معمول کے ادوار میں جب محنت کش طبقہ خاموشی سے حکمران طبقے کا ظلم و جبر برداشت کر رہا ہوتا ہے حکمران طبقہ خود کو دیوتا تصور کرنے لگتا ہے۔وہ محنت کشوں کا استحصال کرنا اپنا حق تصور کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے اس کی طاقت کو لگام دینے والا کوئی نہیں ہے۔ غلاموں میں یہ جرأت کہاں ہے کہ وہ ہمارے سامنے سر اٹھا سکیں۔عام حالات میں محکوم طبقے پر بھی حکمران طبقے کے نظریات غالب ہوتے ہیں۔محنت کش طبقہ خود کو حکمران طبقے کی دولت اور ریاست کے مقابلے میں حقیر، کمزور اور بے بس محسوس کرتا ہے۔جبر و استحصال اور محرومیوں کو مقدر سمجھ کر برداشت کرتا ہے،لیکن برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے،ظلم حد سے جب بڑھتا ہے تو بغاوت ہوتی ہے۔وہ بغاوت حکمران طبقے کی ریاست،ان کی سیاست، ان کے نظریات، اخلاقیات اور نفسیات کے خلاف ہوتی ہے، جو غربت اور محرومی کو محنت کشوں کا مقدر قرار دیتی ہے۔غلام مزید غلامی سے انکار کر دیتے ہیں۔ان میں اپنے ہونے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔
