عمار علی جان
کرونا وائرس نے ہمارے سماجی، معاشی اور سیاسی ڈھانچے میں موجود شدید عدم مساوات کو بے نقاب کر کے رکھ دیا ہے۔ میں یہاں چار مثالوں کے ذریعے واضح کروں گا کہ یہ بحران کتنا گہرا ہے اور ایک ملک کے طور پر ہمیں اپنی ترجیحات کا از سرِ نو تعین کرنے کی شدید ضرورت ہے۔
اول، لاک ڈاؤن کے دوران کمپنیوں نے کچے ملازمین کو تنخواہیں دینے سے انکار کر دیا۔ اکثر فیکٹریوں میں کچے ملازموں کی تعداد مستقل ملازموں سے بھی زیادہ ہے۔ مالکان کچے ملازموں کو اپنا ملازم ہی نہیں مانتے۔ مالکوں کا کہنا ہے کہ کچے ملازم تو دیہاڑی کے عوض مزدوری کے لئے کام کرتے ہیں۔ گویا دیہاڑی نہیں تو مزدوری نہیں۔ بہ الفاظِ دیگر، مزدور وں کی ایک بڑی تعداد کو اس بحران میں بے یار و مدددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔ یاد رہے، یہ مزدور ہی ہیں کہ جن کے دم سے دنیا کا پہیہ گھومتا ہے۔
دوم، ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں مگر کرونا وبا کے دوران ہمارے پاس اتنے بھی وسائل نہیں کہ ہم ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرا میڈیکل سٹاف کو حفاظتی لباس ہی فراہم کر سکیں۔ یہ کس طرح کی دفاعی پالیسی ہے جس میں صحتِ عامہ کی طرف کوئی دھیان نہیں۔ اس وبا کے دوران ہیلتھ ورکرز، مریضوں اور شہریوں کے دفاع کے لئے کوئی نظام نہیں۔
سوم، یونیورسٹیوں نے آن لائن لیکچرز کے ذریعے کلاسز جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ بعض طلبہ کے پاس ان کے گھروں میں انٹرنیٹ کی مناسب سہولت نہیں ہے۔ یہ فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ منتظمین اور انتظامیہ کا ڈیجیٹل تقسیم بارے رویہ کتنا ظالمانہ ہے۔ اس فیصلے کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ پہلے سے محروم طلبہ مزید محرومی کا شکار ہو جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ طلبہ سمسٹر بریک لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور ان کا یہ مطالبہ بالکل جائز ہے۔
آخری بات، اِس وبا کے باوجود دور دراز علاقے جنہیں ہم پاکستانی مرکز کا مضافاتی علاقہ قرار دے سکتے ہیں، وہاں شہریوں کے خلاف جبر میں کوئی کمی نہیں آئی۔ عالمگیر وزیرگذشتہ سال طلبہ یکجہتی مارچ میں تقریر کی پاداش میں پابندِ سلاسل ہیں۔ گلگت بلتستان میں بابا جان، اوکاڑہ میں مہر عبدالستار اور اسی طرح ان گنت سیاسی قیدی اور لاپتہ افراد ہماری ریاست کے عقوبت خانوں میں پڑے ہیں۔ اِس عالمی وبا کے موقع پر بھی ان کو کسی قسم کا ریلیف نہیں دیا جا رہا۔ یوں لگتا ہے کہ ’اندرونی دشمن‘ کا خبظ ریاست کے سر پر سوار ہے حالانکہ اس بحران کے دوران ضرورت اس بات کی تھی کہ ان زخموں پر مرہم رکھا جائے جو ہماری سیاست کا ناسور بن چکے ہیں۔
شہریوں کو سبق سکھانے اور خطے میں برتری کا خواب اب ترک کر دینا چاہئے۔ یہ وقت انسانیت کو ترجیع دینے کا ہے۔ اب یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ ہماری خامیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے ہمارے کچھ شہریوں کی زندگیاں غیر محفوظ ہو گئی ہیں۔ گو یہ وقت سماجی دوری کا ہے مگر یہی وقت سماجی یکجہتی کا بھی ہے۔ ان لوگوں سے یکجہتی جنہیں ’قومی‘ بحرانوں کے دنوں میں یاد نہیں رکھا جاتا۔
یہ وقت یہ سوال اٹھانے کا ہے کہ ہم اس حال اور انجام کو کیسے پہنچے۔ یہ وقت ہے ایک نیا راستہ تلاش کرنے کا جو ہمارے افسوسناک ماضی سے مختلف ہو۔