فاروق سلہریا
دو دن قبل جب کابل کے زچہ بچہ وارڈ پر حملہ ہوا تو اس کے بارے میں مجھے کابل میں مقیم اپنے افغان دوستوں کی فیس بُک وال سے پتہ چلا۔ میں نے فوری طور پر بی بی سی اردو کی ویب سائٹ کا رُخ کیا۔
افغانستان میں طالبان کی بربریت کو جس فاتحانہ انداز میں پاکستان کے نیوز چینل پیش کرتے ہیں، اُس کے پیش نظر میں پاکستانی میڈیا پر افغانستان کی خبروں کے لئے انحصار نہیں کرتا لیکن پاکستان کے تجارتی میڈیا نے شائد اس خبر پر کل دھیان نہیں دیا۔ بی بی سی اردو پر اس خبر کو آنے میں چوبیس گھنٹے لگے۔ بی بی سی فارسی کے فرنٹ پیج پر یہ خبر جلد ہی غائب ہو گئی البتہ بی بی سی پشتو کی سائٹ پر یہ خبر موجود تھی۔
منگل کی شام کو میں نے سویڈن کے چینل فور پر خبریں سنیں۔ خبر سرے سے غائب تھی۔ گذشتہ روز پاکستانی وقت کے مطابق، شام چھ بجے کے قریب، میں نے سی این این، رائٹرز، اے ایف پی، ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) اور الجزیرہ کی ویب سائٹ پر اس خبر یا اس کے فالو اپ تلاش کرنے کی کوشش کی۔ ماسوائے اے پی اور الجزیرہ کے، کسی ویب سائٹ پر کابل کے بدقسمت زچہ بچہ وارڈ یا ننگرہار میں جنازے پر خود کش حملے بارے کوئی فالو اپ نہ تھا۔
میں سوچ رہا تھا اگر یہ زچہ بچہ وارڈ لندن یا پیرس میں ہوتا تو کیا عالمی میڈیا سے یہ خبر، یہ سانحہ ایسے ہی غائب ہوتا؟ فرض کریں یہ زچہ بچہ وارڈ سری نگر یا لاہور میں ہوتا تو کیا پاکستانی میڈیا ایسے ہی چین کی بانسری بجاتا رہتا؟ کابل کے زچہ بچہ وارڈ میں نشانہ بننے والے بچے تو آرمی پبلک اسکول پشاور کے بچوں سے بھی چھوٹے تھے۔
عالمی اور مقامی میڈیا کی سرفنگ کرنے کے بعد مجھے وہ نسل پرست برطانوی صحافی یاد آیا جس نے کہا تھا کہ اخبار کے لئے ہزار مینڈکوں (مراد افریقی) کے مرنے کی اتنی اہمیت ہوتی ہے جتنی پچاس بھوروں (مراد ایشین) کی اور پچاس بھوروں کے مرنے کو اتنی کوریج ملتی ہے جتنی ایک انگریز کی موت کو۔
باقی دنیا کا تو معلوم نہیں کم از کم پاکستان کے تجارتی میڈیا میں تو کسی کو شرم آنی چاہئے تھی۔ اس المئے پر مگر مچھ کے آنسو ہی بہائے ہوتے۔ آخر کار جو ارتغرل زادے دو دن پہلے نومولود بچوں پر گولیاں چلا رہے تھے چالیس سال سے ان کی سرپرستی پاک سر زمین سے ہی توہو رہی ہے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔