فاروق سلہریا
سال 2014ء کے آخری تین مہینوں میں سٹاک ہولم، بلکہ پورے سویڈن میں دو پاکستانی خواتین کا بصد احترام ذکر ہو رہا تھا۔ ایک تو تھیں ملالہ یوسف زئی جنہیں نوبل انعام دیا گیا تھا۔ دوسری شخصیت تھیں عاصمہ جہانگیر۔ انہیں اُس سال کا ”متبادل نوبل انعام“ (رائٹس لائیولی ہُڈ ایوارڈ) دیا گیا تھا۔
میں اُن دنوں سٹاک ہولم میں تھا۔ مجھے لاہور سے ہمارے دوست اوربائیں بازو کے رہنمافاروق طارق کا پیغام ملا کہ عاصمہ جہانگیر سٹاک ہولم آ رہی ہیں اور آپ ان کے لئے ایک استقبا لئے کا انعقاد کریں۔
عاصمہ جہانگیر سے میری بھی شناسائی تھی۔ ایک سیاسی کارکن کے طور پر ان سے کہیں نہ کہیں آمنا سامنا ہو جاتا تھا۔ میں نے فاروق طارق کی ہدایات کے بعد عاصمہ جہانگیر سے رابطہ کیا۔ اُن کا اصرار تھا کہ کسی تکلف میں پڑے بغیر سٹاک ہولم میں مقیم ترقی پسند دوستوں کے ساتھ ایک ملاقات کا بندوبست کرو۔
میں نے اپنے دوستوں: اجمل بٹ، کامل صدیقی مرحوم اور ریاض کے ساتھ مل کر تیاری شروع کر دی۔ باقی سب تیاری تو ٹھیک چل رہی تھی۔ ایک ذاتی مسئلہ تھا۔ میری بیٹی بیلا ابھی پانچ سال کی تھی۔ تقریب کا اہتمام شام کو ممکن تھا۔ میرے گھر سے سٹاک ہولم آنا جانا تین گھنٹے کا سفر بن جاتا ہے۔ کسی بے بی سٹر (Baby Sitter)کا بندوبست بھی کرنا تھا تا کہ وہ ہماری بیٹی کا خیال رکھ سکے۔ اب مصیبت یہ تھی کہ جن دوستوں سے بے بی سٹنگ کے لئے مدد مانگی جا سکتی تھی وہ خود استقبالئے میں شریک ہو رہے تھے۔
ادھر نہ صرف میری پارٹنر سحرصبا بلکہ عاصمہ جہانگیر بھی ایک دوسرے سے ملنا چاہتی تھیں۔ سحر صبا افغان عورتوں کی تنظیم”جمعیت انقلابی زنان افغانستان“ (جو ”راوا“ [RAWA]کے نام سے مشہور ہے)کی ترجمان تھیں۔ عاصمہ جہانگیر افغان خواتین ایکٹوسٹس میں کافی مقبول تھیں۔ وہ”راوا“ کی تقریبات میں شریک ہو چکی تھیں۔ ایک اہم بات یہ بھی تھی کہ سٹاک ہولم کی خواتین بھی عاصمہ جہانگیر سے ملنے کے لئے بے تاب تھیں۔ سچ تو یہ ہے کہ شائد خواتین کا جانا زیادہ ضروری تھا۔
ہمارے گھر میں روز شام کو اس موضوع پر بات ہوتی کہ بے بی سٹنگ کا کیا کیا جائے، کس سے مدد مانگی جائے۔ جن دوستوں سے بات کی انہوں نے معذرت کر لی۔ ادھر ہر روز سویڈش ٹیلی وژن اور ریڈیو پر ملالہ اور عاصمہ جہانگیر کا ذکر ہو رہا تھا۔ ہماری بیٹی بیلا بھی یہ سب کچھ سن رہی تھی۔ دونوں نام اس کے کانوں میں گونج رہے تھے۔
تقریب سے دو دن پہلے جب کچھ بندوبست نہ ہو سکا تو ہم نے سوچا کہ بیلا کو ساتھ ہی لے جاتے ہیں۔ وہ اکثر سیاسی جلسوں میں ہمارے ساتھ جاتی تھی اور کبھی پریشانی کا باعث نہیں بنی تھی بلکہ میرا تجربہ یہ ہے کہ سیاسی جلسوں اور تقریبات میں بچوں کی شرکت سے ایک رونق آ جاتی ہے۔ ہاں مگر بیلا کو ایسے جلسوں میں جانا زیادہ پسند نہ تھا کیونکہ وہاں کم ہی کوئی اور بچہ ہوتا تھا جس کے ساتھ وہ کھیل سکے۔
قصہ مختصر، جب بیلا کو پتہ چلا کہ اسے بھی استقبالئے میں شریک ہونا پڑے گا تو وہ چلائی:”میں نے نہیں ملنا ملالہ جہانگیر سے“۔
ہم دونوں ملالہ جہانگیر کی اصطلاح پر خوب ہنسے۔ جب عاصمہ جہانگیر سے ملاقات ہوئی تو انہیں بھی یہ واقعہ سنایا۔ وہ خوب ہنسیں۔
دورانِ تقریب بیلا میری گود میں سو گئی۔ میں تقریب کی میزبانی بھی کر رہا تھا۔ شرکا عاصمہ جہانگیر سے بے شمار سوال بھی پوچھ رہے تھے اور ان سے بات جاری رکھنا چاہتے تھے۔ دو گھنٹے کیسے گزرے، پتہ نہیں چلا لیکن عاصمہ جہانگیر کی نظر بیلا پر تھی۔ انہوں نے مجھے بولا تقریب ختم کرو، بیٹی کو گھر لے جاؤ، وہ بہت تھک چکی ہے۔
گذشتہ صبح جب فیس بک وال پر گیا تو اس تقریب کی تصویر موجود تھی جس میں عاصمہ جہانگیر کو متبادل نوبل انعام دیا گیا تھا۔ میں تھوڑا رنجیدہ ضرور ہوا مگر عاصمہ جہانگیر ہوتیں تو مجھے کہتیں کہ اپنے دکھ کو اپنی طاقت بناؤ۔
مجھے یاد آیا متبادل نوبل انعام سویڈن کی پارلیمنٹ میں دیا جاتا ہے اور وزیر اعظم سمیت ساری پارلیمان اس تقریب میں شرکت کرتی ہے۔ یہ انعام بھی دسمبر کے مہینے میں دیا جاتا ہے۔ عاصمہ جہانگیر اپنے ساتھ چار مہمانوں کو لے کر جا سکتی تھیں۔ میں اور میری پارٹنر بھی مدعو تھے۔ مسئلہ پھر یہی تھا کہ بے بی سٹنگ کون کرے گا۔ میں نے گھر پر رہنے کا فیصلہ کیا مگر مجھے یاد ہے وہ دسمبر سویڈن میں رہنے والے کسی بھی پاکستانی اور ترقی پسند انسان کے لئے یاد گار تھا۔ پاکستان کی دو بہادر عورتوں کی وجہ سے ہم سب کا سر فخر سے بلند تھا۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔