میرپور(حارث قدیر) پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے شہر میرپور میں نوجوان انجینئر محسن علی کی مبینہ جبری گمشدگی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا ہے۔ اس احتجاجی مظاہرے میں سیکڑوں شہریوں نے شرکت کی اور مقامی انتظامیہ کو 48گھنٹے میں محسن علی کی بازیابی کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے 11فروری کو میرپور میں مکمل لاک ڈاؤن کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
میرپور کرکٹ سٹیڈیم کے قریب سے سے رواں ماہ 2 فروری کو رات 8 بجے جبری طور پر اغواء کیے گئے نوجوان محسن علی عرف محسن دوسپال کا تاحال سراغ نہیں لگایا جا سکا ہے۔ اہل خانہ کے مطابق انتظامیہ نے اس معاملے میں ان کی مدد کرنے میں مکمل بے بسی کا اظہار کر دیا ہے۔
28 سالہ محسن جنیہال میرپور کے رہائشی ہیں۔ انہیں رواں ماہ 2 فروری کی شام 8 بجے میرپور اسٹیڈیم کے سامنے سے اغواء کیا گیا۔ محسن کے بڑے بھائی محبوب چوہدری کے مطابق پولیس کو اسی روز رپورٹ کر دی گئی تھی۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں بھی پتہ چل گیا تھا کہ ایک کالی ویگو گاڑی اور ایک دوسری گاڑی میں سوار لوگوں نے محسن کو اغواء کیا۔ مذکورہ گاڑیاں بغیر کسی چیکنگ کے منگلا چیک پوائنٹ کراس کر کے علاقہ پاکستان میں داخل ہوگئیں۔
انکا کہنا تھا کہ منگلاچیک پوسٹ پر سی سی ٹی وی فوٹیج بھی دیکھی گئی ہے، جس میں گاڑیاں وہاں سے گزرتے ہوئے دیکھی گئی ہیں۔ چیک پوسٹ پر موجود اہلکاروں کا کہنا تھا کہ مذکورہ گاڑیوں میں سوار افراد نے انہیں بتایا کہ وہ ایف آئی اے اسلام آباد سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے انہیں بغیر کسی رکاوٹ جانے دیا گیا۔
محسن کی رہائی کے لیے احتجاجی مہم چلانے والے نوجوانوں میں شامل سیاسی و سماجی رہنما نغمان عارف کمپلوی کا کہنا ہے کہ ایک طرف پولیس نے یہ بتایا کہ منگلا چیک پوسٹ سے اس لیے انہیں جانے دیا گیا کیونکہ وہ ایف آئی اے سے اپنا تعلق بتا رہے تھے، لیکن اب 7 روز گزرگئے ہیں اور پولیس کہہ رہی ہے کہ انہیں محسن کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
محبوب چوہدری کے مطابق محسن نے انجینئر نگ کی تعلیم حاصل کی ہے، نعت خوانی اور گلوکاری سے ان کا گہرا شغف ہے۔ بیروزگاری کی وجہ سے وہ ویڈیو ایڈیٹنگ کے ذریعے اپنا گزر بسر کررہے تھے اور انہوں نے ایک سٹوڈیو بھی بنا رکھا تھا۔ ان کے مطابق محسن کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق کبھی نہیں رہا۔
محسن نے گزشتہ عرصے میں ایک تنقیدی گانا بھی بنایا تھا جس میں وزیراعلی پنجاب مریم نواز سمیت دیگر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ محسن کا یہ گانا سوشل میڈیا پر گزشتہ کچھ روز سے کافی وائرل ہورہا تھا۔محسن کی سوشل میڈیا سرگرمیوں کو بھی دیکھا جائے تو وہ فوج کے ملکی سیاسی اور معاشی معاملات پر اثرورسوخ کے سخت ناقد تھے۔ محسن کے تنقیدی گیت اور سوشل میڈیا سرگرمی کو ہی ان کی جبری گمشدگی کی مبینہ وجہ بھی سمجھا جارہا ہے۔
پاکستان میں پیکا ایکٹ کے بعد ایف آئی اے کی جانب سے سوشل میڈیا پر تنقید کا سلسلہ دبانے کے لیے مقدمات قائم کر کے گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کیا گیاہے۔ تاہم پاکستانی زیرانتظام جموں کشمیر میں یہ اس نوعیت کی پہلی جبری گمشدگی ہے، جس کی نہ تو کوئی ایف آئی آر سامنے آئی ہے اور نہ ہی گمشدہ ہونے والے نوجوان کے بارے میں یہ معلومات فراہم کی گئی ہے کہ اسے کہاں رکھا گیا ہے۔
اس سے قبل دہشت گردی میں ملوث ہونے یا ملکی راز غیر ملکی ایجنسیوں کے ساتھ شیئر کرنے کے الزام میں کچھ لوگوں کو اغواء یا لاپتہ کیے جانے کے واقعات پیش آئے ہیں، جن میں سے کچھ کے مقدمات فوجی عدالتوں میں زیرکار بتائے گئے ہیں اور کچھ کو فوجی عدالتوں سے اسی نوعیت کے الزامات میں سزائیں دینے کے بعد کوٹلی جیل میں بھی منتقل کیا جا چکا ہے۔
ایف آئی اے ایک پاکستان کا وفاقی تحقیقاتی محکمہ ہے اور جموں کشمیر میں وہ کسی نوعیت کی کارروائی آزادانہ طور پر نہیں کرسکتا۔ ملزمان تک رسائی کے قانون کے تحت مقامی انتظامیہ اور محکمہ داخلہ سے اجازت طلب کرنے کے بعد مقامی پولیس کے ذریعے ایسی گرفتاری اس وقت عمل میں لائی جا سکتی ہے، جب کسی ملزم کے خلاف مقدمہ درج ہو۔ تاہم محسن کے کیس میں ایسا نہیں کیا گیا۔ نہ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ محسن کو کس ایجنسی یا محکمے نے اغواء کیا ہے۔
جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے عہدیدار ارسلان شانی کا کہنا ہے کہ جتنا بھی سنگین جرم ہو ماورائے آئین اور قانون جبری گمشدگی کو کسی طور بھی جسٹیفائی نہیں کیا جا سکتا۔ فوجی عدالتوں کے ذریعے سزائیں سنا کر خاندانوں کو خاموش رہنے کا پابند بنا کر مبینہ ملزمان کو جیلوں میں بند رکھنا بھی ایک سامراجی اقدام ہے اور بغیر کسی مقدمے کے نوجوان کو اغواء کرنا بھی انسانیت کے خلاف ایک سنگین جرم ہے۔
انکا کہنا تھا کہ محسن کو فوری طور پر بازیاب کیا جائے۔ اگر کسی جرم میں محسن مطلوب ہے تو مقدمہ کا اندراج کر کے اسے فری اینڈ فیئر ٹرائل کا حق دیا جائے۔ اگر محسن کو فوری بازیاب نہیں کیا جاتا تو احتجاج کا یہ سلسلہ میرپور تک محدود نہیں رہے گا۔