پاکستان


بلوچستان میں نظریات کی جنگ

اسی طرح بلوچستان کے وسطی اور مشرقی علاقوں میں اردو میں مذہبی لٹریچر بڑے پیمانے پر پڑھا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بلوچی مصنفین اور قارئین زیادہ تر مکران میں مقیم ہیں لیکن ان کے سامعین بھی زیادہ تر مکران میں مقیم ہیں۔ مکران کے اضلاع میں سے ایک پنجگور بھی نسبتاً مذہبی نوعیت کا ہے۔ مخلوط تعلیم اور پرائیویٹ سکولوں کو حالیہ برسوں میں مذہبی انتہا پسندوں نے بند کر دیا تھا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ بلوچی زبان میں چند رسائل ہیں،جو صرف مذہبی امور پر گفتگو کرتے ہیں۔
ان اختلافات اور مختلف سیاسی اسٹیک ہولڈرز کی ان کو حل کرنے میں ناکامی نے بلوچستان میں علم کی پیداوار کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اس جمود کا حتمی نقصان بلوچ شہریوں اور خاص طور پر نئی نسلوں کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ حقیقت اور پروپیگنڈے میں فرق کرنا ایسا نہیں ہے جس کا انہیں بوجھ برداشت کرنا چاہیے، لیکن یہ ایک بوجھ ہے جسے وہ اٹھانے پر مجبور ہیں۔

افغان مہاجرین: جائیں تو جائیں کہاں؟

ان مظلوموں کے ساتھ جو انسانیت سوز رویہ روا رکھا جا رہا ہے اس کے خلاف آواز اٹھانا ہر ذی شعور اور باضمیر انسان کا فریضہ بنتا ہے۔ اس نظام میں سرمائے کی نقل و حرکت تو آزاد ہے لیکن انسانوں کو سرحدوں میں قید کر کے ویزوں کا اسیر بنا دیا گیا ہے۔

غزہ پر اسرائیلی حملے صحافیوں کے لیے بھی جان لیوا ہیں!

صحافیوں کے تحفظ کی عالمی تنظیم سی پی جے کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اب تک اس جنگ میں مجموعی طورپر 8,000 عام شہری ہلاک ہوئے جن میں 27 صحافی بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 8صحافی زخمی اور9 زیرِحراست یا گم شدہ ہیں۔ان میں 22 فلسطینی، 4 اسرائیلی اورایک لبنانی صحافی شامل ہیں۔

موت حکمران بانٹ رہے ہیں، زندگی ہم چھین کر لیں گے

معمول کے ادوار میں جب محنت کش طبقہ خاموشی سے حکمران طبقے کا ظلم و جبر برداشت کر رہا ہوتا ہے حکمران طبقہ خود کو دیوتا تصور کرنے لگتا ہے۔وہ محنت کشوں کا استحصال کرنا اپنا حق تصور کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے اس کی طاقت کو لگام دینے والا کوئی نہیں ہے۔ غلاموں میں یہ جرأت کہاں ہے کہ وہ ہمارے سامنے سر اٹھا سکیں۔عام حالات میں محکوم طبقے پر بھی حکمران طبقے کے نظریات غالب ہوتے ہیں۔محنت کش طبقہ خود کو حکمران طبقے کی دولت اور ریاست کے مقابلے میں حقیر، کمزور اور بے بس محسوس کرتا ہے۔جبر و استحصال اور محرومیوں کو مقدر سمجھ کر برداشت کرتا ہے،لیکن برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے،ظلم حد سے جب بڑھتا ہے تو بغاوت ہوتی ہے۔وہ بغاوت حکمران طبقے کی ریاست،ان کی سیاست، ان کے نظریات، اخلاقیات اور نفسیات کے خلاف ہوتی ہے، جو غربت اور محرومی کو محنت کشوں کا مقدر قرار دیتی ہے۔غلام مزید غلامی سے انکار کر دیتے ہیں۔ان میں اپنے ہونے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

نواز شریف کی واپسی

جن تضادات نے حالات کو اس نہج تک پہنچایا ہے ان میں سے ایک بھی حل نہیں ہوا۔ اسٹیبلشمنٹ یا ڈیپ سٹیٹ کے ساتھ نواز شریف کا رشتہ جتنا ناپائیدار پہلے تھا اتنا ہی آج ہے۔ لیکن پاکستان کے حکمران طبقات اور پالیسی سازوں کے پاس اتنی گہرائی میں سوچنے کی نہ سکت ہے نہ وقت۔ لہٰذا وہ گھوم پھر کے پھر اسی تجربے کو دہرانے جا رہے ہیں جو ماضی میں کئی بار فیل ہو چکا ہے۔ شاید وہ اس کے علاوہ کچھ کر بھی نہیں سکتے۔ تاریخی طور پر ناکام نظاموں کے نمائندے دوررس دیکھنے اور سوچنے کی صلاحیتوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ چہرے جتنے بھی تبدیل ہوتے رہیں‘ حکومتیں آتی جاتی رہیں‘ محنت کش عوام کے لئے ایسے نظاموں میں ذلت اور بربادی کے سوا کچھ مضمر نہیں ہوتا۔ جب تک انہیں اکھاڑا نہ جائے‘ معاشرے ترقی اور آسودگی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتے۔

کشمیر کی تحریک اور خواتین کی جدوجہد

پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں تقریباََپچھلے 5 ماہ سے بجلی کے بلوں میں بے جا ٹیکسزکے خلاف اور آٹے پر سبسڈی کی بحالی کے لیے مختلف شہروں میں پر امن احتجاج اور دھرنے دیے جا رہے تھے۔ صورتحال اس وقت ایک اہم موڑ اختیار کر گئی جب گزشتہ ماہ عوامی ایکشن کمیٹی اور انجمن تاجران کی طرف سے بل نہ جمع کروانے کی تحریک شروع ہوئی۔ اس فیصلے کو بھرپور عوامی پذیرائی ملی۔ دیکھتے ہی دیکھتے سول نافرامانی کی یہ تحریک پوری ریاست کے چپے چپے میں پھیل گئی۔ پانچ ستمبر کو مظفرآباد، راولاکوٹ، کوٹلی،میرپور اور دیگر علاقوں میں ہزاروں کی تعداد میں عوام نے شٹرڈؤن اور پہیہ جام ہڑتال کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرے منظم کیے اور بجلی کے بلوں کو جلایا اور دریا برد کیا گیا۔

نکل جاؤ پاکستان سے…

موجودہ کیفیت میں سب سے اہم یہ ہے کہ جن افغانوں پر یہ فسطائی چھری چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے ان کی اس حالت زار کا ذمہ دار کون ہے؟ افغانستان تو ہمیشہ ایسا نہ تھا جن بربادیوں کی جانب اس کو سامراج اور اس کے حواریوں نے دھکیل دیا ہے۔ 1978ء کا افغان ثور انقلاب وہ روشن مینارہ تھا جو سوویت یونین کی سٹالنسٹ افسر شاہی سے آزادسوشلسٹ بنیادوں پر استوارہوا تھا۔ زرعی اصلاحات، خواتین کی خرید و فرخت سمیت تمام خواتین دشمن قوانین کا خاتمہ، جاگیرداروں اور ساہوکاروں کے قرضہ جات کا خاتمہ جس کا مطلب 80 فیصد کے قریب دیہاتی آبادی پر سے غلامی کی طوق اتارنا تھا‘ یہ اس انقلاب کی حاصلات تھیں کہ جن کے پیش نظر امریکی سامراج اور اس کے حواریوں نے اس پر یلغار کر دی۔ اس انقلاب کو کچلنے کے لئے ضیا آمریت کے تحت ڈالر جہاد کے لیے پوری ریاستی مشینری متحرک کی گئی۔

امہ کی چیمپئین جماعت، جمعیت افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے پر چپ

افغانستان میں جاری چالیس سالہ جنگ کو جہاد قرار دے کر تو ان دو جماعتوں نے شائد ہزاروں پاکستانی نوجوانوں کو جہاد کے نام پر ورغلا کر جنت کے سفر پر روانہ کیا (ان دونوں جماعتوں کی قیادت البتہ خود کبھی شہادت کے منصب پر فائز ہونے کے لئے ڈیورنڈ لائن کے اس پار نہیں گئی)۔ افغانستان کے خون خرابے میں اگر سویت روس، امریکہ، سعودی عرب اور پاکستانی ریاست کا کردار شرمناک ہے تو مندرجہ بالا دو جماعتیں بھی افغانستان میں افرا تفری کی ذمہ دار ہیں۔

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں عوامی بغاوت کے 5 ماہ: میڈیا خاموش

اس تحریک کا سب سے اہم اور کامیاب ہتھیار بجلی کے بلوں کا بائیکاٹ ہے۔ گزشتہ دو ماہ سے بجلی کے بلوں کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔ ماہ اگست میں پونچھ اور میرپورڈویژن میں بجلی کی بلوں کا بائیکاٹ کیا گیا، جبکہ ماہ ستمبر میں مظفرآباد ڈویژن نے بھی بجلی کے بلوں کا بائیکاٹ شروع کیا۔ مجموعی طور پر 70 فیصد سے زائد بلوں کا بائیکاٹ کیا گیا اور بجلی کے بل شہریوں سے جمع کر کے مختلف شہروں میں نذر آتش بھی کئے گئے اور کچھ شہروں میں بلوں کی کشتیاں بنا کر انہیں دریاؤں میں بہایا گیا۔

ریاست امیر کے لئے ماں جیسی، غریب کے لئے ڈائن جیسی

ان امیر لوگوں کے لئے تو پاکستان ایک فلاحی ریاست بھی ہے اور ریاست ماں جیسی بھی لیکن پاکستان کے غریب شہریوں کے لئے ریاست کسی ڈائن سے کم نہیں۔ اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اگر ہم ملک میں موجود سوشل پروٹیکشن یعنی عوامی فلاح کے منصوبوں پر نظر ڈالیں۔

ملک میں صرف 10 فیصد ملازمین کو ریٹائرمنٹ پر پنشن ملتی ہے۔ ان میں بھی اکثریت فوجی و سرکاری ملازمین کی ہے۔ بنیادی پنشن ہر مرد عورت کا حق ہونا چاہئے۔ ایک مخصوص عمر (اس کی حد 65 سال مقرر کی جا سکتی ہے) کے بعد ہر شہری کو پنشن ملنی چاہئے تا کہ وہ بڑھاپے میں بھی، کسی پر بوجھ بنے بغیر، با وقار زندگی گزار سکے۔