لاہور (پی ٹی یو ڈی سی/جدوجہد رپورٹ) 22مئی کو پی آئی اے کی فلائٹ نمبر PK-8303 لاہور سے کراچی جاتے وقت حادثے کا شکار ہو گئی۔ اس فلائٹ میں عملے اور مسافروں سمیت کل 99 افراد سوار تھے۔ جہاز لینڈنگ کے وقت کراچی کے رہائشی علاقے پر کریش کر گیا۔ محکمہ صحت سندھ کے مطابق ابھی تک 97 افراد کے ہلاک ہونے کی خبر ہے۔ معمول کی طرح واقعہ کی انکوائری کا آغاز کر دیا گیا ہے، شاید پچھلےحادثوں کی طرح اس حادثے کی رپورٹ بھی کبھی منظر عام پر نہ آسکے۔ اس دفعہ بھی ریاست کی جانب سے حادثے کا قصور وار پھر محنت کشوں کو ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بڑے بڑے ناموں پر پردہ ڈال کر محنت کشوں کو قربانی کا بکرہ بنانے کی تیاریاں کیں جا رہی ہیں۔ ابھی حادثے کی وجوہات کے بارے میں کوئی ٹھوس وجہ بتانا قبل از وقت ہو گا کیونکہ ابھی تحقیقات جاری ہیں۔ تاہم پی آئی اے کے انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ حادثے کا شکارایئر بس میں پہلے سے ہی فنی خرابی تھی، انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے متعدد بار انتظامیہ کو خطوط لکھے گئے تھے۔ ان کے مطابق ان کی جانب سے متعدد بار پرزے منگوانے کی درخواستیں دی گئی تھیں، لاہور سے ٹیک آف سے پہلے بھی اس طیارے کے انجن میں خرابی پیدا ہوئی تھی۔ اے آر وائی نیوز کے مطابق باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی پہنچ کر طیارے کا لینڈنگ گیئر نہ کھلنے کی تحقیقات ہورہی ہیں، کسی طیارے کا لینڈنگ گیئر نہ کھلے تو اس کا انجن خرابی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، طیارے کا لینڈنگ گیئر نہ کھلنا اور دونوں انجن خراب ہونا سوالیہ نشان ہیں۔
پی آئی اے کے ملازمین کے خلاف تمام تر بے ہودہ الزامات، جھوٹ اور بہتان تراشیوں کے باوجود یہ ملازمین ہی ہیں جو تمام تر مشکل حالات، کم مراعات اور کم تنخواہ پرکام کر رہے ہیں۔ اہم ڈیپارٹمنٹس میں کئی محنت کش کئی سالوں سے کام کرنے کے باوجود ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ پر کام کر رہے ہیں۔ سخت حالات اور طویل اوقات کار کے باوجود ان کی اکثریت محنت سے کام کر رہی ہے۔ وہ ایماندار اور مہربان بھی ہیں۔ ایسے کئی واقعات ہیں جو ان ملازمین کی عظمت اور کام کے ساتھ ان کے خلوص کی عکاسی کرتے ہیں۔ ادارے میں جبری برطرفیاں جاری ہیں، 31 اگست 2019ء کو مشیر خزانہ حفیظ شیخ کے ساتھ اجلاس کے دوران چیئرمین پی آئی اے ارشد ملک نے فخریہ انداز میں بتایا کہ اس نے پی آئی اے سے 1000 ’زائد‘ محنت کشوں کو برطرف کر دیا ہے۔ حکمرانوں کی جانب سے دانستہ طور پر پی آئی اے جیسے ادارے کو تباہ و برباد کیا گیا۔ کبھی گراؤنڈ سروسز سے لے کرکیٹرنگ تک، پی آئی اے ہوائی سفر سے متعلق تمام خدمات میں خود کفیل تھی مگر اس کی خدمات کو آؤٹ سورس یعنی نجی شعبے کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ پی آئی اے کی پائلٹوں کی تنظیم، ’پالپا‘ ایئر لائن میں کیبن کریو کے لئے حفاظتی اقدامات کے حوالے سے لمبے عرصے سے انتظامیہ سے بات چیت کر رہی ہے مگر انتظامیہ ان کے مطالبات پورا کرنے کو تیار نہیں۔ طیارہ کریش کے بعد پالپا کے جوائنٹ سیکرٹری کپٹین قاسم قادر نے ایک بار پھر واضح کیا کہ سب سے پہلے پرواز اور اس کے عملے کی سیفٹی کو یقینی بنانا ضروری ہے، تاہم پی آئی اے انتظامیہ اخراجات کنٹرول کرنے کی غرض سے سیفٹی پر سمجھوتہ کرتی رہی ہے۔
اسی طرح 2016ء میں چترال سے اسلام آباد جانے والی PK-661 فلائٹ حادثہ کا شکارہو گئی تھی اور اس کی تحقیقاتی رپورٹ مکمل ہو چکی ہے لیکن منظرعام پر نہیں لائی گئی، 2010ء میں ایر بلیو فلائٹ 202 حادثے کا سارا ملبہ پائلٹ پر ڈال دیا گیا تھا۔ اس حوالے سے اہم بات ماضی کے حادثات کے حوالے سے حقیقی رپورٹس منظر عام پر لانا ضروری ہیں تاکہ مستقبل میں ایسے حادثات سے بچا جا سکے۔ لیکن پی آئی اے میں محنت کشوں کی آواز کو دبانے کے لئے لازمی سروسز ایکٹ کا نفاذ عمل میں لایا جا چکا ہے جس کے مطابق محنت کشوں کے تمام جمہوری حقوق سلب کئے جا چکے ہیں۔ ان کے پاس اختیار نہیں کہ وہ کسی مسئلہ پر اپنی رائے بھی دے سکیں اور جیسے بھی حالات ہو ان کے لئے کام کرنا لازمی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ماضی کے حکمرانوں کی معاشی پالیسیوں اور ترجیحات کی وجہ سے آج عوامی ادارے تباہ و برباد ہو چکے ہیں۔ کراچی جہاز حادثہ نہیں بلکہ قتل عام ہے، اس قتل عام کے ذمہ دار کون ہیں؟ ان حقیقی ذمہ داران کا تعین کیا جائے۔ چیئرمین پی آئی اے ایئرمارشل ارشد ملک سے استعفی لیکر اعلیٰ تحقیقاتی کمیشن قائم کرکے اس قتل عام کو روکنے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ آج پاکستان میں شعبہ ہوائی بازی ایک منافع بخش صنعت بن چکی ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں آئے روز نئی نجی ایئرلائن داخل ہو رہی ہے۔ حکمرانوں کی جانب سے میڈیا پر ہمیشہ محنت کشوں اور عوامی اداروں کے خلاف منظم مہم چلائی گئی اور اب بھی ایسا ہی کی جا رہا ہے۔ اس حادثے کو جوا ز بناتے ہوئے پی آئی اے کی نجکاری کے لئے راہ ہموار نہ کی جائے بلکہ عوامی اداروں کو مضبوط کرنے کے لئے پالیسیاں مرتب کی جائیں۔
مطالبات
ہم حکومتی طرز عمل کی سخت مذمت کرتے ہوئے مندرجہ ذیل مطالبات کرتے ہیں تاکہ ہوائی سفر کو محفوظ بنایا جا سکے اور کئی قیمتی جانوں کو بچایا جا سکے۔
٭چیئرمین و سی ای او پی آئی اے ایئرمارشل ارشد ملک، چیئرمین سول ایوی ایشن حسن ناصر جامی، سول ایوی ایشن ایڈیشنل ڈی جی ائیر مارشل اشرف بھٹی اور وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کو فوری طور پر برطرف کرتے ہوئے انہیں انکوائری میں شامل کیا جائے۔
٭پی آئی اے اور سول ایویشن اتھارٹی کا عالمی ہوا بازی کی تنظیمیں انٹرنیشنل سول ایویشن آرگنائزیشن اور IATA کے اصولوں کے مطابق پالپا کے نمائندگان کو شامل کرتے ہوئے انٹرنیشنل آپریشنل سیفٹی آڈٹ IOSA کروایا جائے۔
٭حادثے کے انکوائری کمیشن میں پی آئی اے کی ٹریڈ یونین اور پالپا کے عہدے داروں کی نمائندگی یقینی بنائی جائے اور رپورٹ کو منظر عام پر لایا جائے۔
٭چونکہ طیارہ GE Capital Aviation Services سے لیز پر حاصل کیا گیا تھا، لہٰذا ان کو بھی تحقیقات میں شامل کیا جائے۔
٭ پائلٹس کے لئے حفاظتی انتظامات IATA کے سٹینڈرڈ کے مطابق کئے جائیں۔
٭لازمی خدمات کا قانون فوری طور پر ختم کیا جائے اور ادارے میں ٹریڈ یونین پر پابندیاں ختم کیں جائیں۔
٭ آپریشنل پلینگ اور بورڈ آف ڈائریکٹر ز میں محنت کشوں کے نمائندوں کو لازمی شامل کیا جائے۔ نیز کمرشل ایئر لائن کے تجربہ کار ماہرین کو ہی ادارے میں اعلیٰ عہدوں پر تعینات کیا جائے۔
٭سول ایویشن کے قانون کے مطابق ایئرپورٹ کے قریب خلاف ضابطہ نا جائز تعمیرات کی اجازت دینے والے متعلقہ محکموں کے افسران کو برطرف کیا جائے۔
٭پی آئی اے کے تمام ملازمین کو مستقل روزگار دیا جائے نیز ادارے اور ایئر پورٹس کی آؤٹ سورسنگ کی کوششیں بند کی جائیں۔
٭ پی آئی اے کی نجکاری پالیسی کی منسوخی اور تمام شعبوں کو ریاستی کنٹرول میں لیا جائے۔
٭ تمام کیبن کریو اور پائلٹس کو بااختیار کیا جائے کہ خطرے کی نشاندہی اور آپریشنل مسائل پر ٹھوس اقدامات لے سکیں۔
٭اس حادثے میں شہید ہونے والے افراد اور رہائشیوں کو بہترمعاوضہ دیا جائے۔