قیصر عباس
راجہ مظفر کا شمار کشمیر کے ان سینئر رہنماؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے جد وجہد ِآزادی میں کشمیر کی ترقی پسند قوتوں کا ساتھ دیا اور نامساعد حالات کا مقابلہ بھی کیا۔ اپنے سیاسی اصولوں اور صاف ستھری سیاست کی بنیاد پر کشمیر کے تمام دھڑے ان کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کا تعلق بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے شہر اُڑی سے ہے جو کچھ عرصہ پہلے فوجی چھاؤنی پر خودکش حملے کے بعد خبروں میں بھی رہا۔ بٹوارے کے ہنگاموں میں جب اُڑی بھارت میں شامل ہوا تو انہیں اپنے رشتہ داروں اور آبائی گھر کو خیرباد کہہ کر پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں نقل مکانی کرنی پڑی۔ وہ اپنے ہی ملک میں اس ہجرت کے بارے میں کہتے ہیں:
”جنگ بندی لائن‘کی منحوس لکیر اس یقین دہانی کے ساتھ سرزمینِ کشمیر کے سینے پر کھینچی گئی کہ اس سے کشمیری عوام کی پر امن آمد و رفت پرکوئی قدغن نہ ہوگی۔ لیکن یہ بات ایک بڑا دھوکہ ثابت ہوئی۔ اس خونی لکیر نے ہمارے گھربار، خاندان، رشتوں، ناطوں اور قبرستانوں تک کو تقسیم کردیا۔‘‘
راجہ مظفر’کشمیر لبریشن فرنٹ‘ کے سینئر وائس چیئر مین، سیکرٹری جنرل اور قائم مقام چیئر مین بھی رہے۔ وہ آج کل امریکہ کے شہر ڈیلاس میں مقیم ہیں اور دو تنظیموں ’ساوتھ ایشیا ڈیموکریسی واچ‘ اور’کشمیر گلوبل کانفرنس نیویارک‘ کے ذریعے سماجی کاموں اور مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لئے مصروفِ عمل ہیں۔ روزنامہ جدوجہد سے کیے گئے اس خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کشمیر کی موجودہ صورت حال اور اس کے اثرات کا فکرانگیز تجزیہ کیا ہے:
انڈیا نے اس ہفتے کشمیر کو دو انتظامی علاقوں لداخ اور جموں کشمیر میں تقسیم کرنے کے علاوہ آرٹیکل 370 کی دفعات کوبھی ختم کر دیا ہے جن کے تحت ریاست کو خصوصی اختیارات حاصل تھے۔ ان اقدامات پر آپ کا کیا ردعمل ہے؟
بھارتی حکومت نے ان نئے اقدامات کے ذریعے علاقائی سا لمیت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ آئین کی دفعہ 370 کو منسوخ کر کے اقوام متحدہ کی قراردادوں، پاکستان کے ساتھ شملہ اور تاشقندکے دو طرفہ معاہدوں اور شیخ عبداللہ کے ساتھ کیے گئے معاہدوں بشمول دہلی ایکارڈ‘ سب کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں۔ ان اقدامات سے بھارت نے جموں کشمیر میں اپنے مفادات کوہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن بھی کر دیا ہے۔ بھارت اگر کشمیر کو فلسطین بنانا چاہتا ہے تو یاد رکھے کہ کشمیریوں نے گزشتہ بہتر سالوں میں اپنے گھربار نہیں چھوڑے۔ وہ آزادی پانے کے لئے اپنے وطن میں رہتے ہوئے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں اور رکھیں گے۔
حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کشمیر میں جولوگ ہمیشہ بھارتی حکومت کے ساتھ رہے تھے وہ بھی اب ان کے سخت خلاف نظرآتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ کشمیری بھی جو باچپائی کی سوچ کے مطابق علاقے کی خودمختاری اور جغرافیائی یکسوئی کے حق میں تھے وہ بھی بھارتی اقدامات کے خلاف ہوگئے ہیں۔
کشمیر میں آج تین قسم کی تحریکیں موجود ہیں‘ بھارت کے حق میں، پاکستان کے حق میں اور مکمل آزادی کے حق میں۔ ان نئے اقدامات کو یہ تحریکیں کس طرح دیکھتی ہیں؟
بھارت کے ان اقدامات کے بعد جولوگ بھارت کے حق میں تھے وہ بھی اب کشمیر کی مکمل خودمختاری کے حامی بن جائیں گے۔ اس طرح کشمیر میں پہلے سے موجود ایک خودمختار ریاست کے قیام کے حامی کیمپ میں مزید اضافہ ہوگااور اگر پاکستان کی حکومت نے اخلاص کا مظاہرہ کیا توممکن ہے وہ بھی مکمل آزادی کا مطالبہ کرنے والوں کی حمایت کرے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے مابین دوطرفہ مذاکرات میں کشمیریوں کو نظرانداز کیا جاتاہے۔ آپ کیا کہتے ہیں؟
خیال ہی نہیں یہ حقیقت ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات میں کبھی بھی کشمیری قیادت کو شامل نہیں کیاگیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کشمیریوں کو شامل کیے بغیر آپ ان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ نہیں کرسکتے اورنہ ہی کشمیری کوئی بھیڑ بکریوں کا ریوڑ ہیں۔ کشمیر صرف زمین کے ایک ٹکڑے کا تنازعہ نہیں ہے بلکہ یہاں سوال کشمیر یوں کی تاریخی روایات، ثقافت، زبان، انسانی حقوق اور ان کے حق ِخود ارادیت کا ہے۔ کسی بھی فیصلے میں ان کی شرکت ایک لازمی امر ہے جس کو نظر اندازکرنا ایک فاش غلطی ہے۔
آپ کے خیال میں کشمیر کے تنازعے کا کیا حل ہے جو سب کے لئے قابلِ قبول ہو؟
ہماری خواہش تھی اور ہے کہ بھارت اور پاکستان سے پرامن مذاکرات کے ساتھ ہم ایک آزاد جمہوریہ جموں کشمیرکی بنیاد رکھیں اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ پرامن تعلقات قائم کریں۔ لیکن حالیہ اقدامات کے بعدبھارت اب مسئلہ کشمیر کا فریق نہیں رہا۔ البتہ آئندہ وجود میں آنے والی آزاد کشمیری حکومت سے وہ کس قسم کے تعلقات رکھے گااس کا انحصار اس کے رویے پر ہے۔ جموں کشمیر کی مکمل آزادی اور اپنی شناخت کی بحالی ہی کشمیر کے مسئلے کاحل اور اس کی منزل بن چکی ہے۔ پاکستان کو کشمیریوں کے حق اور جدوجہد کی غیر مشروط مدد اور حمایت کرنی چاہیے۔
انڈیا کے وزیراعظم نریندرا مودی ملک میں مذہبی اورمعتصبانہ سیاست کے محرک ہیں جس میں مسلمانوں اور اقلیتوں کی کوئی جگہ نہیں۔ لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اپنی حکومت کے دورمیں ہی کشمیر کا مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کا تجزیہ کیاہے؟
مودی نے وادی کشمیر کے محاصرے کے ذریعے اپنا حل تو پیش کرہی دیاہے لیکن آپ نے دیکھا کہ اس حل کے نتیجے میں تین ایٹمی طاقتیں جنگ کے دہانے پر آچکی ہیں۔ مودی کا حل تو اور کئی تنازعات کو جنم بھی دے چکاہے۔ اقوامِ متحدہ کے فوجی مبصرین کاکردار، اس کی قراردادیں اورشملہ معاہدہ سب اڑگئے ہیں۔
کچھ مبصرین کہتے ہیں کہ آج پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سول حکومت ا ور فوجی قیادت ایک پیج پر ہیں اور یہی موقع ہے کہ کشمیر کا کوئی قابل قبول حل تلاش کرنے کی کوشش کی جائے۔ کیا یہ نقطہ نظر درست ہے؟
یہ درست ہے کہ پاکستان کی سول حکومت پوری طرح سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہے اور دفاعی ادارے بھی ان کے ہم نواہیں۔ یہ صورتِ حال واقعی کشمیر ی تنازعے کے ممکنہ حل کے لئے بہت موزوں ہوسکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا بھارت اور پاکستان اس مسئلے کے حل کے لئے مخلص اور ذہنی طورپر تیار ہیں؟
اس نئی صورت حال کے پس منظر میں کشمیر کے تنازعے کا کیا مستقبل ہے؟
جموں کشمیر کے تنازعے کامستقبل پورے جنوبی ایشیا کی سلامتی اور سارک ممالک کے اغراض و مقاصدکی تکمیل کے ساتھ جڑا ہواہے۔ جو اب سی پیک کے منصوبے کے ذ ریعے چین سے بھی جڑچکاہے۔ چین، بھارت اور پاکستان تینوں ایٹمی طاقتوں کی اپنی بقا اور ترقی کا تقاضا ہے کہ جموں کشمیر کو ایک آزاد ریاست کا درجہ دیں جو ا ن کے لئے بفر ذون بھی بن سکتاہے۔ تینوں ممالک نئی ریاست میں سرمایہ کاری کریں اوراسے ایشیا کا سوئٹزرلینڈ بنا کر سیاحتی مرکزمیں تبدیل کریں۔ جنوب ایشیا کے غریب عوام بہترسال کے مصائب، تشدد اور سماجی ٹوٹ پھوٹ کے بعد اب علاقے میں امن اور شانتی چاہتے ہیں!
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔