پاکستان

سرمایہ داری وائرس کا علاج: سوشلزم

خیرالنسا چانڈیو
 
پوری دنیا میں جہاں لوگ کرونا وائرس سے مر رہے ہیں، وہاں کرونا وائرس سے بڑھ کر دنیا میں ایک اور خطرناک وائرس جو صدیوں سے موجود ہے، سرمایہ داری ہے۔کرونا جیسے وائرس ماضی میں بھی  جنم لیتے رہے ہیں اور میڈیکل سائنس ان پر قابو پاتی رہی ہے۔ اور اسی طرح کرونا وائرس پر قابو پانے کی کوشش بھی جاری ہے اور ایک اندیشے کے مطابق ویکسین کی تیاری کے ساتھ کچھ مہینوں یا اگلے سال تک اس پر مکمل قابو پا لیا جائے گا۔ مگر چند صدیاں پہلے جنم لینے والے سرمایہ داری جیسے وائرس کی نشوونما پہلے سے مزید بہتر طریقے سے کی جا رہی ہے حالانکہ اسکا خاتمہ بھی ممکن ہے۔ جو بہت کٹھن بھی ہے۔
 
سرمایہ داری دوسرے وائرسز سے بہت مختلف ہے اور اس ایک وائرس سے دنیا میں مزید سینکڑوں وائرسز کا جنم ہوا۔ جیسا کہ غربت، بیروزگاری، بیماریاں، جہالت اور ان کے علاوہ اور بھی ایسے بہت سارے وائرس جو اس کرہ ارض سے بہت بڑی انسانی آبادی کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ یہ سرمایہ داری کا وائرس دوسرے وائرسز سے ایک عمل سے ملتا جلتا نظر آتا ہے وہ یہ کہ وائرس کی طرح نہ اسے مردہ تصور کیا جاتا ہے اور نہ زندہ۔ بلکہ کسی ہوسٹ میں داخل ہوتے ہی اس میں جان آ جاتی ہے اور ہوسٹ سے الگ ہوتے ہی مردہ تصور کیا جاتا ہے۔ سرمایہ داری بھی کچھ اسی طرح سے کام کرتی ہے، وہ مزدور کے خون اور پسینے سے زندہ رہتی ہے۔ 
 
جو ایک الگ بات ہے وہ یہ کہ ان وائرسز کے خاتمے کی ویکسین لیبارٹریوں میں بنا کر ہسپتالوں میں لائی جاتی ہے اور لوگوں کو اس وائرس سے بچنے کے لیے ہسپتال جانا پڑتا ہے۔ مگر سرمایہ داری وائرس کی ویکسین بھی ڈیڑھ صدی پہلے تیار کی جا چکی ہے اور سرمایہ داری جیسے وائرس سے نجات پانے کے لیے ہسپتالوں کا نہیں گلیوں اور چوراہوں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ ہر جاندار اپنی بقا کی خاطر لڑتا ہے اور اسے لڑنا پڑتا ہے اور ہمیشہ طاقتور دوسرے پر غلبہ حاصل کرتا ہے۔ کرونا جیسے وائرس کچھ وقت کے لیے نمودار ہوتے ہیں اور پھر انکا خاتمہ کیا جاتا ہے مگر یہ جو سرمایہ داری کا وائرس ہے یہ ہر سال، ہر مہینے، ہر ہفتے، ہر دن، ہر گھنٹے، حتی کہ ہر سیکنڈ انسان کی گردن میں تلوار بن کر چلتا رہتا ہے۔
 
بی بی سی کی 2013  کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر دن، ہر ایک منٹ کے بعد چار بچوں کی موت واقع ہوتی ہے اور اس کی وجہ بھوک ہے۔ اموات کی اس شرح میں پہلے سے کئی گنا زیادہ اضافہ ہوا ہے اور ہر سال بھوک کے باعث مرنے والوں کی تعداد جو 9 ملین تھی ان چند سالوں میں حالات مزید سنگین ہونے کے باعث اس شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ معاشی حالات نے لوگوں کے ذہنوں میں  سنگین اداسی کی لہروں کو جنم دیا ہے۔ مایوسی نے محنت کش طبقے کے گھروں کو اپنا ٹھکانا بنا دیا ہے اور ایک خوف کے سائے کی طرح ان کے ساتھ رہتی ہے۔ یہ خوف کرونا وائرس کا نہیں بلکہ وہ خوف بیروزگاری کا اور بھوک کا ہے۔ پوری دنیا کا کاروباری پہیہ جس تیز ترین رفتار سے گھوم رہا تھا اس وبا نے اس رفتار کو  بہت سست رفتار بنا دیا ہے۔
 
کاروباری سرگرمیاں بند ہوتے ہی معیشت کا دم گھٹنے لگا اور یقیناً ہر چیز کا تعلق معیشت سے ہے۔ معیشت ہی کی بنیاد پر لوگوں کے حالات کا اندازا لگایا جا سکتا ہے۔ اس دوران پوری دنیا میں بیروزگاری کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کے حالات پہلے بھی ٹھیک نہ تھے مگر اب تو حکومت کی نا اہلی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ جب پاکستان میں کرونا وائرس میں مبتلہ مریضوں کا اضافہ ہوا تو سب سے پہلے سندھ حکومت نے بہت بڑے فیصلے دعواٶں کے ساتھ کیے۔ اور سندھ حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ دنیا میں ان کے کام اور عمل کو سراہا جا رہا ہے۔ سندھ حکومت نے بہت بڑی بڑی باتیں کی نوٹیفیکیشنز بھی جاری کیے اور کہا گیا کہ ادارے بند ہونے کی صورت میں بھی ہر نجی ادارے پر یہ فرض ہو گا کہ لوگوں کو انکی تنخواہیں مقررہ وقت میں ادا کی جائیں۔ اور کسی بھی ادارے کو اس وقت کوئی حق نہیں کہ وہ لوگوں سے ان کی نوکری چھین کر انہیں بیروزگار کرے جب تک کہ حالات مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہوجاتے۔ مگر باتیں ہمیشہ کی طرح محض باتیں ہی رہیں اور سرمایہ داروں نے حکومت کے ان فیصلوں  کو سن کر ان سنا کر دیا اور ان نوٹیفیکیشنز کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ سندھ کے ایک نام نہاد ادارے نے ایک ہی وقت میں 26 نوجوانوں کو نوکری سے فارغ کردیا یہ کہہ کر کہ اس وقت ادارہ خسارے میں ہے جو کہ ایک سفید جھوٹ تھا۔
 
سندھ کے دوسرے بڑے چینل مہران ٹی وی نے 16 تاریخ کو 18 نوجوانوں کے گھروں میں کال کی کہ آپ فارغ کردیے گئے ہیں۔ دوسرے دن  10مزید نوجوانوں کو فارغ کردیا گیا اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ وہاں کام کرنے والے کئی ایسے افراد تھے جن کے گھروں میں کینسر میں مبتلہ مریض بیجان بستروں میں اپنی جان سے چمٹے ہوئے مرض سے لڑ رہے ہیں۔ وہ غربت سے نمٹتے، بیماریوں سے نمٹتے یا ان کی طرف منہ پھاڑے استقبال کردہ بیروزگاری سے? وہاں کئی ایسے افراد بھی تھے جو چینل کھلنے کے پہلے دن سے اس کے ساتھ تھے اور ایک ہی لمحے میں انہیں دو الفاظ کہہ کہ فارغ کردیا گیا۔ وہاں کئی ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے اپنی جوانی کے 13 سال اس ادارے کو دے دیے تھے اور بڑی بے رحمی سے انکی وفاٶں کا مذاق اڑایا گیا۔
 
جب ایک نوجوان سے میں نے پوچھا کہ یہاں سبھی کی تعلیم ادھوری ہے، ایسا کیوں تو اس نے جواب دیا کہ کام سے فرصت ہی نہیں ملتی تو پڑھائی کہاں سے کرتے۔ یہ ہیں ہمارے حالات جہاں والدین زندہ رہنے کے لیے اپنے بچوں کو 14-13سال کی عمر میں کام پہ لگا دیتے ہیں۔اور کیا یہ محض 30 نوجوانوں کے بیروزگار ہونے کی بات تھی? نہیں یہ 30 خاندانوں کے منہ سے نوالہ چھیننے کی بات ہے۔ وہاں کام کرنے والے سبھی شادی شدہ، تین تین‘ چار چار بچوں کے والدین تھے اور جو ابھی بچے تھے ان کے اوپر خاندان کا بوجھ تھا۔ وہاں کام کرنے والے کرونا وائرس کو نظر انداز کر کے مقررہ وقت پر آفس پہنچ جایا کرتے تھے کہ کہیں نوکری سے نہ نکال دیے جائیں اور وہ سبھی مکمل ڈیڑھ ماہ سے اپنی ذمہ داری بڑی ایمانداری سے نبھاتے رہے۔ ایک ایسا بڑا ادارہ جہاں صاف پانی تک میسر نہ تھا، ہاتھوں کو سینیٹائز کرنے کے لیے بھی کوئی چیز میسر نہ تھی، مزدوروں کو تنخواہیں مہینے کے آخر میں دی جاتی تھیں اور سندھ کے دوسرے بڑے ٹی وی چینل مہران ٹی وی نے یہ ارادہ بھی کیا کے جن مزدوروں کو کام سے نکال دیا گیا کیوں نہ انکی ڈیڑھ ماہ کی تنخواہیں ہڑپ کرلی جائیں۔ کیا یہ قانون کی خلاف ورزی نہیں? ان جیسے تمام محنت کشوں کا جن کو سرمایہ داری کا وائرس نگل رہا ہے، ایک ہی حل ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کو جڑوں سے اکھاڑتے ہوئے یہاں ایک منصوبہ بند معیشت قائم کی جائے۔
Roznama Jeddojehad
+ posts