نوے کی دہائی میں زیر حراست خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکی تھی۔ انسانی حقوق کے جو کارکن اس مسئلے کے خلاف آواز اٹھا رہے تھے انہیں ’ریاست دشمن‘ اور ’مغرب کی فیمن اسٹ ایجنٹس‘ کہا جا رہا تھا۔ 1991ء میں ہیومن رائٹس واچ نے دعویٰ کیا کہ پولیس کی حراست میں 70 فیصد خواتین جیلر کے ہاتھوں جنسی یا جسمانی تشدد کا شکار بنتی ہیں۔ 50 تا 70 فیصد خواتین بارے کہا گیا کہ انہیں حدود قوانین کے تحت بغیر قانونی کاروائی کے،محض الزام کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا تھا۔
پاکستان
فٹ بال کو بھی عمران خان سے بہتر کوئی نہیں جانتا
معلوم نہیں ان کے دوست سلطان رجب طیب اردگان نے انہیں فون کیا یا نہیں البتہ امید ہے قوم یوتھ کا کوئی فرد انہیں یاد دلا دے گاکہ ترکی فٹ بال ورلڈ کپ کا سیمی فائنل 2002ء میں کھیل چکا ہے۔ گو ترکی فائنل میں نہیں پہنچا تھا مگر کانسی کا تمغہ جیتنے میں کامیاب رہا تھا۔
رئیل اسٹیٹ کا کاروبار ملکی معیشت پر خود کش حملہ ہے
ریاستی وسائل صنعت اور صنعت کے لئے ضروری انفراسٹرکچر (مثلاً تعلیم، صحت، خوراک، توانائی، سڑکیں، ریل، پل) بنانے کی بجائے یہ وسائل ایسے رنگ روڈ، موٹروے، ائر پورٹ بنانے پر خرچ ہو رہے ہیں جن سے نام نہاد پراپرٹی ڈیولپرز فائدہ اٹھا سکیں۔ تیسری دنیا کے ممالک میں تو یہ انتہائی ضروری ہے کہ ریاست ترقیاتی منصوبہ بندی میں کردار ادا کرے۔ ہمارے ہاں یہ نام نہاد پراپرٹی ڈیلرز یا تو سیاسی قیادت کو خرید لیتے ہیں یا براۂ راست حکومت کا حصہ ہیں۔ اگر ملک ریاض نے بھٹو خاندان کو بلاول ہاؤس کا تحفہ دیا تو عمران خان اور نواز شریف کے لئے بھی ان کی بے شمار خدمات ہیں۔ پھر علیم خان جیسے کردار بھی ہیں۔ کوئی بڑا چھوٹا سیاستدان نہیں جو رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں نہ ہو۔ ریاستی وسائل کی تقسیم کا فیصلہ چونکہ انہی لوگوں نے کرنا ہوتا ہے اس لئے رنگ روڈ کا منصوبہ ابھی اخبار کی سرخی بھی نہیں بنتا مگر مجوزہ رنگ روڈ کے ارد گرد زمین بک چکی ہوتی ہے۔ اس عمل کے نتائج اگلے نقطے میں بیان کئے جا رہے ہیں۔
وزیر اعظم صاحب! آپ لینڈ مافیا کے ساتھ ہیں یا قائد اعظم یونیورسٹی کے؟
پاکستان کی ایک اہم ترین پبلک یونیورسٹی کی زمین بچانے کے لئے کچھ لوگ انتہائی مشکل لڑائی لڑ رہے ہیں۔ یہ لڑائی محض یونیورسٹی کی زمین بچانے کے لئے نہیں، یہ لڑائی پاکستانی کی روح بچانے کے لئے لڑی جا رہی ہے۔ اس لڑائی کا مقصد پاکستان کی واحد وفاقی یونیورسٹی کا دفاع کرنا ہے۔ اس سے بھی اہم بات: اس لڑائی کا جو بھی نتیجہ نکلے گا اس سے یہ طے ہو گا کہ ہماری قومی ترجیحات کیا ہیں۔ اس لڑائی کا جو نتیجہ نکلے گا اس سے یہ بھی طے ہو جائے گا کہ کیا ملک کے تعلیمی ادارے سیاستدانوں کی سڑکوں اور رہائشوں کے لئے قربان کر دئے جانے چاہئیں؟ کیا عوامی جدوجہد سیاستدانوں، قبضہ مافیا اور بد عنوان سرکاری اہلکاروں کو شکست دے سکتی ہے؟ اگلے چند ہفتوں میں یہ طے ہو جائے گا۔
جموں کشمیر: بلدیاتی انتخابات ری شیڈول، سازشیں پھر بھی جاری
جس نئی سیاسی پرت کو سامنے آنے سے روکنے کیلئے بلدیاتی انتخابات کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں، وہ انتخابی مہم کے دوران نہ صرف سامنے آچکی ہے، بلکہ اپنے سیاسی حق کے حصول کیلئے کمر بستہ بھی نظر آتی ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے ملتوی ہونے کی صورت میں اس خطہ میں احتجاج کی ایک نئی لہر کا ابھار ہو سکتا ہے۔ یہ احتجاج محض بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے مطالبے تک محدود نہیں رہے گا۔
علی وزیر کو جیل میں رکھنے کیلئے سب ’ایک پیج‘ پر: زر ضمانت 29 لاکھ ہو گیا
علی وزیر اس وقت ایک ایسا انقلابی استعارہ بن چکے ہیں کہ جس کے خلاف حکمران طبقات کے سارے نمائندگان تمام تر آپسی اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے ’ایک پیج‘ پر نظر آ رہے ہیں۔ بظاہر پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف ایک دوسرے پر تنقید کے تیر برسانے میں پیش پیش ہیں۔ دونوں جماعتوں کی قیادتوں کی سیاست ہی ایک دوسرے کے خلاف نظر آتی ہے مگر علی وزیر کے معاملے پر دونوں جماعتوں کی حکومتیں باہمی تعاون اور ہم آہنگی کا بے مثال مظاہرہ کر رہی ہیں۔
مارشل لا لگے گا نہ اگلی حکومت عمران خان بنا سکیں گے
اگر عمران خان کی حکومت ہابرڈ رجیم تھی تو موجودہ سیٹ اپ ہائبرڈ رجیم پلس ہے۔ اگر عمران خان محنت کش طبقے کے دشمن اور نیو لبرل معیشت لاگو کرنے والے سیاستدان تھے تو موجودہ حکومت بھی اسی ڈگر پر گامزن ہے۔ اگر عمران خان نے بیرونی قرضوں سے عوام کی کمر توڑ دی تو شہباز شریف بھی کچھ کم نہیں۔ علی وزیر تب بھی جیل میں تھے، اب بھی رہائی ممکن نہیں ہو رہی۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ تب بھی حل نہیں ہو رہا تھا، اب بھی وہیں ہے۔ مہنگائی تب بھی کمر توڑ رہی تھی،اب بھی۔ اب تو برداشت سے باہر ہو گئی ہے۔
بیانئے کا سفلی پن: ’عمران نیازی‘ بمقابلہ ’مریم صفدر‘
غالباً عمران خان کو عمران نیازی قرار دے کر ان کا ناطہ جنرل اے کے نیازی سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
عمران خان اتنے ہی اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں، جتنے ماضی میں نواز شریف تھے
عمران خان کے حملے کے ایشو پر ریاستی تقسیم عروج پر ہے۔ عمران خان کا سارا فوکس اب چیف جسٹس آف پاکستان پر ہے۔ وہ بھی اب عمران خان کی زد میں ہیں کہ سپریم کورٹ اسکا نو ٹس کیو ں نہیں لے رہا۔ ایف آئی آر اگر تینوں کے خلاف کٹ بھی جائے،تو سزا کے لحاظ سے عمران خان کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچے گا۔ یہ ایف آئی آر اب ضد کی جنگ میں بن گئی ہے۔ ایک مغرور، گھمنڈی، زخمی عمران خان اور دوسری جانب فوجی اسٹیبلشمنٹ ایک دوسرے کو پنجا دکھانے پر تلے ہوئے ہیں۔
عمران خان پر حملہ: عمران کا جوابی حملہ
عمران خان کی ترجمانی کرتے ہوئے اسد عمر نے اس حملے کا الزام شہباز شریف، رانا ثنا اللہ اور ’میجرجنرل فیصل نصیر‘ پر لگایا۔ بہ الفاظ دیگر عمران خان نے کھل پر فوج پر الزام لگایا ہے۔ اگر ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم انجم اور ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل بابر افتخار کی پریس کانفرنس پاکستان تحریک انصاف کو چتاؤنی تھی تو عمران خان کا ایک میجر جنرل پر قاتلانہ حملے کا الزام لگانا جوابی حملہ ہے۔ گویا عمران خان نے بھی کھل کر جنگ کا ا علان کر دیا ہے۔