ضیغم عباس
ترجمہ: محمد علی
حال ہی میں مجھے ملک کے نامی گرامی پبلک سیکٹر تعلیمی ادارے گورنمنٹ کالج لاہور یونیورسٹی (جی سی یو) سے برطرف کیا گیا۔ یہ امر پاکستان کے تعلیمی شعبے کو درپیش ایک اہم مسئلے کی طرف اشارہ ہے کہ تعلیمی آزادی پر پابندیاں بڑھائی جارہی ہیں۔ جب سے پی ٹی آئی نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی ہے، تنقیدی سوچ، بحث و مباحثہ اور اختلاف رائے کے لیے تعلیمی اداروں میں جگہ ختم ہوتی جارہی ہے اور پاکستان میں یونیورسٹیوں کا نوجوانوں میں استدلال اور ذہنی نشونما کو فروغ دینے کا بنیادی کردار سلب ہوتا جارہا ہے۔
میں نے جی سی یو لاہور کے شعبہ سیاسیات میں نومبر 2015ء سے لے کر مارچ 2020ء تک اپنے فرائض سرانجام دیے۔ میں کنٹریکٹ پر وہاں نوکری کررہا تھا اور کنٹریکٹ کا اجرا ہر چھ ماہ بعد کیا جاتا تھا۔ میرا تعلق گلگت سے ہے، جس کا شمار پاکستان کے دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں ہوتا ہے، میں نے ہمیشہ تعلیم کے شعبے کو اپنا مستقبل بنانے کا خواب دیکھا اور اسی اثنا میں سی ایس ایس یا دیگر زیادہ مراعات یافتہ پیشوں کو چھوڑ کر جی سی یو میں پڑھانے کا ارادہ کیا۔ یہ وہ دور تھا جب گریجوایٹ کرکے لوگ سی ایس ایس کرکے مراعات یافتہ نوکریاں حاصل کرنے کے خواہاں ہوتے تھے، لیکن جب میں نے تعلیم کے شعبے میں جانے کا فیصلہ کیا تو سارے دوست احباب حیران ہوگئے۔ پچھلے چار سال میں نے کم تنخواہ اور کام کی زیادتی کے باوجود، کبھی ایسا موقع آنے نہ دیا جب اپنے فرض کو پوری دل جوئی اور استقامت سے ادا نہ کیا ہو۔
لیکن پھر بھی فروری 2020ء کے اختتام پر جی سی یو کی انتظامیہ نے میرے کنٹریکٹ کا اجرا نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس حوالے سے نہ تو مجھے کوئی نوٹس دیا گیا اور نہ ہی کسی خط کے ذریعے کنٹریکٹ کے اجرا نہ کرنے کی وجوہات بارے بتایا گیا۔ کنٹریکٹ کے اختتام کے دو دنوں بعد مجھے بتایا گیا کہ اب میرے پاس کوئی نوکری نہیں۔ مجھے میری برطرفی کی یہ وجہ پتہ چلی کہ میں ”بہت سیاسی“ ہوں۔ مزید برآں سٹوڈنٹ یونین اور کیمپس کے دیگر معاملات کے حوالے سے میری رائے کو بہت لبرل سمجھا جاتا تھا، جس کی بنیاد پر مجھے بڑے بڑے طاقت ور دفاتر میں بیٹھے کم ظرف افراد نے خطرناک گردانا۔
مجھے معلوم ہوا کہ فوری طور پر برخاستگی کی وجہ میری سرپرستی میں کشمیر کے بارے میں کیا جانے والا ایک اوپن مائیک سیشن بنا۔ اس اوپن مائیک سیشن کے دوران طلبہ نے کشمیر کے حوالے سے مختلف تناظر میں اپنی آرا کا اظہار کیا۔ ظاہری سی بات ہے میں نے طلبہ کو کھل کر اپنی آرا کا اظہار کرنے کی آزادی دینے کی غلطی کی تھی۔ تنقیدی سوچ فراہم کرنے کے لیے آزادی رائے کا اظہار ایک لازمی جز وہوتا ہے۔ میرا کنٹریکٹ برخاست کردیا گیا اور مجھے گھر جانے کا کہہ دیا گیا۔
لیکن یہ معاملہ پہلی دفع نہیں ہوا۔ کئی دیگر مثالیں موجود ہیں جہاں یونیورسٹیوں میں تعلیمی آزادی کا پرچار یا بدعنوانی کی طرف نشاندہی کرنے والے اساتذہ کو یونیورسٹی انتظامیہ نے برطرف کردیا ہو۔ میری برطرفی سے صرف دو ماہ قبل، جی سی یو نے ایک بہترین ریاضی دان اور ماہر طبیعیات ڈاکٹر عامر اقبال کو کھو دیا۔ ڈاکٹر عامر نے 456صفحات پر مبنی ایک تفتیشی رپورٹ تیار کی تھی جس میں یونیورسٹی کے اندر ہونے والی بدعنوانی کی طرف نشاندہی کی گئی تھی۔ ڈاکٹر عامر، عبدالسلام سکول آف میتھامیٹکل سائنسز (اے ایس ایس ایم ایس) جی سی یو میں پڑھاتے تھے۔ وہ بھی کنٹریکٹ ملازمت پر تھے، ان کے کنٹریکٹ کا اجرا ہر سال کیا جاتا تھا۔ ڈاکٹر عامر نے ایک بہت خوفناک بدعنوانی کی طرف نشاندہی کی تھی جس میں یونیورسٹی انتظامیہ نے پاکستان کے سب سے بڑے ریاضی کے ا دارے کے لیے فراہم کردہ 638 ملین پاکستانی روپے کے فنڈز کا غلط استعمال کیا تھا۔
کسی بھی اور ملک میں ڈاکٹر عامر کی رپورٹ کے بعد بدعنوانی میں ملوث افراد جیلوں میں ہوتے، لیکن اس کے برعکس، ڈاکٹر عامر کو اس رپورٹ کی سزا دی گئی اور ان کے کنٹریکٹ کا اجرا نہ کیا گیا۔ صرف پندرہ روز کے بعد وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے اور ان کو امریکہ کی بہترین یونیورسٹیوں میں سے ایک نے بلا لیا۔ اس طرح جی سی یو اور پاکستان نے اپنے سب سے بہترین ریاضی دانوں میں سے ایک کو کھو دیا۔
2017ء کے دوران اسی جامع میں ایک اور کیمرج سے تعلیم یافتہ تعلیم دان ڈاکٹر عمار جان کو سمسٹر کے دوران ہی نوکری سے برخاست کردیا گیا۔ نوکری میں آتے ہی ڈاکٹر عمار طلبہ کے ہردلعزیز ہوگئے، طلبہ ایک عرصے سے جی سی یو کے زہر آلود تعلیمی ماحول میں کسی علمی شخصیت کی راہ تک رہے تھے۔ ڈاکٹر عمار کا جرم صرف اتنا تھا کہ انہوں نے یونیورسٹی میں سکالرز کو مدعو کیا تاکہ طلبہ ان سے بات چیت کرکے سیکھ سکیں۔ ڈاکٹر عمار کی فی الفور برخاستگی کی وجہ ہجوم کے ہاتھوں توہینِ مذہب کے الزام پر تشدد کی وجہ سے ہلاک ہونے والے عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کے ساتھ اظہار یکجہتی میں نکالا جانے والا ایک پرامن احتجاج بنا۔
ان واقعات کے باوجود نہ تو حکومت اور نہ ہی ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان نے ان برخاسگیوں پر توجہ دی۔ صوابدیدی اختیارات کی بنا پر کی جانے والی برخاستگیاں اب پاکستان میں ایک معمول بنتا جارہا ہے۔ تعلیمی آزادیوں پر لگنے والی ان قدغنوں کی وجہ سے پاکستانی کیمپس رٹا سسٹم کی فیکٹری بن کر رہ گئے ہیں۔ ماحول ایسا ہے کہ گریجویٹ طلبہ کو رائے عامہ سے متفق ہونے کی مشین بنایا جارہا ہے اور پورے تعلیمی میکانزم کو استعمال کرکے یقینی بنایا جارہا ہے کہ وہ ایک بتائے گئے نیشنل زاویے سے ہٹ کر نہ سوچ پائیں۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک کو کئی بحرانوں کا سامنا ہے، ہمارے طلبہ میں خود سے سوچنے اور سوالات کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے تاکہ وہ اپنے معاشرے کے فعال اراکین بن سکیں۔
لیکن نظریات اور سکیورٹی کے نام پر ہماری یونیورسٹیوں کے کرتے دھرتوں نے حق آزادی رائے اور سوچنے کی آزادی کو طلبہ سے چھین لیا ہے۔ اسی وجہ سے ہمارا مجموعی شعور زوال کا شکار ہے۔ اس شعوری زوال پذیری کے نتائج ہم2017ء میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں مشال خان کے قتل کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔ مزید برآں، ریسرچ اور تنقیدی سوچ کے زوال نے پاکستانی یونیورسٹیوں کو دنیا بھر میں سب سے نیچے لاکر کھڑا کردیا ہے۔
2019ء کی’QS‘ درجہ بندی کے تحت پاکستان کی کوئی بھی یونیورسٹی سوشل سائنس کے اعتبار سے پہلی 500 کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔ پاکستان کی یونیورسٹیوں نے اقبال احمد کے علاوہ کوئی بھی قابل ذکر عالمی سطح کا دانشور تیار ہی نہیں کیا اور نہ اب ان میں ایسا کرپانے کی صلاحیت، ماحول اور سہولیات موجود ہیں۔ ان ساری ناکامیوں کی وجہ واضح ہے: پاکستان کا اپنی نیشنل سکیورٹی کے ساتھ جنون اور سوشل سائنس کے حوالے سے سکیورٹی کے نقطہ نظر سے کی جانے والی ریسرچ نے ہماری معیاری ریسرچ اور دانش پیدا کرنے کی صلاحیت کو تباہ کردیا ہے۔
یونیورسٹیوں میں میرٹ اور برابری کے سسٹم کی عدم موجودگی نے طلبہ کو بہتر مستقبل بنانے سے محروم کرنے کے علاوہ پاکستان کے ایسے دانشوروں اور ریسرچرز جو گروہی سیاست کے بجائے لگن کے ساتھ تعلیم دینے کے فرائض سرانجام دینا چاہتے ہیں، کو جلد یا بدیر ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا ہے۔