لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) جمعرات کے روز معروف امریکی دانشور نوم چامسکی نے نیوز چینل’ڈیموکریسی ناؤ‘ سے ایک انٹرویو میں برنی سینڈرز کی صدارتی مہم سے دستبراداری بارے بات کرتے ہوئے امریکی سیاست پر مختصر تبصرہ کیا۔ ان کا یہ انٹرویو ذیل میں پیش ہے:
”اگر ٹرمپ دوبارہ صدر بن گئے تو یہ ناقابلِ بیان تباہی ہو گی۔ ٹرمپ کی دوبارہ جیت کا مطلب ہے کہ گذشتہ چار سال کی پالیسیاں جو امریکی لوگوں بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کے لئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوئیں، نہ صرف وہ جاری رہیں گی بلکہ امکان ہے کہ ان میں شدت آ جائے۔ صحت کے شعبے کے لئے تو ٹرمپ کا دوبارہ انتخاب انتہائی برا ثابت ہو گا۔
ٹرمپ کے ری الیکشن کا جائزہ ماحولیات اور ایٹمی جنگ کے حوالے سے پیش خطرات کے ضمن میں بھی لیا جانا چاہئے۔ فی الحال کوئی اس کی بات نہیں کر رہا۔ ان حوالوں سے بھی ٹرمپ کی واپسی انتہائی خطرناک ہو گی جس کا ابھی اندازہ لگانا ہی ممکن نہیں۔
اگر جُو بائڈن صدر بنے تو میرے خیال سے یہ اوبامہ عہد کا تسلسل ہو گا۔ یہ کوئی خاص پیش رفت نہ ہوگی مگر مکمل تباہی سے بہتر ہے۔ کم از کم منظم لوگوں کے پاس ایک امکان ہو گا کہ وہ حکومت پر تبدیلی کے لئے کوئی دباؤ ڈال سکیں۔
یہ کہا جا رہا ہے کہ برنی سینڈرز کی انتخابی مہم ناکام ہو گئی۔ ایسا کہنا غلط ہو گا۔ یہ کمپئین غیر معمولی حد تک کامیاب رہی۔ اس کمپئین نے بحث مباحثے کا رخ ہی موڑ دیا۔ جن مسائل پر چند سال قبل بات کرنا بھی ممکن نہ تھا، وہ مسائل اب مرکز نگاہ بنے ہوئے ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ کی نظر میں سینڈرز کا سب سے بڑا جرم وہ پالیسیاں نہیں تھیں جو وہ تجویز کر رہے تھے، ان کا اصل جرم یہ تھا کہ انہوں نے پاپولر تحریکوں کی حوصلہ افزائی کی۔ یہ تحریکیں آکوپائی (Occupy)اور بلیک لائفز میٹر وغیرہ کی شکل میں موجود تھیں۔ انہوں نے ایسی تحریکوں کو ایکٹوسٹ تحریکوں میں بدل دیا۔
سینڈرز کی تحریک ماضی کی ویسی تحریکوں جیسی نہیں جو کسی رہنما کو کسی ایک عمل پر مجبور کر کے، اس سے بات منوا کر دم توڑ دیتیں ہیں۔ سینڈرز کی تحریک نے مسلسل دباؤ برقرار رکھاہے اور مسلسل سیاسی عمل میں حصہ لیا ہے۔ یہ تحریک بائڈن انتظامیہ پر بھی دباؤ ڈال سکے گی۔“