پاکستان


پی ٹی آئی ہی نہیں، ن لیگ بھی ٹوٹ گئی ہے

پاکستان تحریک انصاف کی توڑ پھوڑ پر تبصرے جاری ہیں۔ ایک دلچسپ پہلو پر تبصرہ البتہٰ دیکھنے کو نہیں ملا۔ حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی ہی نہیں، مسلم لیگ نواز بھی ٹوٹ گئی۔ عمل مختلف ہے۔ عمران خان کو وقتی طور پر فوج سے ٹکر لینے کی وجہ سے، اپنی جماعت کی توڑ پھوڑ دیکھنا پڑی ہے۔ انہیں ریاستی تشدد سے ختم کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب، نواز لیگ فوج سے تعاون کے نتیجے میں عوام کے اندر اپنی حمایت کھو کر کھوکھلی ہو گئی ہے۔

جنرل جنجوعہ کی نواسی خدیجہ شاہ کے نام ایک خط

آپ کی آڈیو سے مزید پتہ چلا کہ آپ جمہوریت پسند ہیں اور حقیقی آزادی کی قائل ہیں۔ امید ہے آپ اپنے والد سلمان شاہ کے خلاف بھی کسی دن یہ موقف اختیار کریں گی کہ انہوں نے جنرل مشرف کی فوجی آمریت کا حصہ بن کر جمہوریت کا نقصان کیا۔ امید ہے آپ کے والد بھی اپنی اس جمہوریت دشمنی پر پاکستانی شہریوں سے معافی مانگیں گے کیونکہ جب سے آپ روپوش ہوئی ہیں انہیں بھی جمہوریت کی اہمیت کا اندازہ ہو گیا ہے۔ ویسے کبھی سوچا، یا آپ کے والد نے (جو ماہر معیشت ہیں) کبھی بتایا کہ غیر ملکی قرضوں کی واپسی، نئیو لبرلزم، نج کاری، آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر عمل درآمد بھی انتہائی غیر جمہوری معاشی اقدامات ہیں۔

دیوتاؤں کی لڑائی میں عوام کی قربانی

پاکستانی ریاست کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو اپنے آغاز سے ہی یہ ریاست معاشی، سیاسی اور نظریاتی بحران کا شکار نظر آتی ہے۔ تاہم بحران کی جو شدت اور انتشار کی جو کیفیت آج ہے، اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی ہے۔ معاشی بحران اور سیاسی و سماجی انتشار اپنی انتہاؤں کو پہنچ چکا ہے۔ حکمران طبقے کی لڑائی خفیہ سازشوں اور الزام تراشیوں سے نکل کر سڑکوں پر ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے گھروں پر حملوں اور گریبانوں پر ہاتھ ڈالنے تک پہنچ چکی ہے۔ ریاستی اداروں میں پھوٹ اور دھڑے بندی،جو پہلے ڈھکی چھپی تھی، اب بالکل واضح ہو چکی ہے۔

چین پاکستان 58 ارب ڈالر ریلوے منصوبہ نہ زیر غور ہے، نہ ہی ممکن

تاہم مزید تجزیے اور تفتیش پر یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ دعویٰ درست نہیں ہے۔ چین نے اس منصوبے پر آگے بڑھنے کا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا ہے اور نہ ہی کوئی نئی فزیبلٹی اسٹڈی مکمل ہوئی ہے۔ ایس سی ایم پی کی کہانی بالکل بھی فزیبلٹی اسٹڈی پر مبنی نہیں تھی، بلکہ ایک جریدے کے مضمون پر مبنی تھی، جس کا عنوان ”ریلوے کے گو گلوبل پروجیکٹس کے سرمایہ کاری اور فنانسنگ آپریشن موڈ پر تحقیق“ تھا، جو چینی جرنل آف ریلوے ٹرانسپورٹ اینڈ اکانومی میں شائع ہوا تھا۔ راقم کے پاس چینی زبان میں مضمون کی ایک کاپی موجود ہے۔

سوات میں امن کے نعرے کی مقبولیت

سوات کے عوام کا کسی بھی بڑے دھماکے کے فوراً بعد یہ کہنا کہ ایسے کاموں میں ریاست برابر کی شریک ہے، خود ریاست کے لئے ایک بڑی تشویش کی بات ہونی چاہیے۔ ریاستی رٹ کو چیلنج کرنا اور ریاستی اداروں پر مسلسل تنقید اور تشکیک کا ”آفٹرمیتھ“ کتنا بھیانک ہو سکتا ہے، تاریخ نے ہمیشہ اس بات کی وضاحت دی ہے۔ مشرقی پاکستان کے ٹوٹنے کے وقت بھی اسی گمان سے فضا ابر آلود تھی۔ بلوچستان کا امن اسی محرومی کی وجہ سے برباد ہے۔ یہی محرومی بلوچ نوجوانوں کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کرتی ہے۔ بلوچستان کی مائیں جب اپنے بچوں کے چہرے دیکھنے کے لیے ترس کر چپ کی چادر اوڑھ لیتی ہیں، تو نئی نسل کے خون میں اپنے حق کے لئے آواز اٹھانے اور ان حقوق کو حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کا جذبہ خود جنم لے لیتا ہے۔

مذہبی جنون: دوست ممالک بھی پاکستان سے بیزار

استحکام اور خوشحالی کے راستے پر چلنے کے لئے پاکستان کو ایک معمول کا ملک بننا ہو گا۔ اس کا مطلب ہے کہ یہاں کے متفرق شہری حلقوں کا ایک دوسرے پر انحصار ہو اور ایسا رضا کارانہ طور پر ضرورتوں کی بنیاد پر کیا جائے نہ کہ ٹھونسے گئے مذہبی نظریات کی بنیاد پر۔ ریاستی اداروں اور سکولوں کے زہریلے نصاب کے ذریعے پھیلائی گئی مذہبی جنونیت کے نتیجے میں دنیا کے اندر ہماری کوئی عزت نہیں ہو رہی۔ اس کے نتیجے میں الٹا بے قابو اور وحشی ہجوم پیدا ہو رہا ہے۔ اب تو ہمارے دوست بھی ہم سے خوف کھانے لگے ہیں۔

ڈوبتا پاکستان

معاشی بحران سیاسی بحران سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ مخلوط حکومت تیل، گیس، بجلی، جنرل سیلز ٹیکس اور دیگر اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ کرکے آئی ایم ایف کی عوام دشمن شرائط پر عمل پیرا ہے۔ پاکستانی روپیہ امریکی ڈالر اور دیگر غیر ملکی کرنسیوں کے مقابلے میں تقریباً روزانہ اپنی قدر کھو رہا ہے۔ 7 اپریل کو ایک ڈالر 290 روپے سے زیادہ میں فروخت ہو رہا تھا، جو ایک سال پہلے 150 سے زیادہ تھا۔

ایمیزون کے برساتی جنگلات کی کٹائی میں 14 فیصد اضافہ

’رائٹرز‘ کے مطابق مقامی ماحولیاتی گروپ کا کہنا ہے کہ جنگلات کے کٹاؤ میں اضافہ ظاہر کرتا ہے کہ ایمیزون اب بھی گورننس کی بہت بڑی کمی کا شکار ہے اور نئی حکومت کو ماحولیاتی جرائم پر کنٹرول کیلئے اپنی صلاحیت کو دوبارہ بنانے کیلئے فوری طور پرکام کرنے کی ضرورت ہے، جسے گزشتہ حکومت نے مکمل طور پر تباہ کر دیا تھا۔‘

بوسیدہ نظام کی خیرات پر مبنی انسانیت سوز پالیسیاں

جب کوئی نظام تاریخی طور پر اپنی طبعی عمر پوری کر لے تو وہ نسل انسانی کو مزید ترقی دینے سے قاصر ہو جاتا ہے، امن اور خوشحالی کی بجائے بربادیاں اکثریتی انسانوں کا مقدر بن جاتی ہیں۔ یہی کیفیت عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی ہے۔ مروجہ نظام میں نسلِ انسانی کو کئی طرح کے بحرانوں کا سامنا ہے۔ لاکھوں کروڑوں انسان بھوک اور غربت کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ جان لیوا وبائیں پورے کرہ ارض کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔ ماحولیاتی تباہی کی وجہ سے زلزلے، سیلاب جیسی قدرتی آفات اس سیارے کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہیں۔ جنگ اور خانہ جنگی کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ یہ تمام علامات اس نظام کے زوال کی نشانیاں ہیں جو متروک ہو کر اپنی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔