کرنے کے اقدام پر سخت اعتراض کیا اور تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

اس واقعے کے خلاف پیر کے روز پشاور پریس کلب کے سامنے احتجاج بھی کیا گیا ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts