پاکستان

ریاست امیر کے لئے ماں جیسی، غریب کے لئے ڈائن جیسی

فاروق سلہریا

چند روز قبل ’جدوجہد‘ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان کے امیر طبقے کس طرح 17 ارب ڈالر کی مراعات حاصل کرتے ہیں۔

ان امیر لوگوں کے لئے تو پاکستان ایک فلاحی ریاست بھی ہے اور ریاست ماں جیسی بھی لیکن پاکستان کے غریب شہریوں کے لئے ریاست کسی ڈائن سے کم نہیں۔ اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اگر ہم ملک میں موجود سوشل پروٹیکشن یعنی عوامی فلاح کے منصوبوں پر نظر ڈالیں۔

ملک میں صرف 10 فیصد ملازمین کو ریٹائرمنٹ پر پنشن ملتی ہے۔ ان میں بھی اکثریت فوجی و سرکاری ملازمین کی ہے۔ بنیادی پنشن ہر مرد عورت کا حق ہونا چاہئے۔ ایک مخصوص عمر (اس کی حد 65 سال مقرر کی جا سکتی ہے) کے بعد ہر شہری کو پنشن ملنی چاہئے تا کہ وہ بڑھاپے میں بھی، کسی پر بوجھ بنے بغیر، با وقار زندگی گزار سکے۔

بے روزگاری الاونس نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ریاست کا فرض ہے کہ ہر بے روزگار فرد کو کم از کم تنخواہ کے برابر بے روز گاری الاونس دے۔ حالت یہ ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ جیسے منصوبوں کے تحت صرف 5 فیصد غریب لوگوں کو بہت معمولی نوعیت کی ریاستی مدد ملتی ہے۔

صرف 1.7 فیصد معذور افراد کو سرکاری سہولیات دستیاب ہیں۔ معذور افراد کی دیکھ بھال گھر والوں کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔ یہ شہری ریاست کی ذمہ داری ہونی چاہئے نہ کہ گھر والوں کی۔

مفت تعلیم کی سہولت تو ایک طرف، تین کروڑ سے زائد بچے سکول نہیں جا پا رہے۔ پہلی جماعت سے لے کر پی ایچ ڈی تک، ہر شہری کومفت اور معیاری تعلیم کی فراہمی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔

2.7 فیصد مزدور کام کے دوران زخمی ہو جانے کی صورت میں کسی حد تک علاج معالجے کی سہولیات سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ یہ انشورنس سو فیصد ہونی چاہئے۔

اگر صحت کا شعبہ نکال دیا جائے (جہاں چالیس فیصد سے زائد شہری کسی نوعیت کی سہولت سے مستفید ہوتے ہیں) تو ریاستی فلاحی منصوبوں سے مستفید ہونے والے شہریوں کی تعداد 9.2 فیصد بنتی ہے۔

پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں اور اسٹیبلشمنٹ (وہ جج ہوں یا جرنیل یا بیوروکریٹ) اس نظام کو بدلنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے کیونکہ انہیں پنشن بھی مل رہی ہے اور 17 ارب ڈالر کی سہولیات۔ یہ 17 ارب ڈالر اگر مساوی تقسیم کئے جائیں تو تمام شہریوں کو با عزت زندگی گزارنے کا موقع مل سکتا ہے جو ان سب کا حق بھی ہے۔ اس سے ملکی معیشیت بھی بہتر ہو گی۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔