فاروق سلہریا
کرونا وائرس دنیا کے بیس ممالک میں پھیل چکا ہے۔ چین میں چانچ سو لوگ اس وائرس کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ پاکستان میں ایک میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے ابھی تک یہی حل بتایا ہے کہ وضو کی مدد سے کرونا وائرس سے بچا جا سکتا ہے۔ عام لوگوں میں واٹس اپ گروپس پر یہ بات پھیلائی جا رہی ہے کہ ”حرام“ کھانے کی وجہ سے چین میں کرونا وائرس آیا۔ ایسے گروپس میں یہ نہیں بتایا جا رہا ہے کہ ”حلال“ کھانے والے پچھلے دس سال سے ڈینگی وائرس کا شکار کیوں ہو رہے ہیں؟
پاکستان یا پاکستان سے باہر بھی جب کوئی آفت آتی ہے تو مذہبی حلقے اور بنیاد پرست سوچ رکھنے والی سیاسی جماعتیں مذہب کے لفافے میں لپیٹ کر توہمات کو فروغ دینا شروع کر دیتے ہیں۔ زلزلے اور سیلاب کو اللہ کا عذاب قرار دے دیا جاتا ہے۔
ان مذہبی قوتوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ جس قدر توہمات عام ہوں گے، اس قدر ان کی سیاست آگے بڑھے گی۔ یہ سلسلہ پاکستان تک محدود نہیں۔ امریکہ ہو یا ہندوستان، مذہبی جنونی قوتیں اپنی سماجی اور سیاسی بنیاد کو وسیع کرنے کے لئے عوام دشمن، غیر منطقی اور غیر سائنسی نظریات آگے بڑھاتے ہیں۔
ہندوستان میں حسبِ توقع بی جے پی والے لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ گائے کا پیشاب کروناوائرس سے بچا سکتا ہے۔ جب نوے کی دہائی میں دونوں ملکوں نے ایٹمی دھماکے کئے تو ایٹمی تابکاری کی بحث بھی چھڑی۔ ہندو بنیاد پرست لوگوں کو بتا رہے تھے کہ گائے کا گوبر گھر پر لیپ دیں، ایٹمی تابکاری کا اثر نہیں ہو گا۔
ان ڈھونگیوں کی قلعی کئی دفعہ کھل چکی ہے۔ تعویذ دھاگے سے کینسر کا علاج کرنے والے پیر سائیں خودعلاج کے لئے لندن جائیں گے۔ عجوہ کھجوروں سے دل کے امراض کا علاج بتانے والے ایک مولانا کو دل میں درد ہوا تو بائی پاس کرانے پہنچ گئے۔ اور تو اورمولانا مودودی سفرِ آخرت پر ایک امریکی ہسپتال سے ہوتے ہوئے روانہ ہوئے۔
مذہبی جنونیوں کی پھیلائی ہوئی سوچ سے حکمران طبقے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ ہسپتال، دوا دارواور تحقیق پر بجٹ خرچ کرنے کا مطالبہ اور جدوجہد نہ کرو۔ کسی آفت، وبا یا بیماری سے بچ جاؤ تو شکر کرو، شکار ہو جاؤ تو اپنے آپ کو مجرم سمجھو کیونکہ یہ تمہارے گناہوں کی سزا ہے۔ نجات چاہئے تو مولویوں اور پروہتوں کے کاروبار میں اضافے کے لئے چندے دے کر اوپر والے کو راضی کرو۔
سیدھی سی بات ہے، اگر کرونا نے پاکستان یا بھارت کا رخ کیا تو ان دونوں ممالک میں اس وبا سے نپٹنے کی کوئی تیاری نہیں۔ چین نے جو ہسپتال سولہ دن میں بنا دیا، یہاں ستر سال میں نہیں بن سکا۔ حکمران اور امیر لوگ تو لندن جا کر علاج کروا لیں گے، میرے آپ جیسے لوگوں کو وضو کے لئے پانی بھی دستیاب نہیں ہونا۔
گلوبل ہیلتھ سکیورٹی انڈیکس
اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ (جو اکانومسٹ کا ملحقہ ادارہ ہے) نے بعض دیگر اداروں کی مدد سے پچھلے سال اکتوبر میں گلوبل ہیلتھ سکیورٹی انڈیکس (جی ایچ ایس) تیار کیا تھا۔ اسے انہوں نے دنیا کا پہلا جامع ہیلتھ انڈیکس قرار دیا تھا۔ اس فہرست میں شامل 195 ممالک کے شعبہ صحت کا اس حوالے سے جائزہ لیا گیا کہ وہاں فلو جیسے وبائی امراض سے لے کر بائیو حملوں کے نتیجے میں پھیلنے والی بیماریوں سے نپٹنے کی کتنی صلاحیت ہے۔
اس فہرست میں پاکستان کا نمبر 105 واں ہے۔ پہلے پانچ درجوں پربالترتیب امریکہ، برطانیہ، ہالینڈ، آسٹریلیااور کینیڈاآتے ہیں۔
گویا اگر کرونا وائرس آیا تو مٹی کے لوٹے میں پانی بھر کر رکھ لیں!
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔