خبریں/تبصرے

فٹ پاتھ نہ سائیکل وے: شہروں میں ترقی صرف امیر طبقے کیلئے!

فاروق سلہریا

لاہور شریف خاندان کی توجہ کا مرکز تھا۔ ایک چیز جس کا کریڈٹ ان کے حمایتی انہیں دیتے ہیں اور شریف برادران خود بھی لیتے ہیں، وہ ہے: لاہور میں سڑکوں کا جال بچھانا۔

اس میں شک نہیں کہ لاہور میں سڑکوں کی صورتحال شریف خاندان کے دور میں بہتر ہوئی مگرٹریفک کے بے ہنگم پن میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹریفک کا مسئلہ سڑک چوڑی کر دینے سے حل نہیں ہوتا۔ اس کے لئے منصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے۔

دوسری اہم بات: سڑکیں تو بے ہنگم طریقے سے پھیلتے ہوئے شہر میں بنا دی گئیں مگر فٹ پاتھ ناپید ہیں۔ سائیکل وے کی تو بات نہ ہی کریں تو بہتر ہے۔

لاہور ہی نہیں، کسی بھی چھوٹے بڑے پاکستانی شہر میں ترقی کا ماڈل دیکھئے: سڑکیں کشادہ کر دی جائیں گی مگر فٹ پاتھ اگر کہیں ماضی میں موجود بھی تھے تو وہ کشادہ ہوتی سڑک کی بھینٹ چڑھا دئیے جاتے ہیں۔

گویا شہری ترقی صرف کاروں والوں کو ذہن میں رکھ کر کی جا رہی ہے۔ ادھر، ماحول دوست اور سستی پبلک ٹرانسپورٹ ناپید۔ عام عوام کومجبور کر دیا گیا ہے کہ وہ موٹر سائیکل پر گھومیں۔

اس ترقیاتی ماڈل کا مزا گاڑیوں والے لوٹتے ہیں۔ مالی فائدہ تیل بیچنے والے عرب شہزادوں کو ہوتا ہے۔ صنعتی منافع گاڑیاں بنانے والے سامراجی ممالک کو ہوتا ہے۔ پاکستانی عوام کے حصے میں غربت، متعفن ہوا، پاگل کر دینے والی ٹریفک اور سڑکوں کی مٹی آتی ہے۔

اس میں بھی شک نہیں کہ جان بوجھ کر ایک ایسا کلچر پروان چڑھایا گیا ہے کہ لوگ بھی انتہا درجے کے تن آ سان ہوتے جا رہے ہیں۔ محلے کی دکان سے دودھ دہی بھی لانا ہو تو موٹر سائیکل پر لایا جائے گا۔

ہمارا اپنے شہر میں ترقی کا کام کرنے والے اداروں سے مطالبہ ہونا چاہئے کہ سڑک کے ساتھ فٹ پاتھ بنائے جائیں۔ اسی طرح سائیکل ویز بنائے جائیں تا کہ پیدل چلنے اور سائیکل چلانے کا کلچر رواج پکڑے۔ ہماری معیشت اور ماحول ایسی ترقی کے متحمل نہیں ہو سکتے جس میں مواصلات اور ٹریفک کا نظام عرب شہزادوں، سامراجی صنعت اور بگڑی ہوئی مقامی اشرافیہ کے مفاد اور آرام کے لئے رواج دیا گیا ہو۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔